کلپنا اور دھرم کی دیمک

ڈاکٹر محمد یوسف سمرا
میں بچپن سے ہی پھولوں کا دیوانہ تھا۔ گھر کے لان میں مالی کے ساتھ بیٹھ کر پودوں کی تراش خراش میں مالی کا ہاتھ بٹایا کرتا۔ ہماری شام لان میں گزرا کرتی۔ جو پودا مرجھا جاتا ہم اسے نکال کر نیا لگا دیتے۔  میں شوق سے پودوں کو پانی لگاتا۔ مالی کہتا تھا، جو پودا پانی لگانے کے باوجود ہرا نہ ہو، اس کی جڑ میں بیماری لگ جائے یادیمک، وہ ہرا نہیں ہو سکتا۔ ۔  ہمارا لان سرخ گلابوں، سفید کلیوں اور پیلے گیندوں سے بھرا رہتا۔
گرمیوں کے آخر میں انار کے پودوں پر لگے پھول مجھے بہت انسپائر کرتے۔  میں کافی دیر انار کے پھولوں سے لدے درخت کے نیچے کھڑا رہتا۔ بارش کے بعد مہندی کے درخت سے جو خوشبو اٹھتی وہ مجھے پاگل کر دیتی۔ ایک بات لیکن میری سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ سرخ گلاب جو اتنے حسین ہوتے ہیں، تازہ خوشبو دیتے ہیں، اتنی جلدی مرجھا کیوں جاتے ہیں۔  بارش کے بعد کی مہندی کی خوشبو ٹھہر کیوں نہیں جاتی۔ میری کزن عائشہ جو مجھ سے دو سال بڑی تھی وہ بھی لان کی دیکھ بھال میں میرے ساتھ شامل ہو جاتی۔
 ہم لان میں ہی چھٹاپو کھیلا کرتے۔  چڑی بلّا کھیلتے، وہیں جھولے جھولتے۔  اکثر مالی کی بیٹی بھی ہمارے ساتھ کھیل میں شامل ہو جاتی۔ جو پھول ذرا مرجھانے کو ہوتے، قینچی سے کاٹ کر ان کے گلدستے بنا دیتے اور پانی کے گلاس میں رکھتے۔  ایک بار ہمارا انار کا درخت سوکھ گیا تھا، اس کی جڑوں میں دیمک لگ گئی تھی۔ مالی نے اسے جڑ سے نکال دیا تھا۔ میں رونے لگ گیا تھا۔ شام تک کھانا بھی نہیں کھایا۔ بابا منتیں کرتے رہے، وعدہ کیا، دو اور درخت لگوا دیں گے۔
  میرا، عایشہ اور میری چھوٹی بہن چندا کا کمرہ ایک ہی تھا۔ ہم جوائنٹ فیملی میں رہتے تھے۔  چاچو اور ہمارا کھانا پینا اکٹھا تھا۔ عائشہ کو سکول جانے کی جلدی ہوتی، وہ سحر خیز تھی۔ مجھے اٹھانے کے لئے کافی کافی دیر میرے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کرتی رہتی۔ کبھی میرے کانوں میں تو کبھی ناک میں انگلی مار کر مجھے جاگنے پر مجبور کردیتی۔ میں اٹھتے ہی کچن کی طرف بھاگتا اور اس سے پہلے پراٹھا لے لیتا۔ وہ برداشت کرتی۔
 غصے میں کبھی امی کو شکائت لگا دیتی کہ اس نے دانت صاف نہیںکیے ، یوں مجھے اٹھنا پڑتا اور پہلا پراٹھا اسے مل جاتا۔ ہمیں سکول چھوڑنے کی ڈیوٹی ابو کی تھی۔ وہی ہمیں سکول سے پک کرتے۔  عائشہ ہر کام میں میری مدد گار تھی۔ میرے بکھرے کپڑے اٹھا کر الماری میں رکھنا، جوتے وارڈروب میں ترتیب سے رکھنا اور کتابیں سلیقے سے لگانا، اس کی عادت تھی۔ میرا آدھا ہوم ورک بھی وہ کر دیا کرتی۔ یوں بچپن سے ہی میں اپنے ہرکام میں عائشہ پر انحصار کرنے لگا تھا۔
 ہم لیولز میں پہنچ گئے تھے۔  میرے اے لیول کا تقریباً اختتام تھا جبکہ عائشہ یو نیورسٹی چلی گئی تھی۔ ہمارے معمولات بدلنے لگے تھے مگر ہماری شام لان میں پھولوں کے درمیان ہی گزرا کرتی۔ ایسی ہی ایک شام عائشہ کی ناک سے خون بہنے لگا تھا۔ مالی کے مطابق یہ گرمی کی نکسیر تھی۔ عائشہ کا سر پانی کے نل کے نیچے کردیا گیا۔ ٹھنڈا پانی سر پر گرتے ہی اس کی نکسیر بند ہو گئی۔ ایک ہفتے بعد عائشہ کو بخار چڑھا۔ رات کا وقت تھا۔
 گھر میں پیراسٹامول پڑی تھی، میں نے وہ عائشہ کو دے دی۔ اس کا بخار کم ہوا، سردرد کم نہ ہو سکا۔ ساری رات میں اس کا سر دباتا رہا۔ میرا صبح ٹیسٹ تھا۔ پہلی بار عائشہ کی مدد کے بغیر ٹیسٹ دیا تھا، فیل ہو گیا۔ مجھے ایسے لگا جیسے عائشہ کی مدد کے بغیر میں کوئی کام نہیں کر سکتا۔ میں ہرکام میں عائشہ پر انحصار کرنے لگا تھا۔ میرے کپڑے جوتے اسی کی پسند کے ہوتے۔  اس کی چوائس اتنی اچھی تھی کہ جو رنگ وہ پسند کرتی، کوئی اور کلر اچھا ہی نہ لگتا۔
