ڈاکٹر خالد سہیل
اردو شاعری کے کتنے مجموعے پڑھے لیکن ذہن پر کوئی مستقل تاثر چھوڑے بغیر محو ہو گئے۔ الفاظ کا کھیل، ردیف قافیوں کے کرتب‘ تصورات کے گلستانوں کی سیر، خیالی معاشقوں کے قصے اور انسانی زندگی اور مسائل سے کترا کر گزر جانے کی روایت۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اردو شاعری میں ان کے علاوہ اور بھی کچھ ہے یا نہیں؟
ظفر زیدی کا حقیقی نام سید ذکی حیدر زیدی تھا۔ 1950ء کے لگ بھگ اناؤ (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ 13 اکتوبر 1983ء کو کم عمری میں نیویارک میں انتقال کر گئے۔ ظفر زیدی کی نیویارک میں جوانی میں ہی وفات کے بعد ان کی دوست حمیرا رحمان کا شائع کردہ مجموعہِ کلام ،زخم زخم اجالا‘ پڑھا اور چونک پڑا۔
یہ شمالی امریکہ کے ایک جوان شاعر کے خیالات‘ احساسات اور نظریات ہیں ۔ دوبارہ پڑھا، سہ بارہ پڑھا اور مجھے ایک سنجیدگی نے آ لیا۔ کتاب بند کر کے آنکھیں موند کر بیٹھ گیا۔ ایک لفظ جو بار بار سرگوشیاں کرتا رہا وہ ‘گھر، تھا۔ اور اس کے ساتھ اور بہت سے الفاظ ۔۔۔انسان ۔۔۔۔۔ بیسویں صدی کے انسان ۔۔۔ مہاجروں کے خاندان ۔۔۔ ذہن کے تالاب میں کنکر بن بن کر گرنے لگے اور چاروں طرف لہریں پھیلنے لگیں۔ عجیب و غریب لہریں ابھرنے اور ڈوبنے لگیں۔ آنسوئوں کی لہریں ۔۔۔ خوشیوں اور غموں کی لہریں ۔۔۔ بے گھری کی کیفیات کی لہریں ۔۔۔ادراک کی لہریں ۔۔۔ امیدوں کی لہریں اور میں اک طویل خاموشی کی گہرائیوں میں ڈوب گیا۔ جب ان گہرائیوں سے ابھرا تو ظفر زیدی سے ہم کلام ہوا۔ ظفر نے جلد ہی یہ واضح کر دیا کہ ان کے نزدیک اردو شاعری نے بہت سا وقت تصوراتی رومانوں اور عشق و محبت کے مفروضہ قصوں کی نذر کر دیا ہے۔ ظفر اردو شاعری کی اس روایت کے بارے میں کہتے ہیں
جہاں میں اور بھی قصے ہیں نظم کرنے کو
کہاں تلک لب و رخسار کو چھیڑا جائے
ظفر نے زندگی کے بارے میں نہایت ہی سنجیدہ رویہ اپنایا ہے ۔میں اس موقع پر ان کی شاعری کے جس ایک پہلوپر توجہ مرکوز کروں گا وہ ان کا ۔۔۔ گھر ۔۔۔ کا تصور ہے۔ ایسا لگتا ہے گھر کا خیال، نظریہ اور فلسفہ ظفر کے ذہن میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ انہوں نے ایک طویل مدت تک اس کے مختلف پہلوئوں پر غور و خوض کیا تھا۔ کہیں وہ اس کے ظاہر، کہیں اس کے باطن، کہیں اس کی ساخت، کہیں اس کی معنوی حیثیت اور کہیں اس کی وساطت سے موجودہ دور کے المیوں پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ اس طرح گھر ان کی سوچوں کا ایک محور اور ان کی شاعری کا ایک کلیدی استعارہ بن کر ابھرتا ہے۔
گھر کا تصور انسانی نفسیات کو سمجھنے میں ہمیشہ ایک اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔بہت سے ماہرینِ نفسیات آج بھی مریضوں کو گھر کا خاکہ بنانے کو کہتے ہیں تا کہ ان کے لاشعور میں جھانک سکیں اور ان کی شخصیت، خاندان اور ماحول کے بارے میں قیاس آرائیاں کر سکیں۔
