زمانہ بہت تبدیل ہو گیا ہے۔ جو باتیں پہلے اشاروں کنایوں میں کی جاتی تھیں اب وہ بے دھڑک کی جاتی ہیں۔ گذرتے زمانے کے ساتھ خواتین میں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کا خوش کن رویہ نمایاں ہو رہا ہے۔ یہ خاص طور پر پاکستانی معاشرے کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ ایک ایسے معاشرے کے لیے جہاں تعلیم اور شعور کی بے حد کمی ہے۔ جہاں جہالت کا نہ صرف رواج ہے بلکہ معاشرے کی اکثریت کے لیے یہ جہالت قابل فخر احساس رکھتی ہے۔ ایسی قوم میں خواتین کے حقوق کے لیے توانا آوازیں بلند ہونا نہایت مثبت ہے۔ تاہم تشویش ناک امر یہ ہے کہ اس جدوجہد کا بیانیہ کچھ خواتین اپنی مخالف صنف کی تذلیل اور توہین کی بنیاد پر استوار کرنا چاہ رہی ہیں۔
معدودے چند لکھنے والوں کو چھوڑ کر مرد حضرات کی اکثریت خواتین کے حقوق اور ان کی آزادی کے لیے خواتین کی آواز میں آواز ملاتی نظر آتی ہے۔ وہ لکھاری ہوں، اداکار ہوں، گلوکار ہوں یا سول سوسائٹی کے نمائندے بلکہ اب تو سیاست دان ، افواج پاکستان اور عدلیہ بھی خواتین کے حقوق اور آزادی کے تحفظ کے لیے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی معاشرے میں عورت کو وہ درجہ یا مقام نہیں دیا جاتا جس کی بحیثیت انسان وہ حقدار ہے لیکن اس کے رد عمل میں عمومی طور پر مرد حضرات پر جارحانہ انداز میں کردار کش حملے کر کے بہرحال عورت معاشرے میں شاید وہ مقام حاصل نہیں کر سکے گی جو بحیثیت ایک انسان کے اصل میں اس کا حق ہے۔ اور ہر انسان کا بنیادی حق اس کی آزادی اور دنیا کے دیگر تمام انسانوں کے ساتھ برابری ہے۔
یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ ہر انسان کی آزادی کی ایک حد ہے اور یہ حد وہاں جا کر ختم ہو جاتی ہے جہاں سے ہم جیسے کسی دوسرے انسان کی آزادی کی حد شروع ہوتی ہے۔ یہ حد ہر انسان پر لاگو ہوتی ہے اور اس کا احترام لازم ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے نیم خواندہ اور عقلیت سے بے بہرہ معاشرے میں اس حد کا احترام عنقا ہے۔ جہاں عقل اور شعور کو خیر باد کہ دیا جائے وہاں انسان کا درجہ اشرف المخلوقات سے گر کر دیگر مخلوقات کے برابر آ جاتا ہے۔ اور ایسےجانوروں سے کچھ بعید نہیں ہوتا کہ جبلی تقاضوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر حیوانی حرکات کرتے پھریں۔ برابری کے اصول کے تحت اس میں کسی مرد اور عورت کی تخصیص نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں مرد و زن کے ایسے ایسے محیر العقول اور افسوس ناک واقعات رونما ہوتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جو معاملات ہمارے سامنے آتے ہیں ان میں خواتین کےساتھ غیر مساوی یعنی امتیازی رویہ رکھنے اور ان کا استحصال کرنے کے واقعات شعوری یا غیر شعوری طور پر مرچ مصالحے لگا کر عوام کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ اپنے بدذوق چسکے کی تسکین کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار یہ قوم ایسے واقعات کو چٹخارے لے لے کر ملاحظہ کرتی ہے ۔
