میں، محبت اور ٹھنڈا گوشت


’بات کہاں سے شروع کروں، سمجھ نہیں آ رہی۔ میں سخت عذاب میں مبتلا ہوں۔ سڑک پر چلتی ہوئی لڑکیوں کو پیچھے سے اس وقت تک دیکھتا رہتا ہوں جب تک وہ گلی میں مڑ نہ جائیں یا میں کسی سے ٹکرا نہ جاؤں۔ میرا مسئلہ شاید پوری نوجوان نسل کا مسئلہ ہے، یعنی سیکشوئل فرسٹریشن۔
میں نے پہلی بار’مشت زنی‘ کلاس ٹو میں یا اس سے بھی پہلے کی ہوگی۔ ختنے کے بعد مجھے بار بار جھنجلاہٹ محسوس ہوتی۔ میں کھجاتا رہتا اور پھر مزا آنے لگتا۔ اس طرح مشت زنی کا یہ سلسہ شروع ہوا اور آج بھی چل رہا ہے۔
میری عمر اس وقت تینتیس سال ہے اور ایک بیٹے کا باپ ہوں۔ میں پروفیشنل گریجویٹ ہوں، قد پانچ فٹ آٹھ انچ ہے، کھیلوں میں شامل رہا ہوں، خوش شکل ہوں اور خوش مزاج تھا۔ کافی ڈراموں اور اشتہاروں میں ہیرو آ چکا ہوں۔ موسیقی، مصوری، ادب، شاعری، خوبصورت چیزیں، خوبصورت چہرے، خوبصورت آوازیں میری کمزوری ہیں۔
اور لڑکی۔۔۔؟ جی بالکل۔ خوبصورت لڑکی میری بہت بڑی کمزوری ہے۔
شادی سے پہلے میری دو تین لڑکیوں سے ہیلو ہائے رہی۔ خط و کتابت بھی رہی مگر صرف ہیلو ہائے تک یا کبھی کوئی تحفے وغیرہ تک۔ میں شروع سے ہی حلال اور حرام کے چکر میں پِستا رہا ہوں۔ زناء کرنا، شراب پینا، یہ سب کچھ میرے لئے ناقابلِ معافی گناہ ہیں۔
بچپن سے میرا تعلق ایک لڑکی سے تھا۔ جب ہم دونوں کو پتہ بھی نہیں تھا کہ ہم سب گھر والوں سے چھپ کر، دوپہر کو، رات کو یا کھیل کے دوران، کیا کیا کرتے رہتے ہیں۔ بس اتنا پتہ تھا کہ یہ سب کچھ بہت مزے کا ہوتا ہے اور اگر گھر والوں کو اس بات کو پتہ چل گیا تو بہت مار پڑے گی۔ کالج لائف تک میرا اس لڑکی سے بہت تعلق رہا۔
جتنے دن میں اپنے والدین کے گھر میں رہا ہم دونوں کے درمیان کچھ نہیں ہوا۔ میں جب بھی اس کے قریب جانے کی کوشش کرتا وہ مجھے روک دیتی۔
شادی کے بارے میں میرا ایمان ہے کہ رشتے آسمانوں پہ بنتے ہیں، میں نے بھی قسمت آزمانے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔شادی سے پہلے کسی لڑکی سے جنسی تعلق اس لئے نہیں قائم کیا تھا کہ ایک تو زناء کرنا گناہ ہے اور یہ کہ میں ایسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا جو بالکل پاک دامن ہو۔ جس کے لئے اخلاقاً یہ شرط تھی کہ میں بھی پاک دامن رہوں۔ پہلی لڑکی سے بھی میں ایک فاصلے سے ملتا تھا تا کہ وہ کنواری رہے۔
میری بیوی ایک ایم ایس سی پاس لڑکی ہے جو بنیادی طور پر ایک گاؤں کے پڑھے لکھے خاندان کی بیٹی ہے۔ اس کے بھائیوں سے میری دوستی تھی۔ خاتون بھی اچھی، خوش شکل، امور خانہ داری سے واقف اور سنجیدہ طبیعت کی مالک ہیں۔ اس میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو گرہستن لڑکی میں ہونی چاہئیں۔ لیکن ایک پوائنٹ پر آکر زندگی کا سارا مزہ ختم ہو جاتا ہے۔
