اب میری أنکھوں کی الرجی بالکل ٹھیک ہو چکی تھی۔ عرصہ تین ماہ سے میں دن میں تین بار ایک خاص صابن سے منہ دھو کر فاٸی فیکس گولیاں اور کیوٹیویٹ کریم استعمال کررہا تھا۔ ویسے تو الرجی اسپیشلسٹ نے چھ ماہ مسلسل دواٸی استعمال کرنے کو کہا تھا مگر میں اب قدرے بہتر محسوس کررہا تھا اس لیے اب میں کبھی دواٸی کھا لیتا اور کبھی سستی کرجایا کرتا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اگر میں نے کورس مکمل نہ کیا تو یہ الرجی دوبارہ ہوسکتی ہے۔
ویسے تو بڑی بھابی نے باباجی کے نمک والے چھینٹے بھی میری آنکھوں پر مارے تھے۔ کچھ صدقہ بھی نکالا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ میری أنکھوں کو کسی ڈاٸن کی نظر لگ گٸی ہے۔ بہرحال میں اب ٹھیک تھا۔ مجھے دس دن کی رخصت ملی اور میں بیگ اٹھا کر لاہور سے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ اب اسے میری غفلت سمجھ لیں یا بےوقوفی باقی سامان کے ساتھ میں اپنی الرجی کی دواٸی اور صابن بیگ میں رکھنا بھول گیا۔ اس دن مجھے لاہور سے آئے کوٸی پانچواں دن تھا جب مجھے أنکھوں میں پھر سے خارش کا احساس ہوا اور پلکوں کے اوپری حصے پر عجیب طرح کے خشک خشک دھبے محسوس ہوئے۔
خوش قسمتی سے دواٸی کا فارمولا مجھے یاد تھا۔ میں اپنے شہر حاصل پور کے تمام میڈیکل اسٹورز پر گیا مگر فاٸی فیکس گولیاں نہ مل سکیں۔ کیوٹیویٹ کریم لے کر بجھے دل سے گھر کی طرف روانہ تھا جب اچانک مجھے اپنے ایک دوست ڈاکٹر شفیق کا خیال أیا۔ میں نے وہیں سے موٹر ساٸیکل موڑی اور سیدھا اسد میڈیکل اسٹور پر شفیق کے پاس جا پہنچا۔ میرا خیال تھا شفیق کہیں نا کہیں سے فاٸی فیکس گولیوں کا بندوبست کردے گا۔ جب میں شفیق کے میڈیکل اسٹور میں داخل ہوا تو شفیق کی ساتھ والی کرسی پر ایک سترہ اٹھارہ سال کا انتہاٸی مضبوط جسم اور شرمیلے سے چہرے والا معصوم سا لڑکا ٹانگ پہ ٹانگ دھرے بیٹھا تھا۔ اس لڑکے کے چہرے کی لالی اور مضبوط بازو دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ وہ لڑکا یقیناً کسی کھاتے پیتے امیر اور زمیندار گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ کسی ماں نے مکھن دودھ اور دیسی خوراکوں سے اس پھول کی أبیاری کی تھی۔ اس کے ہاتھ میں مہنگا موباٸل اور کلاٸی پہ قیمتی گھڑی اس کے رٸیس قبیلے کا پتہ دیتے تھے۔
جس طرح شفیق مجھے ملا اور ہم نے ایک دوسرے کا حال احوال کیا اخلاقاً اس لڑکے کو چاہیے تھا کرسی چھوڑ دیتا کیونکہ شفیق بھی چاہتا تھا کہ وہ لڑکا میرے بیٹھنے کے لیے کرسی چھوڑ دے۔ خیر یہ کوٸی عجیب بات نہیں تھی کیونکہ اب ہمارے معاشرے میں بڑوں کا احترام کرنا جہالت اور بدتمیزی کو روشن خیالی تصور کیا جاتا ہے۔ میں شفیق سے گلے ملنے کے بعد ایک طرف رکھے بنچ پر بیٹھ گیا۔ اب وہ لڑکا بار بار شفیق کے کان کے ساتھ منہ لگا کر سرگوشی سے کے انداز میں کچھ کہتا اور شفیق ہربار نفی میں سر ہلا دیتا۔ ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں جو جملہ میں سن سکا وہ تھا۔ ”شفیق بھاٸی پلیز بس أخری بار پلیز“ اور شفیق نے پھر نفی میں سر ہلادیا۔
أخر وہ لڑکا انتہاٸی کرب اور تکلیف میں یہ کہہ کر کھڑا ہوگیا اچھا شفیق بھاٸی پھر اسے فون تو کردیں۔ شفیق نے کہا اچھا تم جاٶ میں اسے کہہ دیتا ہوں۔ وہ لڑکا انتہاٸی التجایہ لہجے میں بولا شفیق بھاٸی پلیز میرے سامنے فون کردیں یار پلیز أخری بار یار پلیز۔ اور اپنے موباٸل سے نمبر ملانے لگا۔ شفیق نے اس لڑکے کا نام لے کر کہا ابھی میرے دوست بیٹھے ہیں تم جاٶ میں کہہ دیتا ہوں۔ وہ لڑکا دانت پیستا ہوا دکان سے باہر نکل گیا۔