گذشتہ کچھ عرصہ سے ایسے مضامین پڑھنے کا اتفاق ہو رہا ہے جس میں خواتین اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے نازیبا رویئے پر کھل کر بات کر رہی ہیں۔ ان خواتین کے حوصلے کی داد دینا پڑتی ہے کہ ایک بے شعور اور لاتعلق معاشرے میں وہ اپنے ہونے کا احساس دلا رہی ہیں اور اس کا بجاطور پر اعتراف تمام حلقوں کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ کمی البتہ اس بات کی ہے کہ مرد حضرات اپنے ساتھ ہونے والے بدصورت واقعات کی تشہیر نہیں کر رہے۔ یہاں تک کہ جب کچھ بے کردار اور حیوانی صفات سے مالامال مردوں کی بدولت تمام مردوں کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا جاتا ہے تب بھی مرد حضرات معاشرے میں موجود برائیوں کی سرکوبی کے لیے آواز نہیں اٹھاتے۔ اب ایسا تو نہیں ہے کہ تمام ظلم اور نا انصافی صرف اور صرف خواتین کے ساتھ ہی کی جا رہی ہو۔ خواتین کے ظلم اور ناانصافی کا شکار مرد بھی ہوتے ہیں۔ ان کو بھی خواتین کی جانب سے جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہوئے واقعات کو منظر عام پر لا کر معاشرے میں علم و شعور کے فروغ اور معاشرے میں پائی جانے والی ہولناک اخلاقی برائیوں کے خلاف صف آرا ہونے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔
کیا ہم سب یہ نہیں جانتے کہ نومولود لڑکوں کے جنسی عضو کو دیکھ کر موقع پر موجود خواتین کیسے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتی اور اس بچے کے ازدواجی مستقبل کے بارے میں فحش گوئی کی حد تک جا کر پیش گوئیاں کرتی ہیں۔ اور کسی لڑکے کا اچھی شکل و صورت کا حامل ہونا بھی اس کے لیے بعض اوقات عذاب کا باعث بن جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن میں ہم محلے کے بچے رات کو مل کر چھپن چھپائی کھیلا کرتے تھے۔ ایک نسبتاً بڑی عمر کی لڑکی ہمیشہ وہیں آ کر چھپتی تھی جہاں میں چھپا ہوا ہوتا تھا۔ میں باجی باجی کہتا ہوا پسینے میں شرابور ہو جاتا تھا مگر وہ باجی اپنا شوق پورا کر کے رہتی تھی۔ میرے لڑکپن میں ہی ایک اور باجی نے ایک دن موقع پا کر جب وہ اپنے گھر میں اکیلی تھی اور مجھے والدہ نے کسی کام سے ان کے گھر بھیجا مجھے باقاعدہ پریکٹیکل کر کے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ بچہ کیسے پیدا ہوتا ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ میری عمر چھوٹی تھی ورنہ پریکٹیکل کامیاب ہو ہی گیا ہوتا۔
ایک اور باجی اپنے گھر کی تنہائی میں مجھ سے اپنے غسل خانے کا سختی سے بند نلکا کھلوانے کی خواہشمند تھی۔ یہ بتانا تو ضروری نہیں کہ ہمارے معاشرے میں غسل کا لباس کیسا ہوتا ہے۔ وہ تو عقل آ گئی اور خشک حلق لیے وہاں سے نکل آیا ورنہ معلوم نہیں کیا کچھ کھل جاتا۔ کراچی کی ان باجیوں سے تب جان چھوٹی جب ہم لوگوں نے کراچی چھوڑا۔ اس وقت تک عمر سولہ برس اور تجربہ بتیس برس کا ہو چکا تھا۔ پھر راولپنڈی میں ایک آنٹی سے پالا پڑا جو مطلقہ اور محلے کی جان تھیں۔ اکثر محلے کے نوجوانوں سے رات گئے سودا سلف منگوانے میں شہرت رکھتی تھیں۔ محلے میں ان کے گریبان کی شہرت ان کے زنانہ والٹ کے نام سے تھی جس سے سر عام زر کی برآمدگی یوں ہوتی تھی کہ نوجوانوں کی جوانی کو پسینے آ جاتے تھے۔ ان سے ایک بار گلی میں سامنا ہوا تو انہوں نے ہنس کر ایک ایسی پیشکش کی تھی کہ مجھے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے جذبات کو معمول پر لانے کے لیے گلی میں کچھ دیر اکڑوں بیٹھنا پڑا تھا۔
