ڈاکٹر بلند اقبال
ہم دیکھ رہے ہیں کہ پچھلی چند صدیوں میں اکنامک لبرل ازم اور فری مارکیٹ کیپیٹل ازم نے ہماری گردنوں میں ضروریات زندگی کا طوق کچھ اس طرح سے پھنسا دیا ہے کہ ہمارے سوچنے کے تمام تر انداز پر سرمایہ دارانہ شعور کا اچھی طرح سے قبضہ ہو چکا ہے اور اب حالات یہ ہیں کہ آج ہم کسی مشینی ربوٹ کے مانند سرمایہ کو مرکز مان کر اپنے معیارات اور اقدار کی نشونما کو عین انسانی فطرت سمجھنے لگے ہیں۔ سوسائٹی چاہے ترقی یافتہ ہو یا ترقی پزیر کم و بیش دنیا کے ہر ایک معاشرے میں، اچھی یا بُری شکل میں، ہم انسانوں کا اقتصادی، سیاسی، سماجی حتی کہ مذہبی کلچر بھی محض بزنس یا سرمایہ کے ارد گرد ہی نشونما پارہا ہے۔
ظاہر ہے پچھلے دوسو برسوں میں سرمایہ دارانہ نظام کو انسانی نفسیات سے ہم اہنگ یا عین فطری قرار دینے کے لیے نیو لبرل ازم جیسے نظریات نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے تو اُس کی شدت کو اشتراکی فلسفے نے بہت حد تک نیو ٹرلائز بھی کیا ہے مگر پھر بھی گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہماری فکر کے امکانات نے اسے اب اپنے شعور و لاشعور کا حصہ بنالیا ہے مگر پھر بھی کیا کریں کہ اس تمام تر ذہنی تربیت کے باوجود بھی ایک احساس بیگانگی، بے زارگی، اکتاہٹ، یکسانیت اور سخت ترین ڈپریشن ہمیں اکثر و بیشتر اپنے سماج میں نظر بھی آجاتا ہے۔
یقینا سرمایہ دارانہ نظام کے یہ وہی منفی اثرات ہیں جس کی جانب انیسویں صدی میں کارل مارکس نے سنجیدگی سے اشارہ کیا تھا۔ کیونکہ ہمیں یاد ہے کہ مارکس نے انسانی نفسیات، اقتصادیات اور فلسفہ کو یکجا کرکے انسانی مزاج میں تکمیل یا سرشادی کے احساس کو ایک مشترکہ تخلیقی تصور کی شکل میں ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی اور اسی معاشرتی اور نفسیاتی اشتراکیت کو انسانی فطرت سے ہم اہنگ کیا تھا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجیکل ترقی ہمیں کس نرمی مگر سختی سے گھسیٹ کر ایک ربورٹ کی صورت میں سرمایہ دارانہ دور کے مشینی کلچر میں لے آئی ہے جہاں ہمارے پاس سوائے انسانوں کے ہر اُس شے کے لیے وقت، اُنسیت اور محبت ہے جس میں مشین سانس لے رہی ہے اور دن رات ہمارے ساتھ ہی رہ رہیں ہیں۔
اصل میں یہ وہی ’میٹا مارفوس ربوٹ‘ ہے جسے 1912 میں کافکا نے پہلی بڑی جنگ سے قبل اپنے ناول میٹا مارفوسس میں ایک حشراتی مخلوق یا کاکروچ سے تشبیہ دی تھی۔ فرینز کافکا کا یہ فرانسسی ناولٹ 1915 میں پہلی بار شائع ہوا تھا مگر کافکا کی بدقسمتی کہ اُسے زندگی میں کوئی خاص ادبی اہمیت نہیں ملی مگر پھراُس کی موت کے بعد یہی ناولٹ ایک ادبی کلاسیک کے طور پر اور پھر کافکا کا نام بیسویں صدی کے اہم ترین ادیبوں کے درمیان کسی آئکن کی صورت میں اُبھرکر آیا۔
فرینز کا فکا کا ’میٹا مارفوسس‘ اپنے تئیں کئی ایک لحاظ سے استعاری معنویت رکھتا ہے کیونکہ کافکا کی ذاتی زندگی میں اُس کا اپنے باپ سے تعلق ہمیشہ سے سخت ترین تناؤ کا شکار رہا اور پھر یہی تناؤ اور کھینچا تانی ہمیں ناول کے مرکزی کردار کے نفسیاتی برتاؤ میں بھی نظر آتا ہے۔ دوسری طرف یہی مرکزی کردار ہمیں ایک سماجی طور پر خود میں سمٹے ہوئے اور احساس بے زارگی اور یکسانیت کے مارے ہوئے شخص کی اُس بدلی ہوئی یا میٹا مارفوس شکل میں بھی نظر آتا ہے جو زندگی کے تقاضے پورے کرتے کرتے انسان کی جگہ محض ایک حشراتی مخلوق کی شکل میں بدل گیا ہے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام یا کیپیٹلسٹ سوسائٹی میں زندگی کچھ اُس سختی سے اپنی ضروریات کے پورے کرنے کا مطالبہ کرتی ہے کہ فطری محبتیں، خلوص اور رفاقتیں کچھ ہی دنوں میں گرد بن کر ہوا میں اڑ جاتی ہیں اور وقت کا بے رحم پہیہ ہر اُس انسان کو کچل کر آگے بڑھ جاتا ہے جو کسی وجہ سے تھک کر اُس کی زد میں آجاتا ہے۔ سرمایادارانہ سوسائٹی میں کسی انسان کی قدروقیمت کا اندازہ اس کے کارامد ہونے پر ہی طے ہوتا ہے یعنی اُس کی موجودگی ختم کردینا بھی بھی ٹھیک اتنا ہی اہم سمجھا جاتا ہے جتنا کہ کارامد ہونے کی صورت میں اُس کا موجود رہنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
