عمر جرار
زندگی بے رنگ ہے، ہم اسے جذبات کے رنگوں سے رنگتے ہیں۔ واقعات بے معنی ہوتے ہیں، ہم انہیں معنی و مفہوم سے آراستہ کرتے ہیں۔ جیت کیا ہے، ہار کیا اس کا انحصار اس بات ہر ہے کہ ہم اسے کیسے دیکھ رہے ہیں۔ ایک ہی موقع خوشی اور غم، ہار جیت، پیار اور غصہ، غرضکہ تمام جذباتی تاثرات لیے ہوتا ہے۔ لکیروں سے بدلے جغرافیے ہماری قلبی کیفیات کا تعین کرتے ہیں کہ کس طرف اپنے اور کس طرف پرائے۔ کس نے کیا مطلب لینا ہے یہ افراد کی سیلف پرسیپشن پر منحصر ہے۔
کسی خاص محرک کے زیراثر فرد یا افراد کا ردعمل ان کے ذاتی تخیل کے تابع ہے۔ نہ صرف ردعمل بلکہ نتائج بھی ویسے ہی چاہیے ہوتے ہیں جیسا کہ ہم سوچ رہے ہوتے ہیں۔ ہمارا رد عمل ہماری سوچ سے جنم لیتا ہے۔ افراد، اشیاء، اور واقعات کو ہم دو طرح سے دیکھتے ہیں۔ ناکامی کو ناکامی سمجھ لینا سوچ کا ایک پہلو ہے۔ یہ سٹیریؤ ٹائپ تھنکنگ یا دقیانوسی سوچ کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ سٹیریو ٹائپ تھنکنگ کیا ہے؟ لوگوں کے رویے سے متعلق ایک عام تاثر قائم کرلینا کہ ایک مخصوص گروہ کے لوگوں کا رویہ کس قسم کا ہوتا ہے۔
عام طور پر اس رویے کے زیراثر لوگ شکست خوردگی سے مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اور انتقامی سوچ پروان چڑھتی ہے۔ یہ ایک تخریبی ردعمل ہے جو منفی سرگرمیوں کا مؤجب بنتا ہے۔ اس کے برعکس سوچ کا ایک تعمیری اور روشن پہلو بھی ہے۔ ہار جیت کا پہلا زینہ ہوتی ہے۔ ناکامی کو کامیابی کی کنجی بنالینا بھی انسانی رویہ ہے۔ اس سے تعمیری صلاحیتوں کو پنپنے کا موقع میسر آتا ہے۔
یہ دو مختلف رویے کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ وہ کون سے عوامل کارفرما ہیں جو مایوسی کا سبب بنتے ہیں اور کیا چیز انسان کو اوج ثریا تک لے جاتی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے روویوں کے زیراثر لوگوں کی کلاسیفیکیشن کرنی ہوگی۔ ہمارے پاس دوطرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو ماضی میں پھنسے رہتے ہیں اور لوگوں کے رویے ان کے ردعمل پر گہرا اثر رکھتے ہیں۔ ماضی میں پھنسے لوگ جب بھی کوئی کام کرنے لگتے ہیں تو وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر پہلے سے ایک رائے قائم کرلیتے ہیں کہ نتائج کیا نکلیں گے۔
اس کی مثال یوں لی جاسکتی ہے کہ ایک شخص نے کسی وقت ایک امتحان دیا اور وہ اس میں ناکام ہوگیا تو اب اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اس امتحان میں کامیابی بہت مشکل ہے۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ملازمتوں کے حصول کے لیے سفارش ہونی چاہیے۔ اب جس شخص میں یہ سوچ پیدا ہوجائے تو وہ امتحان کی تیاری نہی کرے گا بلکہ اس کی کوشش یہ ہوگی کہ وہ کوئی شارٹ کٹ ڈھونڈے۔ ایسا کرنے سے اس کی تعمیری صلاحیتوں پر قدغن لگ جائے گا۔ مقابلہ کرنے کی ہمت اور صلاحیت رفتہ رفتہ مٹتی چلی جائے گی۔ خوداعتمادی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ یہی وہ چیز ہے جو سوچ کو تاریکی کی طرف لے جاتی ہے۔