یہ چند واقعات ٹوکن کے طور پر بیان کیے ہیں ورنہ واقعات تو اتنے ہیں کہ ان پر ناول لکھا جا سکتا ہے۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ اچھی شکل بھی کیا بری چیز ہوتی ہے۔ جو ڈالتا ہے بری نظر ہی ڈالتا ہے۔ جو اعتراض خواتین کو راہ چلتے مردوں کی نگاہوں، اشاروں اور آوازوں پرہے تو خدا کی قسم یہی اعتراض مجھے عورتوں کی نگاہوں، اشاروں اور آوازوں سے ہے جو راہ چلتے ندیدی نظروں سے دیکھتی ہیں۔ بعض اوقات اشارے کرتی ہیں اور آوازیں بھی لگا دیتی ہیں۔
خواتین سے اجتماعی زیادتی کی مثالیں ہمارے ملک کی تاریخ کا ایک تاریک باب ہیں۔ مگر اسی ملک میں نوخیز لڑکوں کا جوان لڑکیوں کے ہاتھوں جنسی استحصال بھی گاہے بگاہے اخبارات کی زینت بنتا رہتا ہے۔ وہ خبریں تو آپ کو یاد ہی ہو ں گی جن میں لڑکیوں کے گروہوں کا انکشاف کیا گیا تھا جو نوجوان لڑکوں کو بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ لے جاتیں اور پھر اس کو جنسی قوت کے انجکشن لگا لگا کر اس کے ساتھ جنسی کھیل کھیلتی رہیں۔ ایک لڑکا اسپتال میں یہ بیان دے کر مر گیا تھا۔ اس کے علاوہ آج کل پریا پرکاش کی ویڈیو بہت وائرل ہو رہی ہے۔ اس میں وہ لڑکی آنکھ مارتی اور فلرٹ کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ ضرور کرے۔ اس کا حق ہے۔ مگر اب ایسا بھی کیا کہ وہ یہ حرکتیں کرے تو اس کے انسٹا گرام میں پینتیس لاکھ فالوورز ہو جائیں اور اگر کوئی لڑکا راہ چلتے یہ حرکت کر دے تو وہ ٹھرکی، آوارہ اور بدکردار ہو جاتا ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
مردوں کے افعال قبیح پر تبرا کرنے والی خواتین ایک حقیقت کو بالکل نظر انداز کر دیتی ہیں کہ یہ خواتین ہی ہوتی ہیں جو ایک بچے اور لڑکے کو قبل از وقت اس کی جوانی کا احساس دلاتی ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں مردوں کے ظلم کی بات آ جائے وہاں سب سے بنیادی بات یہ سامنے رکھنے کی ہے کہ تربیت کی ابتدائی اور بنیادی ذمہ داری ماں کی ہوتی ہے جو کہ ایک عورت ہی ہے۔ اور یہی عورت جب اپنے بیٹے کی تربیت میں کمی کرتی ہے اور بیٹے کو کج رو بناتی ہے تو اس کا خمیازہ اسی جیسی دوسری عورتوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ عورت ہی ہے جو ساس، بہو، نند اور بھابی جیسے رشتوں میں بندھ کر اچھے خاصے بندے کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیتی ہے۔ اور جب فساد پڑ جاتا ہے تو پھر حقوق اور فرائض کی جنگ چھیڑ دی جاتی ہے۔ اس وقت بھی عورت کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ عورت کا گھر برباد کر دیا جائے۔ تو کیا یہ کہنا غلط ہو گا کہ خود عورت ہی عورت کی دشمن ہے اور اپنی دشمنی نکالنے کے لیے وہ مرد کو استعمال کرتی ہے۔ رشتوں کی بنیاد پر جذباتی بلیک میلنگ کرتی ہے۔
لب لباب یہ کہ خواتین کی آزادی اور حقوق کا نعرہ ضرور لگانا چاہیئے مگر مردوں کو خبیث کا لقب مرحمت فرما کر نہیں۔ عورتوں کو مردوں سے شکایات ہیں تو مردوں کو بھی عورتوں سے کم شکایات نہیں ہیں۔ شکایات ہی رہیں گی تو نتائج اچھے نہیں نکل سکیں گے۔ نفرت مسائل میں اضافہ ہی کر سکتی ہے جب کہ محبت فاتح عالم ہوتی ہے۔ تنقید کیجیئے مگر فطری کجی کے ہاتھوں مجبور کچھ مردوں کو بنیاد بنا کر تمام مردوں پر نشتر زنی کرنا نا انصافی ہے۔ اور میری یہ تحریر اسی نا انصافی کے خلاف ایک نرم احتجاج ہے۔
نوٹ: یہ احتجاجی تحریر بیگم اور دیگر خواتین سے صلاح مشورے اور مکمل اجازت اور رضامندی کے بعد قلم بند کی گئی ہے۔