فرینز کافکا کے میٹا مارفوسس میں ایک تصور ذہن اور جسم کے متوازی مگر مخالف ملاپ کے حوالے سے بھی اہم ہے کہ جسمانی اور نفسیاتی تبدیلی کا یہ عمل مختلف رفتار سے مرکزی کردار اور اُس پر معاشی انحصار کرنے والے کرداروں میں دکھائی دیتا ہے جس کی وجہ فطری ہے کہ مرکزی کردار کے اندر کے انسان اور اردگرد کے کرداروں کے اندر کے کاکروچ کی نفسیات مخالف سمت میں میٹا مارفوسس کا سفر طے کرتی ہیں کہ ایک کے پیچھے انسانی جذبات کی پیچیدہ مگر معصومانہ نزاکتیں ہیں تو دوسروں کے پیچھے سرمایہ دارانہ سماج کی وہ خود غرضانہ ضرورتیں ہیں جو انہیں زندہ رہنے کے لیے پوری کرنا ضروری ہیں۔
میٹا مارفوسس کی کہانی کی ابتدا کچھ یوں ہوتی ہے کہ گریگر سامسا، جو ایک ٹریوlنگ سیلز مین ہے، ایک روز صبح سو کر آٹھتا ہے تو خود کو ایک کاکروچ کی شکل میں پاتا ہے۔ وہ بستر پر پڑا خود کو حیرانگی سے سوچتا ہے مگر اپنی طبعی حالات سے کہیں زیادہ اُسے اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ اب اس کی فیملی کا گزارہ کس طرح سے ممکن ہوسکے گا کیونکہ وہی اپنے ریٹارڈ باپ، بوڑھی ماں اور نوجوان بہن کا معاشی و سماجی سہارا تھا۔ دفتر سے لیٹ ہونے اور پھر دفتر کے باس کے ریکشن کے خوف سے وہ ایک وحشت اور گھبراہٹ کے عالم میں بستر پر پڑا یہی سوچتا ہے کہ وہ بیمار ہونے کی وجہ سے چھٹی لینے کی کوشش کرے گا۔
اس دوران اس کے ماں باپ اور بہن اُسے آواز دے کر دفتر جانے کے لیے کہتے ہیں مگر اُس کی عجیب و غریب آواز سن کر سمجھتے ہیں کہ وہ شاید بیمار ہوگیا ہے اور جب اُس کا سپر وائزر اُسے لینے دفتر سے گھر آجاتا ہے تو وہ بہت مشکل سے دروازہ کھول کر کسی طرح اپنے کمرے سے باہر نکلتا ہے۔ اُسے اِس نئی عجیب و غریب حالت میں دیکھ کر اُس کی ماں پر غشی کے دورے پڑتے ہیں، بہن خوفزدہ ہوکر چلانے لگتی ہے اور باپ مٹھیاں اور جبڑے بھینچ کر رونے لگتا ہے مگر اِس بُری حالت میں بھی گریگر کی خواہش بس یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنی عجیب و غریب آواز سے اپنے سپر وائزر کو یہ سمجھائے کہ وہ ایک محنتی اور وقف شدہ ایماندار ورکر ہے اور وہ کام پر جلد سے جلد حاضر ہونا چاہتا ہے۔
اس حادثے کے بعد ناول میں کہانی کئی ایک سنگین زاویوں سے گزرتی ہے۔ اس دوران گریگر اپنی طبعی ساخت کے لحاظ سے ایک نئی زندگی شروع کردیتا ہے اور کئی ایک نفسیاتی سختیاں برداشت کرتا ہے تو دوسری طرف اُس کی بہن اور ماں باپ بھی ایک نئی زندگی شروع کرتے ہیں اور کئی ایک معاشی سختیاں برداشت کرتے ہیں۔ یوں یہ دونوں عوامل اپنے متوازی مگر مخالف رخ میں چلتے ہوئے با لاخر ایک موڑ پر آکر آپس میں شدت سے ٹکرا جاتے ہیں اور پھر سرمایہ دارانہ زندگی کا کرخت سماجی چہرہ اپنی تکمیل کے خاطر کمزور کی طاقتور پر قربانی کا مطالبہ کردیتا ہے۔
دی لائبریری ودھ بلند اقبال میں راقم نے ناول نگار فرینز کافکا کی مختصر زندگی کے حالات، اُن کی مکمل و نامکمل تصانیف، ناولٹ ’میٹا مارفوسس‘ کی دلچسپ کہانی، اُس پر بنی ہوئی فلم اور ناولٹ میں پوشیدہ فلسفہ بیگانگی کو مارڈرن زندگی کے تناظر میں ایک دلچسپ پیرائے میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ دوست اس کتاب سے بھرپور انداز سے لطف اندوز ہوسکیں.