شفیق نے کہا باباجی ادھر أجاٸیں اور میں اٹھ کر شفیق کی ساتھ والی کرسی پہ جابیٹھا۔ مجھے بڑی حیرت ہوٸی کہ کوٸی اس طرح شفیق کی منت کرے اور شفیق اس کا کام نہ کرے۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے جھاڑنے کے سے انداز میں کہا۔ یار ڈاکٹر وہ لڑکا تمھاری کتنی منتیں کررہا تھا۔ یار تمھیں اس کا کام کرنا چاہیے تھا۔ بڑے افسوس کی بات ہے۔ شفیق نے میری طرف مسکرا کے دیکھا اور ایک گاہک سے پرچی پکڑتے ہوئے کہا۔ بابا جی أپ کو پتہ ہے وہ کیا مانگ رہا تھا؟ میں نے کہا نہیں لیکن اس کی حالت دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ جو بھی مانگ رہا تھا اسے ملنا چاہیے تھا۔
شفیق نے ہنستے ہوئے کہا ایک منٹ میں گاہک کو فارغ کرلوں پھر بتاتا ہوں۔ گاہک کے جانے کے بعد شفیق نے جو کہانی سناٸی سن کر میرا جی چاہا کسی ماتمی کی طرح اپنا سینہ پیٹ پیٹ کر دھاڑیں ماروں۔ شفیق نے بتایا۔ بابا جی أج گاٶں سے اس کی منگیتر أٸی ہوٸی ہے بازار میں۔ گھر والوں سے چوری ان دونوں کی ملاقات طے ہے۔ اور یہ پہلی بار نہیں کوٸی تیسری بار ملاقات ہو رہی ہے۔ جنسی کیپسول مانگ رہا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ منگیتر کے دل پر جو میرا رعب دبدبہ قاٸم ہے اسے قاٸم رکھنا چاہتا ہوں۔
بابا جی جانتے ہو چھوٹی چھوٹی عمر کے بچوں کو کیوں بھیانک بیماریاں لگ رہی ہیں۔ باباجی ہماری نسل بےراہ روی کا شکار ہو رہی ہے۔ اس طرح کے کتنے لڑکے ہمارے پاس أتے ہیں کبھی پورا دن میرے پاس ادھر بیٹھ کر گزاریں۔ یہ جو جوس اور فاسٹ فوڈ کی دکانوں میں فیملی کیبن بنے ہوئے ہیں کبھی ان کا چکر لگا کر دیکھیں کس طرح یہ نوجوان نسل تباہ ہو رہی ہے۔ جب نوعمر لڑکے مانع حمل گولیاں مانگتے ہیں تو روح کانپ جاتی ہے۔ فیس بک وٹس ایپ گروپس میں جو دیکھا اور دکھایا جاتا ہے یہ تو اللہ کا خاص کرم ہے کہ ہماری شکلیں تبدیل نہیں ہوتیں عذاب الہی نہیں أتا ورنہ ہم نےکسر کوٸی نہیں اٹھا رکھی۔ بچیوں کے ہاتھ میں موباٸل۔
جوان بیٹی کمرے میں چھپ کر بستر میں منہ چھپا کر کیا دیکھتی ہے کس سے باتیں کرتی ہے۔ کبھی سوچا کسی نے۔ ہمارے اندر اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ جوان بیٹے کا موباٸل پکڑ کر چیک کرسکیں۔ کیوں کہ ہم نے خود اپنے موباٸل کے ہر فولڈر کو الگ الگ اور بیس بیس پاسورڈ لگا رکھے ہوتے ہیں۔ میں نے پوچھا اچھا وہ فون والا کیا معاملہ تھا۔ وہ تمھیں بار بار کہہ رہا تھا پلیز اسے فون کردیں۔ شفیق نے کہا جب میں نے جنسی کیپسول دینے سے انکار کیا تو وہ چاہتا تھا میں اپنے دوست کو کال کردوں تاکہ وہاں سے اسے جنسی کیپسول مل سکے۔
شفیق نے کہا جانتے ہو بابا جی کالجوں یونیورسٹیوں میں دن بدن منشیات کا استعمال کیوں بڑھ رہا ہے۔ جب لڑکے اور لڑکیاں جنسی کیپسولز کے عادی ہو جاتے ہیں اور یہ کیپسول ان کی وحشت ختم نہں کر پاتا تو پھر ایسے لڑکے اور لڑکیاں مختلف نشے لینا شروع کرتے ہیں۔ نشے کا عادی ہونے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ حرام کاری ہے بابا جی۔ ہر نشہ کرنے والا اپنی جنسی تسکین سے شروع کرتا ہے اور اپنی موت پہ ختم۔
اتنی دیر میں شفیق کی دکان پہ کام کرنے والا لڑکا پوری مارکیٹ گھوم أیا فاٸی فیکس گولیاں نہ مل سکیں۔ شفیق نے فاٸی فیکس کے متبادل گولیوں کا ایک پتا مجھے پکڑا کر کہا یہ کھا کر دیکھیں افاقہ نہ ہوا تو پھر کہیں باہر سے فاٸی فیکس منگوا لیں گے۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