ظفر اپنی شاعری میں گھر کے مختلف خاکے بناتے ہیں جس میں ہم نہ صرف ظفر کی ذات بلکہ اس دور اور اس عہد کے مہاجروں کے مختلف مسائل اور کیفیات کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔
ظفر بیسویں صدی کے انسان تھے اور اس صدی کے اکثر انسانوں کی طرح تیزی سے بدلتی ہوئی اقدار کا مقابلہ کر رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ وہی گھر جو صدیوں سے سکون اور آشتی، خلوص و محبت اور آرام و آسائش کا مرکز تھا آہستہ آہستہ نئے تضادات کا منبع بنتا جا رہا ہے۔ آج کا انسان ایک طرف تو اپنے گھر میں بے چینی کا شکار ہے اور اس کی فضا اسے کاٹنے کو دوڑتی ہے ۔
کاٹ رہا ہے اپنا گھر
آئو بھاگ چلیں باہر
اسے خود اپنے گھر میں بھی گھر کا مزا نہیں ملتا اور دوسری طرف وہ گھر سے نکل کر باہر جانے سے بھی ڈرتا ہے کیونکہ اسے اپنی عزت ۔۔۔ دولت ۔۔۔ شرافت اور انا کو محفوظ رکھنے کا یقین نہیں ہے اور یہ خوف اسے گھر میں مقید رہنے میں مجبور کر رہا ہے۔
شاید مرے دل سے اب تک ڈر نہیں نکلا
بہت دنوں سے میں گھر کے باہر نہیں نکلا
جب وہ گھر میں رہتا ہے تو عجب وسوسے اسے چاروں طرف سے گھیرلیتے ہیں نہ تو اسے دیواریں آشنا لگتی ہیں نہ دروازے ،چھتوں سے وحشت ٹپکتی ہے، کمروں سے خوف آتا ہے اور وہ اپنے گھر میں اجنبی محسوس کرنے لگتا ہے
ہیبت ٹپک رہی ہے چھتوں کی منڈیر سے
دہشت مرے مکان کے کمروں میں ہے نہاں
ڈرتا تھا میں خود ہی جس کے اندر جانے سے
میرے گھر کے اندر اک ایسا بھی کمرہ تھا
یہ تجربہ بڑھتا بڑھتا ایک داخلی کرب کا تجربہ بن جاتا ہے جہاں سکون، قربتیں، رشتے اور تعلقات سراب دکھائی دینے لگتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے
قربتوں کے شہر میں
میں ہی لامکان تھا
ان کیفیات کا حامل انسان ایک دن خوف کی حالت میں گھر سے نکلتا ہے اور پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔وہ اپنی زندگی کا راستہ کھو بیٹھتا ہے اپنے گھر واپس نہیں پہنچ سکتا۔ گھر کا رستہ آسان ہے لیکن گم ہونے کی خواہش اسے گمراہ کر دیتی ہے اور وہ کچھ شعوری اور کچھ لاشعوری طور پر کھو جاتا ہے
شہر سے میرے گھر کا رستہ سیدھا سادھا تھا
کھو جائیں گے رہ میں لیکن کب اندازہ تھا
اس کے بعد وہ طویل عرصے تک بے گھر رہتا ہے۔ سڑکوں، گلیوں، بازاروں میں مارا مارا پھرتا ہے۔ سڑکوں پر کھاتا ہے، پارکوں میں سوتا ہے، کوئی عزیز دوست آشنا مل جائے تو تخلیے کے لیے ترس جاتا ہے ۔ بیسویں صدی کے لاکھوں انسانوں کی بے گھری کا تجربہ ایک شعر اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے
میں آج سوچ رہا ہوں سڑک پر بیٹھا ہوا
کہ میرا گھر بھی کہیں ہو تو میں بلائوں اسے
