لندن میں صحافی کے طور پر کام کرنے والی امینڈا گاف نے 2015 میں آسٹریلیا منتقل ہو کر جسم فروشی شروع کر دی۔ امینڈا گاف کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ ان کے گاہک بھاری رقم دے کر بھی جنسی تعلق کا تقاضا نہیں کرتے بلکہ انہیں کچھ اور چیزوں میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔
امینڈا نے اپنی تازہ ترین کتاب میں لکھا ہے کہ ” لوگ اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ میں صحافت چھوڑ کر جسم فروشی کے پیشے میں چلی آئی لیکن انہیں یہ پتا نہیں کہ جب میں صحافی تھی تو بھی میرے خفیہ معاشقوں کی تعداد کسی اوسط جسم فروش خواتین سے زیادہ تھی۔
جب 2015ء میں میری نئی پیشہ ورانہ شناخت منظر عام پر آئی تو میرے گاہکوں کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی لیکن عموماً انہیں جنسی تعلق کی بجائے دیگر باتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ عام طور پر وہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میرے ساتھ ملاقات کرتے ہیں۔ وہ جسمانی تعلق سے زیادہ اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ سابق صحافی اور مصنفہ امینڈا گاف سے مل کر دیکھیں کہ ایسی خاتون جسم فروش کے روپ میں کیسی لگتی ہے۔
میرے گاہکوں میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو خود بھی کتابیں لکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں اپنے فارغ وقت میں ان کی کتابیں پروف ریڈ کروں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب لوگ مجھے جاننے اور میرے ساتھ بات چیت میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ مجھے اکثر گاہکوں کے ساتھ ملاقات کے بعد مایوس لوٹنا پڑتا ہے کیونکہ وہ سب کچھ نہیں ہوپاتا جس کے ارادے سے میں ان کے پاس جاتی ہوں۔
ایک بار تو ایسا بھی ہوا کہ میرا ایک گاہک میری ہی ایک کتاب اٹھا لایا اور مجھ سے درخواست کی کہ میں اس پر آٹو گراف دے دوں۔ میں بار بار جنسی موضوع چھیڑتی تھی لیکن وہ میری کتاب کے بارے میں گفتگو شروع کر دیتا۔ بالآخر مجھے مایوس ہی لوٹنا پڑا۔ مجھے اپنے گاہکوں سے ایک گھنٹے کے 1000 ڈالر یا ایک رات کے 6000 ڈالر تو مل جاتے ہیں لیکن جسمانی تسکین نہیں ملتی۔