شادی سے پہلے شاید ہم دونوں میں مشکل سے تین چار باتیں ہوئی ہوں گی اور جب بھی میں نے اسے کال کی وہ بس ہاں ہوں میں بات کرتی۔ مجھے اچھا لگتا کہ بالکل مشرقی لڑکی ہے، شرم حجاب وغیرہ وغیرہ۔
ہماری شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی۔ شادی کے چار پانچ دن ایسے ہی گزر گئے۔ یاروں دوستوں نے بھی جینا حرام کیا ہوا تھا۔ کیا کیا ہوا بتاؤ؟ بلی ماری کہ نہیں؟ اور اس طرح کی بہت سی بکواس۔ میں یہ سب کچھ ہنسی مذاق میں اڑاتا رہا۔ جتنے دن میں اپنے والدین کے گھر میں رہا ہم دونوں کے درمیان کچھ نہیں ہوا۔ میں جب بھی اس کے قریب جانے کی کوشش کرتا وہ مجھے روک دیتی۔ میں کافی کنفیوژ بھی رہا کہ آخر معاملہ کیا ہے؟ شاید مخصوص ایام ہوں گے جو لڑکیوں کا جسمانی مسئلہ ہے۔
پھر مجھے یہ بھی لگا کہ شاید وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے اور مجھے وہ ابھی تک قبول نہیں کر پا رہی۔ میں نے ایک بار اس سے پوچھا تو وہ بہت روئی اور ناراض رہی کہ میں نے ایسا سوچا بھی کیوں؟ میں اس سے بہت شرمندہ بھی ہوا اور اندر ہی اندر خوش بھی کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ بات آئی گئی ہو گئی۔
ان دنوں محرم شروع ہو چکا تھا اور چوں کہ وہ شیعہ گٌھرانے سے تعلق رکھتی ہے تو میں سمجھا کہ وہ احترام میں سیکس سے دور رہ رہی ہے۔ محرم کے دوران ہی میں اسے چھوڑ کر کراچی آگیا تا کہ گھر کو ٹھیک ٹھا ک کر کے اسے لے آؤں۔ گھر کو رنگ وغیرہ کروایا، فرنیچر کارپٹ غرض کے جو کچھ میں کر سکتا تھا سب کیا اور اسے کراچی بلا لیا۔ جس رات وہ گھر آئی میں نے بیڈ روم کو پھولوں سے سجایا ہوا تھا۔ اسے یہ سب کچھ بہت اچھا لگا اور میں بہت خوش تھا کہ آج سے ہماری ازدواجی زندگی شروع ہوچکی ہے۔
رات کو کھانا وغیرہ کھا کر میں اس کے قریب گیا تو وہ بہت تھکی ہوئی تھی۔ میں اسے پیار کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر وہ خاموش پڑی رہتی اور پھر سمٹنے لگتی۔ ہاتھ لگانے پر جھٹک دیتی، اسے گدگدی ہونے لگتی۔
اب میں باقاعدہ پریشان ہونے لگا۔ دو چار دن اور اسی طرح گزر گئے۔ میرا یہ عالم تھا کہ گھر میں دم گھٹنے لگتا، رات ہوتی اور میری وحشت بڑھنے لگتی اور ساری ساری رات اسی طرح گزر جاتی کہ میں اس کے پاس جاتا اور وہ مجھ سے دور بھاگتی رہتی۔
’ہم ہیں مشتاق اوروہ بیزار، یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے‘ بلکہ یہ ماجرا کیوں ہے؟ کیوں ہے؟ کیووووووووووووووں ہے؟ والی بات تھی۔
قصہ مختصر ایک دن میں نے اسے بٹھا کر باقاعدہ پوچھا کہ تمھارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ وہ بولی کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ تمھارے ساتھ ہے۔ تم پتہ نہیں کیا کیا حرکتیں کرتے رہے ہو، مجھے یہ سب کچھ عجیب لگتا ہے۔ میں اور سٹپٹا گیا کہ یہ کیا کہہ رہی ہے۔ خیر میں نے اس سے بہت آرام سے پوچھا کہ شوہر کے اور بھی حقوق ہوتے ہیں اور سیکس بھی ہر مرد اور عورت کی بنیادی جبلت میں آتا ہے۔ ہماری اولاد کیسے ہوگی؟