اپنی ذات، اپنے گھر اور اپنے ماحول سے دل برداشتہ ہو کر وہ فیصلہ کرتا ہے کہ کہیں اور چلا جائے۔۔۔ہجرت کر جائے۔۔۔اس امید پر کہ شاید نئے شہر، نئے گھر، نئے دیس اور نئی فضا میں کچھ سکون مل سکے۔
یہ ہجرت کا عمل گھر بدلنے کا عمل جتنا پچھلے پچاس سال میں ظہور پزیر ہوا تاریخ میں اس کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ یہ عمل چاہے بظاہر چند گھنٹوں یا دنوں کا ہو لیکن درپردہ ایک نہایت ہی جانگسل تجربہ ہے۔جس سے ماضی ،حال اور مستقبل کے بہت سے ناطے جڑے ہوئے ہیں ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بہت سی امیدیں، آرزوئیں اور خواہشیں سانس روکے حالات کے بدلنے کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔
بہت سی ماضی کی یادیں بہت سے منصوبے
ہزار دقتیں پیش آئیں گھر بدلنے میں۔
مہاجرین میں سے بعض تو خوش قسمت تھے انہیں بہتر حالات ، بہتر ملازمتوں اور خوبصورت آرام دہ گھروں نے خوش آمدید کہا لیکن اکثر اپنی مشکلات اپنے ساتھ لے کر آئے۔ ان کی داخلی دشواریاں اور ان کے جذباتی و ذہنی تضادات ان کے حالات بہتر بنانے میں حائل رہے ۔ چنانچہ ان کا نیا گھر ان کے پرانے گھر سے بہتر نہ نکلا۔
جہاں شکستہ چھتوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا
ہم اتفاق سے ایسے مکان میں اترے
ظفر کی شاعری کا ایک خوبصورت پہلو ان کا اپنے حالات اور اعمال کی ذمہ داری لینے کا احساس ہے ۔ وہ ناسازگار حالات کا الزام خدا اور ماحول پر دھر کر چپ نہیں بیٹھتے وہ جانتے ہیں کہ انسان اپنی ذات اور ماحول کی تشکیل میں ذاتی اور اجتماعی طور پر شریک ہے۔ اگر وہ کامیابیوں میں مبارک باد کا مستحق ہے تو ان کی ناکامیوں میں ذمہ داری بھی قبول کرنے کو تیار ہے۔اس لیے وہ یہ بات واضح کر دیتے ہیں کہ اگر سفر میں اور اپنے مقصد کے ماحول کی تلاش میں تکالیف مصیبتیں اور صعوبتیں جھیلنی پڑی ہیں تو یہ ہمارا اپنا فیصلہ تھا۔ہم حالات کی سختی سے مضمحل ضرور ہیں لیکن نادم نہیں ۔
ہم جب اپنے گھر سے باہر نکلے تھے
اچھا برا سب سوچ سمجھ کر نکلے تھے
ظفر زیدی ہندوستان میں پلے بڑھے اور پھر امریکہ کی فضائوں میں جوانی کے چند سال زندہ رہے۔ انہوں نے خاندان کی بدلتی ہوئی روایات کا قریب سے مشاہدہ کیا اور ان کے مختلف پہلوئوں پر اظہارِ خیال کیا ۔ انہوں نے ایک طرف وہ گھرانے دیکھے جہاں ایکسٹنڈڈ فیلیز رہتی ھیں۔ ایک ہی گھر میں بچے والدین اور ان کے والدین بمع رشتہ داروں کے بستے ہیں اور پھر امریکہ میں نیوکلیس فیمیلیز دیکھیں جہاں جوان جوڑے رشتہ داروں سے علیحدہ گھر بساتے ہیں اور رشتہ داروں سے کبھی کبھار ملتے ہیں ان تبدیلیوں کا روزمری کی زندگیوں پر کیا اثر پڑتا ہے اس کے ایک پہلو پر ظفر خیال آرائی کرتے ہیں
کھل کر دونوں لڑ رہے تھے اک ذرا سی بات پر
روکنے کے واسطے گھر میں کوئی بوڑھا نہ تھا
بات یہاں بھی نہ رکی انہوں نے امریکہ میں سینکڑوں ایسے گھر دیکھے جہاں صرف ایک شخص رہتا ہے ایسے لوگ جو خاندانوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے برسوں ایک ہی شہر میں رہ کر بھی اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے نہ ملے نہ ہی ملنے کی امید رکھی بھرے شہر میں تنہا اپنے گھر میں اجنبی نہ کوئی دوست نہ عزیز نہ رشتہ دار نہ رازداں ان میں سے ہر ایک کا حزن و ملال پکارتا ہے
کتنی حسرت سے تکے ہیں درو دیوار مجھے
کوئی اس شہر سے لا دے میرا گھر بار مجھے
بیسویں صدی کی سماجی، معاشرتی اور معاشی تبدیلیوں نے گھروں کی ساخت اور معنی بدل دیے ہیں نفسا نفسی کا عالم ہے بعض لوگ اپنے گھر کی فکر میں مستغرق ہیں کہ ہمسایوں کو اپنی ترقی کی دیوار سمجھتے ہیں
لوگوں نے اپنی راہ بنانے کی فکر میں
میرے نئے مکان کی دیوار گرا دی
اور بعض لوگ رتبے مرتبے اور عالی مقام ہونے کی فکر میں ہیں ان کے لیے تازہ ہوا سورج کی روشنی اور چاندنی راتوں سے لطف اندوز ہونے سے زیادہ ایر کنڈیشنڈ کمرے زیادہ عزیز ہیں۔اور ان تبدیلیوں کی قیمت مالی طور ہی نہیں جمالیاتی طور پر بھی ادا کرتے ہیں۔اور فطری مناظر سے دوری اور محرومی برداشت کرتے ہیں
یہ اونچی اونچی عمارات آنگنوں کے بغیر
انہیں تو چاند کبھی بھی نظر نہ آئے گا
ظفر اس بات سے آگاہ ہیں کہ انسانوں نے انسانیت سے احتراز اور انسانی روایات سے کترانا شروع کر دیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اگر ہم اس مادی دنیا میں خلوص و محبت کی شمعیں نہ روشن رکھ سکے تو ان کے نتائج بہت حوصلہ شکن ہو سکتے ہیں۔ ان حالات پر ظفر اپنے شاعرانہ انداز سے گہرا طنز کرتے ہیں
بہت ہی جلد وہ دن بھی آنے والا ہے
کہ ہم کو زو عجائب گھر میں رکھا جائے گا
جانور آئیں گے لے کے ٹکٹ
دیکھیں گے ہم کو۔۔۔۔
اونچے سے پیپل کے شجر پر بیٹھ کر
اپنا سر اپنے ہی ہاتھوں سے کھجائیں گے
ظفر نے نہ صرف حالات کا مشاہدہ کیا۔۔۔ بدلتی ہوئی اقدار کا تجزیہ کیا ۔۔۔اپنے جذبات اور خیالات کو خوبصورت سے اشعار کے قالب میں ڈھالا ۔۔۔آنے والے حالات سے اپنی بصیرت کے مطابق آگہی حاصل کی بلکہ ایک مخلص دوست کی طرح انسانیت کے کاروں کے ہمسفروں کو مشورہ بھی دیا ۔ وہ زندگی اور انسانیت کے مسائل کا حل ان الفاظ سے سوچتے ہیں
اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسایے کے آنگن میں بھی سایہ جائے
ظفر کا یہ خیال اور مشورہ بیسویں صدی کے انسانوں کے لیے آج بھی قابلِ غور ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔
ظفر کی شاعری کے ایک پہلو پر توجہ مرکوز کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ حساس دل کے مالک تھے اور ان کی شاعری سنجیدہ مطالعے کی مستحق ہے۔
ظر زیدی کی قبل از وقت موت پر مجھے مصطفیٰ زیدی کا یہ شعر یاد آ رہا ہے
اب جی حدودِ سودو زیاں سے گزر گیا
اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا