سوشل میڈیا جب وجود میں آیا تو اس وقت شاید یہ صرف ایک تفریح کی چیز تھی لیکن آہستہ آہستہ یہ حقیقی معنوں میں پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کا نعم البدل بن گیا۔ آج سوشل میڈیا نے ہر اس شخص کو صحافی بنا دیا ہے جس کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے۔ ہر وہ شخص (اپنے تئیں) تجزیہ کار ہے جو کچھ آڑھی ترچھی سطریں لکھنے کے قابل ہے۔ بعض مواقع پر سوشل میڈیا نے عوام کی آواز کو اتنا طاقتور بنایا کہ مین سٹریم میڈیا بھی ایسے مسائل پر اپنی خاموشی ترک کرنے یا اپنی نام نہاد پالیسی بدلنے پر مجبور ہوا۔
قصور کا واقعہ ہو یا زینب قتل کیس۔۔۔ طیبہ تشدد کیس ہو یا اسما تشدد کیس، سانحہ ساہیوال ہو یا پولیس تشدد سے قتل ہونے والے صلاح الدین کے لیے انصاف کا مطالبہ، یہ کریڈٹ سوشل میڈیا کو ہی جاتا ہے جس کی وجہ سے تمام واقعات منظر عام پر آئے اور حکومت کو ان پر نوٹس لیتے ہی بنی۔۔۔۔ اس لحاظ سے سوشل میڈیا کے فوائد تو بہت ہیں لیکن کبھی کبھار یہ ایسا شتر بے مہار بن جاتا ہے جسے روکنے والا تو درکنار ٹوکنے والا بھی کوئی نہیں۔۔
ہمارا روزمرہ مشاہدہ ہے کہ اب سوشل میڈیا کو مثبت و منفی ہر طرح کی رائے سازی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ یہ جدید ابلاغی ذریعہ ایک جانب کچھ لوگوں کے مسائل کا حل ہے تو کچھ کے لیے یہ خود ہی مسئلہ ہے۔
حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں ٹوئٹر پر غیر اخلاقی ٹرینڈز بنانے کا رواج چل نکلا، اس طرزعمل سے سوشل میڈیا بہتر مقاصد کے لیے استعمال ہونے کے بجائے سر عام اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کے لیے استعمال ہوا۔ سوشل میڈیا کی اس بلا سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔۔۔ یوں لگتا ہے کہ آج ایک کی باری ہے تو کل کسی اور کا نمبر لگنے والا ہے۔
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھییں گے، ہوا کسی کی نہیں
سوشل میڈیا کے بیشتر اکاؤنٹ بندر کے ہاتھ میں استرے جیسے ہیں۔۔ جب دل چاہے، جس کی چاہے پگڑی اچھال دیں لیکن ایسا کرتے ہوئے خود بھی محفوظ نہیں رہ پاتے۔۔۔ بعض معاملات پر زیرو ٹالرنس پالیسی ہونی چاہیے، کسی کو دوسرے کی تضحیک نہیں کرنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے سوشل میڈیا کارکنان کی تربیت کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی نامور شخصیات سوشل میڈیا سے کس طرح متاثر ہیں اور اس کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ اس موضوع پر کچھ نمایاں افراد سے بات ہوئی جس سے معاملہ کو بہتر انداز میں سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