میں حیران پریشان رہ گیا جب اس نے مجھے قسم کھا کر بتایا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ شادی سے پہلے اس کی بڑی بہنوں نے ، کزنز نے اور سرپرستوں نے اسے کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔ کیا واقعی وہ اتنی بےخبر ہے؟ وہ بھی آج کل کے دور میں ۔ یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ہوئی لڑکی جو ٹی وی بھی دیکھتی ہے اور جو بہت ساری بھانجوں اور بھتیجوں کی خالہ اور پھپھو بھی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
حیرت اور غصہ دونوں میرے دائیں اور بائیں کاندھے پر کھڑے ناچ رہے تھے۔ میں نے اس سے کہا کہ وہ اپنی کسی شادی شدہ دوست سے ملے، اس کو ساری بات بتائے اور اس سے پوچھے کہ کیا کیا ہوتا ہے۔ دوسرے دن وہ اپنی ایک قریبی شادی شدہ دوست سے ملی اور اسے سب کچھ بتایا۔ اس نے پہلے تو سن کر خوب ڈانٹا کہ تم اب تک گھاس چنتی رہی ہو؟ شکر کرو کہ ان تین ماہ میں اس نے تمہیں گھر نہیں بھجوا دیا یا تمھارے گھر تک بات نہیں پہنچی۔ تمھارا شوہر واقعی صبر کر رہا ہے۔ یہ کام تو تمھیں پہلے تین دن میں کر لینا چاہیے تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی غلط قدم اٹھائے تم فوراً اس سے جا کر معافی مانگو اور جو کچھ وہ کہتا ہے ویسا کرو۔
رات کو وہ مجھ سے پوری گائناکالوجی اور فزیالوجی پوچھتی رہی۔ تھیوری سمجھ لینے کے بعد پریکٹیکل کے وقت پھر وہی بھاگنا، سمٹنا، گدگدی۔ ہزار کوششیں کر لینے کے بعد ہوتا یہ کہ میں اس دوران فارغ ہو جاتا اور چپ کر کے سو جاتا۔
آپ میری حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
سیکس بری طرح مجھ پر سوار رہنے لگا۔ مزاج میں اتنا چڑچڑا پن، برداشت بالکل ختم ہونے لگی اور میں اپنے کام میں بھی ڈسٹرب ہوتا رہا، گھر میں بھی اور دوستوں کے درمیان بھی۔ میری بیوی میرا بہت خیال رکھنے لگی۔ کھانا گرم گرم، کپڑے دھلے ہوئے استری شدہ اور کم پیسوں میں بھی بہت اچھی طرح گھر چلانا۔ مگر یہ سب کچھ تو شادی سے پہلے میرا ملازم بھی کر دیا کرتا تھا۔ جس خانے کو بھرنے کے لیے شادی کی تھی وہ خالی تھا۔ ایک بار میں نے ایک ڈاکٹر سے پوچھ کر اسے ’ریلیکسنگ ٹیبلٹ‘ دی تاکہ وہ تھوڑی سے ڈراؤزی اور ریلیکس رہے۔ مگر وہ بالکل ہی سونے لگی۔
زور زبردستی کسی نہ کسی طرح میں ایک بچے کا باپ بھی بن گیا جو بالکل ان پلینڈ تھا۔ بچہ آنے کے دوران بھی میں اس سے دور رہا۔ پھر بیچ میں محرم کے دن بھی۔ میرا مسئلہ بڑھتا جا رہا تھا۔
