فاطمہ شیروانی
اُسے بارشیں بہت پسند تھیں بلکہ نہیں پسند کا لفظ بہت معمولی ہے۔ اُسے تو بارشوں سے عشق تھا۔ کُن من کرتی ننھی ننھی بوندیں جب آسمان سے زمین پر اُترتی تھیں تو وہ بھی اُن کے ساتھ ہی بہتی چلی جاتی تھی۔ بارشیں گیت تھیں تو وہ اُن کی آواز تھی۔ بارشیں تال تھیں تو وہ اس تال پر محوِرقص تھی۔ بارشیں محبت تھیں تو وہ ایک محبوب جسے اپنی محبت کے ساتھ اپنے وجود کو امر کرنا تھا۔ وہ بوند بوند انہی پانیوں کے ساتھ اپنے وجود کو بھگوتی چلی جاتی تھی۔ وہ اور بارش یک جان ہوتے تھے اور دور کھڑی محبت مسکراتی رہتی تھی۔
ایک روز کچھ عجیب ہوا، اتنا عجیب کہ اُس کا بھیگتا وجود لمحے بھر کو ٹھہر گیا تھا۔ وہ کوئی اجنبی تھا جو دیوانوں کی طرح بھیگتے ہوے اُسے دیکھ رہا تھا۔ اُس نے ٹپ ٹپ کرتی بوندوں کے ساے میں اُس اجنبی کو مسکراتے ہوے دیکھا جس کی مسکراہٹ پر لمحے بھر کو تو وہ فدا ہی ہو گئی تھی۔ وہ بھول گئی تھی کہ وہ اکیلی ہے۔ بارشوں سے کھیلتا اُس کا وجود کسی اجنبی کی شراکت کیوں کر برداشت کرے گا۔ وہ اجنبی اُس کے قریب آ رہا تھا۔ اتنا قریب کہ اجنبی کے وجود سے اُس کا وجود رنگنے لگا تھا۔ اُس کی سانسیں اُس اجنبی کے ساتھ ہی اُن بوندوں سے خود کو مکمل کرنے لگی تھیں۔
وہ کون تھا
کہاں سے آیا تھا
کیا چاہتا تھا
وہ کچھ نہیں جانتی تھی جانتی تھی تو بس اتنا کہ وہ اُس کے وجود کا ہی حصہ ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ خود سے مکمل طور پر غافل ہو جاتی۔ اچانک سے بہت ذور کا بادل گرجا اور شاید ساتھ ہی بجلی بھی چمکی تھی۔ اُسے بجلی کی آواز سے خوف آتا تھا۔ بادلوں کے گرجنے سے جو گڑگڑاہٹ پیدا ہوتی تھی۔ اُس سے اُس کی جان جاتی تھی۔ ایسے لمحوں میں اجنبی نے اُسے خود سے اور قریب کر لیا۔ اُسے اب اجنبی سے خوف آنے لگا تھا۔ وہ بھاگنا چاہتی تھی مگر اجنبی نے سارے دروازے بند کر دیے تھے۔
ایسے عالم میں وہ کچھ نہیں دیکھ پا رہی تھی مگر کوئی اُسے دیکھ چکا تھا۔ وہی جسے بچپن سے ایک ہی درس دیا گیا تھا کہ وہ اس کا محافظ ہے۔ اُسے ہر لمحے اُس کا خیال رکھنا ہے۔ مگر اُن لمحوں کا دورانیہ بہت مختصر تھا۔ وہ اجنبی کا ہاتھ چھڑا کر اُس دائرے سے باہر نکلنے ہی لگی تھی کہ ایک نہایت ہی بھیانک آواز اُن بادلوں نے سُنی۔ آواز کے اند ر جو آگ تھی۔ اُس آگ کی شدت سے بادل بھی سہم گئے تھے۔ پانیوں کا رقص خوفزدہ ہو کر اپنی تال بھول چکا تھا۔
اُس دائرے میں بھیگتے وہ تمام منظر اب ڈرے سہمے انداز میں اُسے گرتے ہوے دیکھ رہے تھے۔ ایک ساتھ نجانے کتنے ہی آگ کے شعلے اُس کی طرف بڑھے تھے۔ سُرخ رنگ اُسے کبھی بھی پسند نہیں تھا۔ اُسے تو بارش کا رنگ پسند تھا۔ مگر اُس لمحے وہ سُرخ رنگ میں بھیگ گئی تھی۔ وہ اجنبی اُس دائرے سے باہر جا چکا تھا۔ شاید وہ کسی اور بھیگتے وجود کی تلاش میں نکل پڑا تھا۔ بارشوں نے بھی اب واپسی کا سفر شروع کر دیا تھا۔ صبح سورج کی کرنوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ بارشوں میں بھیگتی لڑکی آنکھیں موندے انہی بارشوں کے ساتھ رخصت ہو چکی تھی۔