آج کے ترقی یافتہ بلوچستان (بقول حکمران) میں تعلیم کے ساتھ جو سلوک اس کے کرتا دھرتا ہم قوم نشینوں نے روا رکھا ہے۔ اسے آپ تاتاریوں کی غارت گری سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ جس طرح تاتاری جب کسی ملک پر حملہ کرتے تھے تو وہ اس ملک کی ہر چیز کو اس طرح تہہ تیغ کر دیتے تھے کہ وہ علاقہ برسوں غربت اور بربادی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جاتا تھا۔ لگتا یہ ہے۔ کہ بلوچستان کے تعلیمی نظام کو جو ضرب آج لگ رہی ہے۔ اس کے اثرات ہم برسوں محسوس کریں گے۔
اور اس میں اس قدر خرابیاں رونما ہوچکی ہوگی کہ آنے والا کوئی درد دل یا نیک نیت حکمران بھی اسے ٹھیک نہیں کر سکے گا۔ بد قسمتی سے ہم موجودہ انتظامی طرز حکومت سے میرٹ کا قتل عام اور مافیا کی پرورش کر رہے ہیں۔ جب مافیا طاقتور ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے راستے میں آنے والی سب رکاوٹ کو توڑ دیتے ہیں اور اس کے لئے ہر ناجائز حربے کو استعمال کرنا جائز سمجھتے ہیں۔
کل ایک ریٹائرمنٹ کے قریب اپنے استاد جی سے اسلام آباد میں ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے عرض کیا استاد جی آج کل کس سکول میں پڑھا رہے ہو موجودہ سسٹم کیسا چل رہا ہے۔ بہت دل گرفتہ لہجے میں گویا ہوئے۔ کہ پنشن میں دو سال رہ گئے ہیں سوچ رہا ہوں پنشن کے لئے پہلے ہی اپلائی کر دوں۔ بہت برا حال ہے سکول سائیڈ میں اسی سے نوے فیصد انتظامی عہدوں پر جونیئر افسر تعینات ہیں جو کہ ظاہر ہے کسی سفارش یا پیسے کے زور پر ہی لگے ہوں گے۔ میں نے عرض کیا حضرت ہیڈ ماسٹر یا دیگر انتظامی پوسٹوں میں یکا یک ایسی کیا کشش پیدا ہوگئی ہے جس کے لیے لوگ ہر حدود پھلانگنے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے۔
فرمانے لگے کہ بیٹا حکومت نے ایک ہائی سکول دو یا تین مڈل سکولوں اور چند پرائمری سکولوں کا ایک کلسٹر بنایا ہوا ہے۔ ہائی سکول کا ہیڈ ماسٹر اس کلسٹر کا سربراہ ہوتا ہے۔ گورنمنٹ کی جانب سے ہر کلسٹر کے لیے 15 یا 20 لاکھ روپے سکولوں کی مرمت، فرنیچر، ٹاٹ وغیرہ کی خریداری کے لیے جاری کیے جاتے ہیں۔ جن کا بڑا حصہ خرد برد کی نظر ہو جا تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جونیئر استاد ان پوسٹوں پر تعیناتی کے لیے تگ ودو کرتے نظر آتے ہیں اگر آپ بلوچستان کے 37 اضلاع پر نظر دوڑائیں تو بمشکل چند اسکولوں کے علاوہ ہر سکول میں جونئیر استاد تعینات پائیں گے۔ پہلے اساتذہ کرام سکول کے اسٹاف روم میں پڑھائی سے متعلق آپس میں گفتگو کرتے تھے۔ اب یہ بات ہوتی ہے۔ کہ بجٹ میں فرنیچر میں کتنا ملا ہے۔ رنگ و روغن کی مد کتنی رقم ملے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
مزید فرمایا کہ جب ہم پڑھتے تھے اس وقت ہائی سکول تو دور کی بات پرائمری سیکشن میں بھی سینئر جونئر کا خیال رکھا جاتا تھا۔ حالانکہ پرائمری سیکشن میں سب جے وی ٹیچر ہوتے تھے لیکن مجال ہے جو جونئر استاد کو پڑھانے کے پانچویں جماعت اور سنیئر کو تیسری یا چوتھی جماعت دی جائے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہمارے سکول میں ہر سال پانچویں جماعت شاہ صاحب کے پاس ہوتی تھی جو سب سے سنیئر تھے۔
اپنے شفیق استاد سے رخصت اور دعا لی روانہ ہوا تو خیال آیا کہ کوئٹہ کے بچیوں کے سب سے بڑے سکول، گورنمنٹ گرلز ہائی سکول جناح ٹاون کوئٹہ کی جونئیر ترین پرنسپل کی رلا دینے والی تقریر کی ویڈیو پورے بلوچستان وائرل ہوئی تھی۔
اور درحقیقت نالائق ترین محکمہ تعلیم کے ذمہ دار جو من پسند افراد کی ذریعے ہی محکمہ کو چلاتے رہے ہیں۔ نے سکول میں ایسی پرنسپل، جن کی قابلیت کا اندازہ آپ، باوجود اس کے کہ انہوں نے تحریر لکھی ہوئی تھی، وہ 6 ستمبر کے تقریب میں لکھی تقریر کے پڑھنے سے قاصر ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ محترمہ پورے سکول کی بہتر ایڈمنسٹریٹشن کس طرح ہو سکتی ہے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بچوں کا مستقبل بنانے کے لئے محکمہ تعلیم نہیں ہے اور کچھ دن قبل ان صاحبہ کا تبادلہ ہوا۔
مگر چوبیس گھنٹے کے اندر وہ کس کے کہنے پر تبادلہ منسوخ ہوا؟ پرائم منسٹر پورٹل پر بھی شکایت ڈالی گئی لیکن اس کا بھی کچھ نہیں بنا اور تقریبا 87 کے قریب خواتین سینئرز ترین اور جونیئرز اساتذہ اس گریڈ 17 کے جونئیر پرنسپل کے رحم و کرم پر ہیں یہ صوبائی درالحکومت کوئٹہ کی صورتحال ہے۔ اب تو جس نے 17 گریڈ میں ڈی ای او ایجوکیشن یا ہیڈ ماسٹر لگنا ہے۔ تو نسخہ ایک ہی ہے۔ جو آزمودہ بھی ہے اور تیر بہدف بھی ہے۔ صرف آزمائش شرط ہے۔ ظلم تو یہ ہے ک اب سکولوں میں انتظامی تقرریاں اور تبادلے بی اینڈ آر، پبلک ہیلتھ کی طرز پر ہو رہے ہیں۔ آپ ہی سوچئے جس سسٹم میں میرٹ کا قتل عام ہو وہاں بہتری کس طرح ہو سکتی ہے!