حرا ایمن
پورن فلمیں بالکل اسی طرح فینٹسی کے زمرے میں آتی ہیں جیسے لیلیٰ مجنوں یا سوہنی مہینوال کی داستانیں۔ آج کا انسان اس قسم کے تباہ کن عشق کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بالکل اسی طرح پورن فلموں کے سب مناظر حقیقی زندگی سے بہت دور ہوتے ہیں۔ تقریباً ہر پورن فلم، ھر رومانوی فلم میں خلوت کے مناظر میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ عورت چیخیں مار کے، آہیں بھر کے مرد کو اس عمل کے کامیاب ہونے کی نوید دے رہی ہوتی ہے۔ پانچ چھے منٹ کی اس اداکاری کے بعد مرد سمجھتا ہے کہ اس نے سومنات کا مندر فتح کرلیا اور ان چیخوں اور آہوں کو وہ اپنی مردانگی کے لئے میڈل سمجھتا ہے۔ آج مجھے کہہ لینے دیں کہ عورتوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو دخول (Penetration) سے آرگزم نہیں ہوتا اور وہ اس کا ڈھونگ رچاتی ہیں۔ ارگازم فیک کرنے کے پیچھے کچھ عوامل کار فرما ہیں۔
- پارٹنر کا اصرار کہ اندام نہانی سے نکلی رطوبتیں دراصل آرگزم ہی کا ثبوت ہیں۔
- جنسی عمل کی طوالت یا اعادے (بار بار دہرانے) سے اکتاہٹ
- مرد کی انا کی تسکین
- ازدواجی رشتوں کو کسی بھی قیمت پر چلانے کی کوشش۔
مندرجہ بالا وجوہات کی وجہ سے خواتین آرگزم کو فیک کرتی ہیں یوں یہاں بھی وہ اپنے لطف کی قربانی دیتی اور بعض اوقات متبادل رشتے تلاش کر لیتی ہیں۔
اس حوالے سے مرد حضرات کو عورت کی اناٹومی اور نفسیاتی تقاضے جاننے کی ضرورت ہے۔ عورت کا جی سپاٹ اندام نہانی کے داخلی حصے میں بالائی پرت کی طرف واقع ہوتا ہے۔ وہاں ارتعاش ہو تو فراغت ہوتی ہے۔ عورتوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو ویجائنل دخول (Penetration) سے یہ تسکین نہیں ملتی جب کہ اس کا متبادل قدرت نے اندام نہانی کے بالائی حصے میں واقع بظر (Clitoris) میں چھپا رکھا ہے. اکثر خواتین کو تسکین وہیں سے ہوتی ہے۔
عورتوں کو بھی چاہیے اپنے پارٹنر کو اس چیز سے آگاہ کریں اور فلموں سے سیکھی ہوئی آوازیں نکال کر اس فطرتی عمل کو غیر حقیقی ہونے سے بچائیں۔ اکثر اوقات جوڑے آپس میں معاملات بیٹھ کر سلجھاتے نہیں ہیں اور کنارہ کشی یا لاتعلقی کو حل سمجھ کر زندگی اور پیچیدہ بنا لیتے ہیں۔ زندگی کا کوئی بھی معاملہ ہو، دو طرفہ رائے سے سلجھایا جا سکتا ہے