یہ نہیں کہ وہ مجھے بالکل انکار کر دیتی۔ مسئلہ تھا کہ وہ ترس کھا کر اپنے آپ کو میرے حوالے کر دیتی، مجھے یوں لگتا کہ جیسے سیکس بھیک میں مل رہا ہو۔ جو آمادگی، جو شرکت اور جو مستی ہونی چاہیے (جو مجھے اس پہلی والی لڑکی سے ملتی تھی) وہ کہیں بھی نظر نہیں آتی تھی۔ بس ایک خاموش جسم کے ساتھ آپ کشتی لڑتے رہیں اور جب تھک جائیں تو اٹھ جائیں۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ میں نے اسے کچھ بتایا نہ ہو۔ جتنا علم مجھے کاماسوترہ کی کتابوں اور اسی طرح کی فلمیں دیکھنے سے ملا تھا وہ سب میں اسے بتا چکا تھا۔ بلکہ ایک بار تو اسے فلم بھی دکھائی مگر اس کے نزدیک یہ سب بے حیائی کے کام ہیں۔
 اس کو اچھی شاعری پسند ہے، تصوف پر یقین رکھتی ہے مگر سیکس سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
آپ کو شاید یہ لگ رہا ہو کہ میں اپنی بیوی کی برائیاں کر رہا ہوں تو میں معذرت چاہوں گا آپ سب سے بھی اور اپنی بیوی سے بھی جس سے میں اتنی محبت کرتا ہوں کہ کبھی کسی طوائف کے پاس بھی نہیں گیا۔ ایک دو بار موقع بھی ملا مگر ہمت نہیں ہوئی۔ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ حلال اور حرام والا معاملہ اور پھر بیوی سے بےوفائی کا تصور اور سب سے بڑی بات یہ کہ اگر وہ کسی اور آدمی کے پاس جائے تو کیا میں برداشت کر سکوں گا؟
کہتے ہیں کہ نیند کی حالت میں آپ کا لاشعور کام کرتا ہے ۔ میں نے بڑا محسوس کیا کہ جب بھی نیند میں میں نے اس کے جسم پر ہاتھ رکھا اس نے بری طرح میرا ہاتھ جھٹک دیا۔ یہ تذلیل نہیں تو اور کیا ہے۔ حالانکہ وہ جان بوجھ کر یہ سب نہیں کرتی مگر جو چیز لاشعوری طور پر ہو رہی ہو اس کا آپ کیا کر سکتے ہیں۔
میری ذہنی حالت کچھ ٹھیک نہیں رہتی۔ میں دوا کا استعمال کم کرتا ہوں مگر سوچ رہا ہوں کہ کسی سائکائٹرسٹ سے ملوں اور کوئی اینٹی ڈپریشن کھانا شروع کروں۔ مگر کوئی ایسی ترغیب نہیں مل رہی جس سے میں اپنی بیوں کے اندر کوئی تبدیلی لا سکوں یا پھر اپنے اوپر کنٹرول پا سکوں۔ وہ بیچاری جب میرا خراب موڈ دیکھتی ہے تو خود بھی بہت پریشان ہو جاتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ اپنے آپ کو میرے آگے پیش کرے۔ مگر وہی ٹھنڈا گوشت، مجھے لگتا ہے کہ میں بھی منٹو کی کہانی ’ٹھنڈا گوشت‘ والا سردار جی بن جاؤں گا۔
شادی کو ڈھائی سال ہو چکے ہیں۔ اس عرصے میں کوئی رات ایسے نہیں ہوگی کہ میری بیوں نے مجھے خود سے چوما ہو یا مجھے سیکس کی دعوت دی ہو۔ اگر مجھے اس کے بھرپور سیکس کا ایک لمحہ بھی مل جاتا تو شاید میں یہ سب کچھ نہ لکھتا۔
ساری دنیا ہمیں بہت خوش و خرم جوڑا سمجھتی ہے۔ آج تک ہم دونوں کے گھر والوں کو ذرا سا بھی احساس نہیں ہوا کہ ہمارے درمیان کوئی مسئلہ ہے۔ لیکن خود میرے لئے گناہ اور ثواب، حلال اور حرام، وفا اور بےوفائی جیسے الفاظ کے معنی اب بدلتے نظر آتے ہیں۔
(ندیم افضل – یہ فرضی نام ہے)