زچگی کا درد اٹھا۔ دائی کو بلایا گیا۔ چار گھنٹے زندگی اور موت کی کشمکش کے بعد آخر زندگی کی جیت ہوئی اور ایک چاند جیسا بیٹا ہوا۔ شادی کی مٹھائی کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب جنید کے گھر سے مٹھائی تقسیم ہو ئی ہو۔ بیٹیوں کی پیدائش پر تو مبارک کا لفظ بھی اس پر ناگوار گزرتا تھا۔ جنید اب ڈیرے سے بھی جلد آ جاتا۔ شراب بھی اب کم ہوگئی تھی۔ وقت گزرتا گیا۔ جنید کی مال و دولت کی ہوس اور بڑھ چکی تھی۔ کیمیکل والا دودھ اب قریبی شہر بھی جانے لگا تھا۔ سپلائی کے لئے پوری ایک ٹیم تھی۔
احمر اب سکول جانے لگا تھا۔ سکول لانے اور لے جانے کی ذمہ داری خود باپ پوری کرتا تھا۔ ک ایک دن سکول سے اطلاع ملی کہ احمر سکول میں بے ہوش ہو گیا ہے۔ اسے جنید نے شہر کے ایک بڑے ڈاکٹر کو دکھایا۔ ڈاکٹر سے ملنا ویسے تو بہت مشکل تھا لیکن ڈاکٹر صاحب کے گھر دودھ جنید ہی دیتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اسی بنا پر اس کی سلام دعا تھی۔ احمر کو شدید بخار تھا۔ تین دن کی دوا لکھ دی تھی۔ دوا قریبی میڈیکل سٹور سے لینے کے بعد وہ گاؤں روانہ ہوگے۔
جنید اب ڈیرے پر بھی نہیں جاتا۔ وہ احمر کو اس حالت سے کافی پریشان تھا۔ دوا کوئی خاص کام نہیں دکھا رہی تھی۔ احمر کو اب بخار کے ساتھ الٹیاں اور دست بھی آنے لگے تھے۔ نا دوا کام کر رہی تھی اور نا ہی دعا۔ تیسرے دن حالت زیادہ خراب ہونے پر رات گئے کلینک لے جایا گیا۔ احمر کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔ اس رات کلینک کے دروازے پر احمر نے اپنے باپ کی گود میں آخری سانسیں لیں۔
ڈاکٹر صاحب اس کیس پر کافی حیران تھے کہ کیسے صرف معمولی سے بخار نے ماں باپ سے ایک پھول چھین لیا۔ جنید کو تسلی دیتے ہوئے جب ڈاکٹر صاحب کی نظر دوا پر پڑی تو اپنا سر پکڑ کے بیٹھ گئے۔ یہ وہی جعلی دوا تھی جو اجکل مارکیٹ میں بہتات کے ساتھ موجود تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے جب بوکھلائے ہوئے جنید کہ بتایا تو وہ صرف اتنا ہی بولا ”کیسے کوئی جعلی دوا بنا سکتا ہے یہ تو لوگوں کو بھلا چنگا کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ “