تیونس میں کئی دہائیوں تک سرکاری سرپرستی میں قحبہ خانے چلتے رہے ہیں۔ یہ اب بھی قانونی ہیں مگر جیسا کہ شیریں الفیکی رپورٹ کرتی ہیں، حقوقِ نسواں کی کارکنان اور قدامت پسند مذہبی حلقوں نے ان میں سے تقریباً تمام کو بند ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔
اپنی زندگی کی دوسری دہائی جینے والی غیر شادی شدہ ماں عامرہ، تیونس کی کئی دیگر خواتین کی طرح اپنا پیٹ پالنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
مگر عامرہ کا کام عمومی ملازمت سے کہیں مختلف ہے۔ وہ عرب دنیا کے باقی رہ جانے والے چند ہی قانونی سیکس ورکرز میں سے ایک ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں صبح سات بجے اٹھتی ہوں، اپنا منہ دھوتی ہوں، میک اپ کرتی ہو، ہال میں جاتی ہوں، کافی پیتی ہوں اور پھر اپنا کام شروع ہونے کا انتظار کرتی ہوں۔‘
تیونس میں قحبہ گری کا پیشہ دو سطحوں پر قائم ہے۔ پہلے میں حکومت سے رجسٹرڈ قحبہ خانے ہیں جہاں خواتین سیکس ورکرز کو ریاست کی جانب سے اپنا کام کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ دوسری قسم غیر قانونی سیکس ورک کی ہے جس میں پکڑے جانے پر دو سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔
19 ویں صدی میں جب تیونس پر فرانس نے قبضہ کیا تو ‘کلائنٹس’ کو جنسی بیماریوں سے بچانے کے لیے احتیاط کے نام پر سیکس ورک کو قانونی ضوابط کے تحت کر دیا گیا۔
قانونی سیکس کے موجودہ قوانین سنہ 1940 کی دہائی میں نافذ کروائے گئے تھے اور سنہ 1958 میں تیونس کی آزادی کے بعد بھی یہ اپنی جگہ موجود رہے۔ مگر یہ کتنا عرصہ قائم رہیں گے؟
سنہ 2010 میں اٹھنے والی تحریکوں سے قبل تیونس بھر میں تقریباً ایک درجن جگہوں پر 300 سے زائد سیکس ورکرز موجود تھیں مگر آج صرف دو شہروں تونس اور صافقس میں مٹھی بھر قانونی قحبہ خانے موجود ہیں۔
’مجھے نکال دیے جانے کا ڈر ہے‘
25 سالہ عامرہ نے جب پانچ سال قبل صفاقس میں کام شروع کیا تھا تو اس وقت 120 قانونی سیکس ورکرز تھیں۔ اب وہ ایک درجن ایسی خواتین میں سے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں ’وہ ایک ایک کر کے خواتین کو نکالتے جا رہے ہیں۔ انھیں چھوٹی سے چھوٹی غلطی کرنے پر نکال دیا جاتا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ ایک دن ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہو گا۔‘
کلائنٹ کے ساتھ جھگڑنا یا پھر اپنے کمرے میں شراب نوشی کرنا ملازمت سے فارغ کیے جانے کے لیے کافی ہے۔
وہ کہتی ہیں ’ہم اپنے بچوں کے لیے اور کرائے ادا کرنے کے لیے کافی رقم کما لیتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اصل میں تو میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر انھوں نے مجھے نکال دیا تو میں کہاں جاؤں گی؟‘
دوسری جانب تیونس میں لگ بھگ 40 برس کی طلاق یافتہ نادیہ کو اچھی طرح اس کا جواب معلوم ہے۔
وہ ملک کے قانونی قحبہ خانوں میں کام کرتی رہی تھیں اور جنوبی شہر قفصہ میں قیام پذیر تھیں۔
سنہ 2011 میں سلفی انتہاپسندوں کی جانب سے پرتشدد مظاہروں کے بعد وہ قحبہ خانہ بند ہو گیا۔ اُس سال ملک بھر کے کئی قانونی قحبہ خانے بند ہوئے۔
نادیہ قفصہ میں ہونے والے حملے میں زخمی ہوگئی تھیں۔ جب وہ بہتر ہوئیں تو انھیں تنزلی کے شکار سرکاری نظام میں واپس آنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا چنانچہ وہ سڑکوں پر ہونے والے غیر قانونی سیکس کی طرف چلی گئیں۔
’مجھے بچانے والا کوئی نہیں تھا‘
وہ قانونی نظام میں اپنی پرانی زندگی کو یاد کرتی ہیں۔ ’یہ کسی محفوظ قحبہ خانے میں ہونے سے بالکل مختلف ہے۔ وہاں ہمارے پاس [ہفتہ وار طبی چیک اپ کے لیے] ڈاکٹر موجود ہوتا تھا، فیمیل کونڈم اور ایک میڈم موجود ہوتیں [جو معاملات پر نظر رکھتیں]۔‘
’اب جب مجھے کوئی کلائنٹ ملتا ہے تو میں خوف کا شکار رہتی ہوں کیونکہ میرے پاس کوئی نہیں جو میری حفاظت کرے یا میرے ساتھ کھڑا ہو۔‘
وہ زخموں کے نشانات کے حامل اپنے چہرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں ’ایک مرتبہ میرے کلائنٹ نے میرے ساتھ سونے کے بعد میرے پیسے چرا لیے، مجھے مارا، اور میرا گلا دبایا۔ اب میرا جسم زخموں سے بھرا ہوا ہے اور جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، میری ناک بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔‘
کارتھیج یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر اور صفِ اول کے انسانی حقوق کے کارکن واحد فرشیشی کہتے ہیں کہ تیونس میں سیکس ورک کے مستقبل نے ملک میں حقوق کے کارکنان کو تقسیم کیے رکھا ہے۔
جب شخصی آزادیوں کو یقینی بنانے کے لیے قانونی اصلاحات، بشمول ہم جنس پرستی کی مجرمانہ حیثیت ختم کرنے کے لبرل طبقے کے مطالبات کے باوجود حقوقِ نسواں کے کئی کارکنان سیکس ورک پر لکیر کھینچ دیتے ہیں۔
پروفیسر فرشیشی کہتے ہیں ’سیاست اور سول سوسائٹی میں ایسے کئی لوگ ہیں جو [قانونی قحبہ خانوں کی] بندش کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ سیکس ورک نئی قسم کی غلامی یا انسانی سمگلنگ کے مترادف ہے۔‘
’پر اگر ہم یہ تمام جگہیں بند کر دیں اور تیونس کی تعزیرات کا اطلاق کریں تو ہمیں ان تمام خواتین کو جیل میں ڈالنا ہوگا، تو حل کیا ہے؟‘
سیکس ورک میں تنزلی
ایک نئے مجوزہ قانون میں جیل کی بجائے 500 دینار (175 ڈالر یا 140 پاؤنڈ) کا جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔ مگر خواتین کے لیے یہ جرمانہ بہت بھاری ہو گا اور جو خواتین اس سے متاثر ہوں گی انھیں اس حوالے سے خدشات ہیں۔
صفاقس میں سیکس ورکرز کی ایک تنظیم چلانے والی بوثینا آؤساوی کہتی ہیں ’ایسے وقت میں جب ملک میں پیسہ نہیں اور نہ ہی ملازمتیں ہیں، ایسا بالکل بھی معقول نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ غیر قانونی سیکس میں اب کمائی کے مواقع گرتے جا رہے ہیں۔
سیکس ورک کو اس لیے بھی نقصان پہنچا ہے کیونکہ انھیں مذہبی حلقوں کی جانب سے مذمت کا ڈر ہوتا ہے۔ کئی سیکس ورکرز نے مسابقتی صورت حال کا بھی تذکرہ کیا ہے جس میں انھیں تیونس کی تارکِ وطن آبادی کی خواتین کی جانب سے مقابلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آؤساوی کہتی ہیں ‘500 دینار بہت زیادہ ہیں۔ وہ اتنے پیسے کہاں سے لائیں گی جب انھیں فی کلائنٹ صرف 15 سے 20 دینار (5 سے 7 ڈالر) ملتے ہیں۔’
پروفیسر فرشیشی انسانی حقوق کے ان چند کارکنوں میں سے ایک ہیں جو کھلے عام اسے قانونی قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
وہ اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب ’سیکس کی تجارت جرم نہیں رہے گی اور تیونس کی حکومت ان تمام خواتین سے معافی مانگے گی جنھیں اس وجہ سے جیل میں ڈالا گیا ہے۔‘
مگر جب تک تیونس کی اسلام پسند سیاسی جماعت النھضۃ حکومت میں ہے، تب تک شاید یہ دن کچھ دور ہو۔
النھضۃ کی ایک نمایاں رکن مہرضیا لبیدی اسے قانونی قرار دینے سے متفق نہیں ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’اگر ہمارے معاشرے کی بنیادی اقدار کی خلاف ورزی کی گئی تو ہمارے خاندانی نظام کی خلاف ورزی ہو گی اور جو اقدار ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے بڑے ہو کر سیکھیں، یہ ان کی بھی خلاف ورزی ہو گی۔‘
یہ سیاستدان تیونس میں ان سیکس ورکرز سے ملاقات کے لیے مشہور ہیں جو سنہ 2014 میں سوسہ کے ساحلی شہر میں اپنے قحبہ خانوں کے بند ہونے کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔
وہ قانونی قحبہ خانوں کو پسند نہیں کرتیں مگر اس کے باوجود انھیں وہاں رہنے والی خواتین کے لیے متبادل کی فکر ہے۔
وہ سوال اٹھاتی ہیں ’ہم کیسے ان کے لیے صحت، رہائش، خوراک اور زندگی کی دیگر سہولیات یقینی بنا سکتے ہیں؟ مثال کے طور پر ایسا انھیں کوئی ملازمت دے کر کیا جا سکتا ہے یا پھر معاشرے کو انھیں قبول کرنے پر آمادہ کر کے۔‘
وہ کہتی ہیں ’بات صرف قوانین اور سیاسی فیصلوں کی نہیں بلکہ ذہنیت تبدیل کرنے کی ہے۔‘
اگر سیکس ورک پر پابندیوں کا رجحان یوں ہی جاری رہا تو مسئلہ یہ ہو گا کہ اس پیشے سے منسلک خواتین کیا کریں گی۔
تیونس میں ملازمتیں تلاش کرنا مشکل کام ہے اور خاص طور پر یہ خواتین کے لیے اور زیادہ مشکل ہے جن کے لیے بے روزگاری کی شرح مردوں کے مقابلے میں دگنی ہے۔
’معاف کیجیے، ہم آپ کو ملازمت نہیں دے سکتے‘
عفف ایک سابق میڈم ہیں جن کا قحبہ خانہ حال ہی میں بند ہو چکا ہے۔ وہ ان مسائل پر روشنی ڈالتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’اگر [سابق سیکس ورکر] کسی ریستوران میں برتن دھونے بھی جاتی ہے تو ایک یا دو دن بعد وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ خاتون تو قحبہ خانے میں کام کرتی رہی ہے جس پر باس نے کہنا ہے کہ ’معاف کیجیے، ہم آپ کو ملازمت نہیں دے سکتے۔‘
دوسری جانب عامرہ کے پاس مستقبل کے حوالے سے کم ہی امیدیں ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’ہمارے خاندانوں کے لیے ہمیں اپنانا مشکل ہو گا۔ اگر مجھے قحبہ خانے سے نکال دیا تو میں سڑک پر آ جاؤں گی اور مسجد کے سامنے اپنے بچے کے لیے بھیک مانگوں گی۔ مجھے امید ہے کہ لوگ مجھ پر رحم کھا ہی لیں گے۔‘
شیریں الفیکی سیکس اینڈ دی سیٹاڈل نامی کتاب کی مصنفہ ہیں اور بی بی سی عربی کے لیے لکھتی ہیں۔