پاکستان میں آج کے دور میں صحافت آزاد ہے یا نہیں، یہ بحث گذشتہ کچھ عرصے سے زوروشور سے جاری ہے اور اب صحافیوں کی عالمی تنظیم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نے بھی اب اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے نام ایک خط لکھا ہے۔
عمران خان نے حال ہی میں اپنے دورۂ امریکہ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ پاکستان میں صحافت پر کوئی قدغن نہیں اور نہ ہی صحافیوں کو کسی دباؤ کا سامنا ہے۔
آر ایس ایف کے خط میں تفصیل سے ایسے واقعات کا ذکر شامل ہے جو پاکستان میں سینسرشپ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اپنے خط میں تنظیم نے وزیراعظم پاکستان سے کہا ہے کہ ’آپ کو یا تو آزادی صحافت سے متعلق درست معلومات نہیں دی جا رہی ہیں اور ایسی صورت میں آپ فوری طور پر اپنے اردگرد ایسے افراد پر مشتمل ٹیم کو تبدیل کر سکتے ہیں یا دوسری صورت یہ ہے کہ آپ جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں اگر ایسا ہے تو آپ کے عہدے کے اعتبار سے یہ بہت ہی سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
’پاکستان میں سینسر شپ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے‘
سینسرشپ: ’حساس موضوعات کو ہاتھ نہ لگائیں‘
’پاکستان میں مزاحمتی صحافت بھی دم توڑ رہی ہے‘
خاموش رہنے میں ہی سب کا بھلا ہے؟
آر ایس ایف کے خط میں کہا گیا کہ ’آپ جیسے ہی واشنگٹن پہنچے تو پاکستان میں جیو نیوز کو بند کردیا گیا اور عوام صرف ساہ سکرین ہی دیکھ سکتے تھے۔ ایک ماہ پہلے سابق صدر آصف زرداری کے انٹرویو کو آف ایئر کر دیا گیا۔
وزیر اعظم عمران خان کو پابندیوں کی خبر ہے؟
سینیئر صحافی مظہر عباس کے خیال میں غالباً وزیر اعظم عمران خان کو اس سینسر شپ کا اندازہ ہی نہیں ہے۔
https://twitter.com/RSF_inter/status/1156548491021361154
’وہ میڈیا پر تنقید بھی کرتے ہیں اور تعریف بھی کرتے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اس وقت تک حکومت کے دو وزیر اطلاعات آچکے ہیں۔ پہلے وزیر (فواد چوہدری) نے میڈیا کو کنٹرول میں لانے کے لیے پریس میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی بات کی جبکہ موجودہ وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے میڈیا کورٹس کی تجویز دی ہے۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ حکومت میڈیا کو قابو میں رکھنا چاہتی ہے۔‘
سینسرشپ پر آر ایس ایف کو خط لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
عارفہ نور اسلام آباد میں ڈان کی ایڈیٹر رہ چکی ہیں۔ اب وہ ڈان ٹی وی پر حالات حاضرہ کے ایک پروگرام کی میزبانی کررہی ہیں۔ صحافت کو درپیش مسائل پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ دباؤ بڑھ رہا ہے لیکن یہ سلسلہ تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے سے شروع ہوا ہے۔
‘صرف فرق اتنا ہے کہ جس دباؤ کا پہلے کوئٹہ اور فاٹا کے صحافیوں کو سامنا تھا اب وہ اسلام آباد تک بھی پہنچ چکا ہے۔’
عارفہ نور کے مطابق دباؤ مختلف نوعیت کا ہے جس کا مقابلہ بہتر صحافتی اصولوں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔
سینیئر صحافی مظہر عباس نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر صحافی سے کسی کو شکایت ہے تو پھر اس کام کے لیے مدیر اور میڈیا کا ادارہ موجود ہے۔ حکوت کوئی راست اقدام نہ اٹھائے۔ ’حکومت خود دباؤ بڑھانے کے بجائے میڈیا کمپلینٹ کمیشن بنا دے۔‘
ایک سوال کے جواب میں عارفہ نور کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو بھی اصولوں کی بنیاد پر فیصلے کرنے ہوں گے۔ اگر کسی صحافی کو گرفتار کیا جاتا ہے یا چینل بند کر دیا جاتا ہے تو پھر پسند اور ناپسند سے ہٹ کر اصولی بنیاد پر ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہو گا۔
عارفہ نور کے مطابق ’جب ارشد شریف پر ایف آئی آر درج ہوئی، ڈان لیکس کے بعد جب صحافی سِرل المیڈا کا نام ای سی ایل پر ڈالا گیا، جب شاہد مسعود کو گرفتار کیا گیا، جب جیو بند کیا گیا اور پھر جب اے آر وائی کو بندش کا سامنا رہا تو ہر بار کچھ صحافی ایسے بھی تھے جو کہہ رہے تھے کہ صیحیح ہوا ہے۔‘
ان کے خیال میں میڈیا میں تقسیم مزید دباؤ کی وجہ بن جاتی ہے۔
یہ دباؤ کس طر ف سے آتا ہے؟
عارفہ نور کے مطابق دباؤ مختلف اطراف سے ہے۔ ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتا ہے۔ پہلے کبھی پانامہ کی رپورٹنگ سے متعلق بھی ہدایات دی جاتی تھیں۔
مظہر عباس کے مطابق حکومت تنقید کرنے والے اخبارات کے اشتہارات روک لیتی ہے جس سے ورکرز کی تنخواہیں رک جاتی ہیں۔ ان کے مطابق گذشتہ حکومت میں بھی پرنٹ میڈیا سے متعلق ایک قانون بنایا گیا جس سے وزرات اطلاعات نے لاتعلقی کا اظہار کیا تو اس کے بعد وہ مرحلہ ادھر ہی رک گیا۔
عارفہ نور کا کہنا ہے کہ ‘ماضی کے مقابلے میں اب فرق اتنا ہے کہ سب کی رائے ایک ہے اور میڈیا میں کوئی ایسی ‘پراکسی وار’ بھی نہیں ہورہی ہے جس کی وجہ سے دباؤ زیادہ محسوس ہوتا ہے۔’
مظہر عباس کا کہنا ہے یہ موجودہ سینسرشپ ضیا اور مشرف کے دور جیسی تو نہیں ہے البتہ اب اس طرح کی پابندیوں کا طریقہ بدل گیا ہے۔
مظہر عباس کا کہنا ہے کہ بعض مواقع پر پیمرا بھی کہتا ہے یہ نہیں معلوم کس نے چینل بند کیا ہے۔ وزارت اطلاعات کو بھی پتا نہیں چلتا۔ ’جب نہ ریگولیٹر کو پتا ہے اور نہ وزارت اطلاعات کو تو پھر انگلیاں اسٹیبلشمنٹ پر اٹھتی ہیں۔‘
مظہر عباس کا کہنا ہے اگر عدالت جانا پڑے تو اس بات کے تو ثبوت نہیں ہیں لیکن جو ہو رہا ہے ایسی نشانیاں ہیں کہ کوئی تو ہے پھر جو میڈیا کاا نظام چلا رہا ہے۔
مظہر عباس کے مطابق اس وقت ٹی وی چینلز کو غیر اعلانیہ ہدایات ملی ہوئی ہیں کہ ’مختلف اصطلاحات کو میوٹ کر دیا جائے جبکہ مریم نواز کے انٹرویو کو کم سے کم دکھایا جائے۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف سائبرکرائم قانون کا استعمال بھی کیا جارہا ہے۔ ’دو صحافیوں کو گرفتار بھی کیا گیا تاہم بعد میں جب ایف آئی اے کوئی ثبوت نہیں پیش کرسکی تو پھر ان کو رہائی ملی۔