خوداعتمادی کا خاتمہ احساس محرومی کو جنم دیتا ہے۔ یہ جذبات کو اندھیری کھائی میں لے جاتا ہے جہاں انسان موت کو اس بات پر ترجیح دیتا ہے کہ وہ مشکلات کا سامنا کرے۔ زندگی کا خاتمہ آسان لگتا ہے اس بات پر کہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرے۔ خود کشی کی واحد وجہ خوداعتمادی کا خاتمہ ہی ہے۔ حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھنے والا کبھی اس انتہائی قبیح عمل کا سوچ بھی نہی سکتا۔ خود کشی کے علاوہ ایسے لوگوں کے پاس اگر دوسری صورت بچتی ہے تو جرائم ہیں۔
انسان مایوس ہوکر انتقام پر اتر آتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اس کی تمام تر محرومیوں کے ذمہ دار دوسرے لوگ ہیں۔ اپنی ناکامی کو جب وہ دوسرون کی کامیابی سمجھنے لگتا ہے تو عداوت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ اندت ہی اندر نفرت کی آگ سلگتی ہے جو لاوہ بن کر پھٹ پڑتی ہے۔ پیچھے رہ جانے کا مطلب یہ لیتا ہے کہ لوگوں نے اس ناحق روند ڈالا ہے۔ وہ ان سے انتقام لینے کے لیے سوچ کے تاریک پہلووں کے زیر اثر منفی رجحان کی طرف مائل ہوتے ہوتے جرم کا ارتکاب کربیٹھتا ہے۔ جرائم مایوسی جنم لیتے ہیں اور مایوسی دقیانوسی سوچ کی پروردہ ہے۔ دقیانوسی سوچ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان کو عرفان ذات یا خود آگہی کا شعور نہ ہو۔
خودشناسی سے بے بہرہ لوگ مایوس ہی نہی ہوتے بلکہ ان کا خود پر کوئی کنٹرول نہی رہتا۔ ایسے لوگ روویوں کے زیراثر ردعمل دیتے چلے جاتے ہیں۔ سماج اور معاشروں میں ایسے لوگوں کی بقا ممکن نہی رہتی کیونکہ ایسے تمام افراد بقائے باہمی کے اصولوں سے نا صرف ناخواندہ ہوتے ہیں بلکہ ایسا خودکار نظام سرے سے موجود ہی نہی ہوتا جو ان کو معاشرتی روویوں کو سمجھنے کی صلاحیت بخشے۔ ایسے میں کمزور اعصاب کے مایوس لوگوں کا انجام خودکشی ہوتا ہے جس میں پچھتاوے کا موقع بھی نہی ملتا۔
جو ذرا اعصابی طور پر مضبوط ہوتے ہیں مایوسی ان کو جرم کی طرف لے جاتی ہے۔ مجرم ایک طرف خود کو تباہ کربیٹھتا ہے تو دوسری طرف معاشرے کے لیے ناسور بن جاتا ہے۔ اس بات کا احساس مجرم کو تب ہوتا ہے جب جرم جب سرذد ہوچکا ہوتا ہے اور وہ پچھتاوے کی تصویر بن جاتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اپنے انجام سے قبل اس کا اعتراف بھی کرتا ہے کہ اس سے غلطی سرذد ہوئی۔ اگر اپنی صلاحیتوں کو اندھیرے بانٹنے کے ماسوا اجالے لانے مین صرف کرتا تو آج عزت و تکریم مقدر ٹھہرتی۔ ذرا سی بے صبری اور مایوسی نے ہنر اور صلاحیتوں کو مسدود راہوں پہ ڈال کر موت کی گھاٹی میں لا چھوڑا۔
سوچ کا ایک مثبت پہلو بھی ہے جو روز روشن کی طرح تابناک ہے۔ یہ سمندر کے اندھیروں میں سیپ سے موتی نکلنے کی امید دلاتا ہے۔ یہ دیوانے کے خواب کو جہد کے کینوس پر سجاکر حقیقت کے رنگوں سے منقش چار ٹیڑھی میڑھی مگر انمٹ لکیروں میں ڈھال لیتا ہے۔ سوچ کے اسی پہلو نے انسان کو اس قابل بنایا ہے کہ ایک ذرے سے کائینات کے نظام کو سمجھ کر ہوا اور پانیوں کے بعد خلا کو سرنگوں کردے۔ ناکامیابیاں راہ میں آتی ہیں، مصائب بھی رستہ روکتے ہیں، لیکن بہتر سے بہترین کی آرزو اور کوشش بلندیوں سے ہمکنار کرتی ہے۔ جینے کی خواہش انسان کو اس کا مقام دلاکے رہتی ہے۔ جسے اپنے مقام اور اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتو وہ اکیلا، مفلس ننگے پاؤں اپنی سلطنت سے جان بچاکر بھاگنے والا عبدالرحمن یورپ کے اندھیروں سے نکال کر روشنی اور علم کا گہوارہ بناچھوڑتا ہے کہ لوگ اسے دنیا کا نایاب ہیرا پکار اٹھے۔
عرفان ذات انسان کو اپنی صلاحیتوں سے روشناس کرواکر ان کو تعمیری مقاصد میں سرگرم رکھتا ہے۔ یہ انسان کو خود ترسی سے نکال کر لوگوں کی فلاح کی طرف لاتا ہے۔ انسان دوسروں کو خوش دیکھ کر راحت پاتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ اس کامیابی کے پیچھے بہت سے دوسرے لوگوں کا عمل دخل بھی ہے۔ ایک کسان اس کی بہترین مثال ہے کہ وہ دن رات زمینوں پہ ہل جوت کے، فصل پکاتا ہے۔ جب فصل پکنے کا وقت آتا ہے تو اس کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔
اسے راحت اس وقت ملتی ہے جب اس کی اگائی فصل لوگ کھاتے ہیں۔ یوں لوگوں کی فلاح اور خوشی میں اسے اپنی فلاح نظر آتی ہے۔ جب ایک فصل کامیاب رہتی ہے تو حوصلہ بڑھتا ہے۔ مذید آگے بڑھنے کی کوشش ہوتی ہے۔ معاشرے میں بقائے باہمی کو فروغ ملتا ہے اور انسان انسانوں کی دوا بنتے ہیں۔ ایسے دوچار لوگ بھی معاشرے میں ہوں تو مثبت سرگرمیاں پروان چڑھتی ہیں۔ ذیشعور لوگ انہیں رولماڈل سمجھ کر ان کی پیروی شروع کرتے ہیں اور یوں دانے دانے سے مل کر تسبیح بنتی چلی جاتی ہے۔
خوشحالی جب ہوتی ہے تو انسان میں ہمت اور برداشت کا مادہ بڑھتا ہے۔ فورا ردعمل کی بجائے انسان سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتا ہے۔ وقتی فائدے نقصان پر دائمی فوائد کو ترجیح دے کر ہمہ وقتی سکون کہ فکر ہوتی ہے۔ ایسے مین لوگوں کے رویے اور ماضی انسان کے جذبات پر قابو نہی پاسکتے بلکہ انسان اس کہیں آگے کی سوچ تا ہے۔ اسے ادراک ہوتا ہے کہ ماضی اور لوگون کے روویوں کو یاد کرنا تکلیف دہ اور کم ہمتی پہ اکسانے والے عوامل ہیں۔
یہ انسان کو اس کے مقام سے نیچے لانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ درگزر اور حال میں خوش رہ کر مستقبل کی فکر انسان کو آگے بڑھنے اور کامیابی کی نوید دلاتے ہیں۔ ایسے میں سماجی و معاشرتی معاملات کی فہمی سے وہ معاشرے کا ایک کارآمد شہری بن جاتا ہے۔ جہاں لوگ اس سے مستفید ہوتے ہیں، وہ بھی عزت و تکریم کا حقدار ٹھہرتا ہے اور آنے والوں کے لیے ایک روشن دلیل بن جاتا ہے۔
یہ بات ہمیں ذہن نشیں کرلینی چاہیے اس دنیا کا نظام سوچ کے زاویوں پر ہی کارفرما ہے۔ سوچ کے گھوڑے تاریک راہون پہ دوڑائیں یا روشنی کو محور مان لیں، جس چیز میں ہم فائدہ تلاش کرتے ہیں اس سے نفع ہی ملتا ہے۔ اگر کسی چیز سے خوف کھاتے ہیں تو خوف کا شکار ہوکر رہتے ہیں۔ جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔ کانٹے بوکر پھولوں کی تمنا کرنا حماقت ہی ہوگی، ملیں گے کانٹے ہی۔ محبت بانٹیں تو محبت ملتی ہے اور محنت کریں تو عظمت۔