سعودی عرب میں اب خواتین کو بیرونِ ملک سفر کے لیے کسی محرم یا مرد نگران کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوگی، لیکن کیا واقعی اس شاہی حکم نامے سے سعودی خواتین کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی آئے گی؟
بی بی سی نے اس شاہی فرمان کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ سعودی خواتین کے لیے ان نئے قوانین کا کیا مطلب ہے۔
خواتین سے متعلق نیا قانون کیا ہے؟
حال ہی میں سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان نے شہری قوانین میں کئی ترامیم کی منظوری دی ہے، جس کے مطابق 21 سال یہ اس سے زیادہ عمر کی خوتین پاسپورٹ حاصل کر سکیں گی۔ اس کے علاوہ انھیں بیرونِ ملک سفر کے لیے اپنے مرد نگران کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔
خواتین کو اپنے بچے کی پیدائش، شادی اور طلاق کے اندراج جیسے حقوق بھی دیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ اب خواتین پہلی مرتبہ خود سرکاری خاندانی دستاویزات حاصل کر سکیں گی۔
اس سے قبل بالغ خوتین صرف اپنے خاوند، والد یا بیٹے کی اجازت سے کہیں جا سکتیں تھیں۔
اس کا مطلب ہے کہ وہ خواتین جو گھریلو تشدد یا بد سلوکی سے بھاگنا چاہتی تھیں انھیں غیر قانونی طور پر سفر کرنا پڑتا تھا۔ یا وہ پناہ حاصل کرنے کے لیے اپنے مرد رشتے دار کے آسرے پر ہوا کرتی تھیں۔ یہ سعودی عرب میں مرد نگران کا نظام کہلاتا تھا۔
نگرانی سے کیا مراد ہے؟
سعودی بادشاہت میں نگرانی کے اس نظام کی وجہ سے خواتین اپنے ذاتی فیصلوں کے لیے مرد رشتے داروں کی ’نیک نیتی‘ کے لیے مجبور ہیں۔
خواتین پر لازم ہے کہ ان کا کوئی مرد نگران ہو، جو کہ عموماً ان کے خاوند یا والد ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار ان کا بیٹا یا کوئی اور مرد رشتہ دار یہ فرض نبھاتا ہے۔
مرد نگران پر لازم ہوتا ہے کہ وہ خواتین کے اہم فیصلے ان کے لیے کریں۔ ان فیصلوں میں خواتین کی تعلیم اور شادی بھی شامل ہے۔
قانون میں تبدیلی اب کیوں؟
سعودی عرب کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کا سامنا ہے۔
ملک میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت جیسی نئی تبدیلیاں تو نافذ کر دی گئی ہیں لیکن وہاں بعض سختیوں پر اب بھی تنقید کی جاتی ہے۔
گذشتہ سال استنبول میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی بین الاقوامی سطح پر مذمت ہوئی۔
مئی 2018 میں تقریباً 12 خواتین کے حقوق کی کارکنان کو صرف اس لیے گرفتار کیا گیا کہ وہ گاڑی چلانے کی باضابطہ اجازت دیے جانے سے کچھ عرصہ پہلے اس کے لیے مہم چلا رہی تھیں۔
ریاض پر اس بات کا بھی دباؤ ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران سعودی عرب کی کئی نوجوان خواتین نے جنسی جبر کی بنیاد پر بیرونِ ملک پناہ کی درخواست کی ہے۔
گذشتہ اصلاحات کے باوجود سنہ 2018 میں ورلڈ اکنامک فارم کے مطابق سعودی عرب خواتین کے رہنے کے لیے بد ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ ڈبلیو ای ایف کی ’گلوبل جینڈر گیپ‘ نامی فہرست میں ملک کا شمار 10 بد ترین ممالک میں ہوا تھا۔
کیا اس تبدیلی سے فرق پڑے گا؟
یہ سب سے اہم سوال ہے۔
ایک جانب اس فیصلے پر سعودی عوام نے مختلف مزاحیہ ’میمز‘ بنا کر ٹوئٹر پر جشن منایا۔ اس میں سے ایک تصویر میں لوگوں کو سامان سمیت ایئر پورٹ کر قطار لگائے دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں جب ملک بری طرح سے سماجی قیادت پر انحصار کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ سعودی خواتین کے لیے اب بھی جیل یا گھریلو تشدد سے بچاؤ کی پناہ گاہ سے باہر نکلنے کے لیے مرد کی اجازت کی ضرورت ہو گی۔
اور تو اور خواتین کو شادی یا آکیلے آزاد رہنے کے لیے مرد رشتے دار کی اجازت چاہیے ہوگی۔
قانون میں تبدیلی کے بعد جمعے کو ٹوئٹر پر خواتین کے لیے بغیر اجازت شادی کے حق کی حمایت میں ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا۔