اس کے بغیر کوئی فیصلہ لینا میرے لئے  بہت مشکل ہوتا۔ بابا اسے صبح ہسپتال لے گئے تھے۔  عائشہ دو دن ہسپتال رہی۔ میں دو دن سکول نہیں جا سکا۔ ویسے بھی امتحان کے دن تھے۔  زیادہ پڑھائی کی ضرورت تھی۔ عائشہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہو پارہی تھی۔ اسے کبھی صبح تو کبھی شام بخار چڑھ جاتا۔  ایک ہفتے بعد پھر اس کے ناک سے خون بہنے لگا جو سر پر ٹھنڈا پانی ڈالنے سے بھی نہیں رکا۔ اسے ہسپتال لے کر جانا پڑا جہاں اس کو خون کی ضرورت تھی، شکر ہے میرا خون اس کے ساتھ میچ کر گیا تھا۔
عائشہ کا بخار تو اتر گیا تھا مگر اس کے چہرے سے وہ شادابی، وہ تازگی ختم ہوتی جارہی تھی۔ میرے امتحانوں میں لیکن وہ یکسوئی سے مدد کر رہی تھی۔ اس کی گردن پر چھوٹی چھوٹی گلٹیاں نکل آئی تھیں۔  عائشہ ہسپتال داخل تھی۔ اس کی کمر سے پانی اور ہڈیوں کا گودا لے کر ٹیسٹ کروایا گیا۔ اس کو خون کا سرطان تشخیص ہوا۔ اس کو کیموتھراپی لگی تھی۔ اس کے بال اڑ گئے تھے، چہرہ زرد ہو گیا تھا۔ وہ ٹھیک نہیں ہو پا رہی تھی، آخر بابا علاج کے لئے اسے انگلینڈ لے آئے۔
 یہاں ہماری پھوپھو سپیشلسٹ ڈاکٹر تھیں۔  بابا بھی ڈاکٹر تھے، ہم برٹش نیشنیلٹی ہولڈر تھے۔  میں بھی ساتھ آگیا تھا۔ میرا لندن میں ہی یونیورسٹی داخلہ ہو گیا۔ عائشہ مگر مرجھاتی چلی گئی۔ اس کی ہڈیوں تک سرطان سرایت کر گیا تھا۔ اس کو سرطان کی دیمک لگ گئی تھی۔ مالی کہتا تھا جس پودے کی جڑوں کو دیمک لگ جائے، وہ ہرا نہیں ہو سکتا۔ عائشہ مجھے چھوڑ گئی۔ بڑے مالی نے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا۔ وہ مٹی میں مل گئی۔ میرا چمن اجڑ گیا۔ میرے سارے پودے مر گئے۔  میرا دل، میرا دماغ، میرا سارا جسم اکڑ گیا۔ کئی دن ہسپتال رہا اور پھر ماہر نفسیات کے کلینک۔ میں گہری غنودگی میں رہتا یا پھر اونچی اونچی، جو منہ میں آتا بکتا چلا جاتا۔
کئی مہینے بعد میں نے کلاس میں جانا شروع کیا۔ پہلا سال کافی مشکل تھا۔ یہاں خود کام کرنا پڑتا تھا۔ کبھی اسائنمنٹ تو کبھی پریزینٹیشن، مجھے کام کرنے کی عادت نہ تھی۔ میرے آدھے کام تو عائشہ کر دیا کرتی تھی، دوسرے میں جو دوائی کھا رہا تھا، اس سے مجھ پر غنودگی طاری رہتی تھی۔
 آہستہ آہستہ دوا کی مقدار کم ہورہی تھی اور میں زندگی کی طرف لوٹ رہا تھا۔ پہلے سال کا رزلٹ اچھا نہیں تھا۔ بہت برے گریڈ آئے تھے، بمشکل پاس ہوا تھا۔ میں اداس بیٹھا ہوا تھا۔ عائشہ ہوتی تو میرے گریڈ اتنے برے ہو ہی نہیں سکتے تھے۔  مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ خوشبو دینے والے پھول اتنی جلدی مرجھا کیوں جاتے ہیں۔  اس دن یونیورسٹی کے مرکزی کیفے میں کچھ کھانے آیا تھا اور بھول گیا تھا کہ یہاں کیوں آیا ہوں۔  میں اکیلا خاموش بیٹھا تھا۔
 مجھے نہیں پتہ وہ کب آکر میرے سامنے بیٹھ گئی تھی۔ اس نے کافی کا مگ میرے سامنے کیا تو مجھے احساس ہوا۔ میں نے تو کافی کا آرڈر نہیں کیا ”۔ میری طرف سے پی لو“ اس نے آہستگی سے کہا۔ اس کے لہجے میں اپنائیت تھی۔ کافی پیتے پیتے میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے تھے۔  وہ اٹھی اور میری کرسی کے پیچھے آ کھڑی ہوئی۔ وہ میرے آنسو پونچھ رہی تھی۔ اس نے میرے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کی۔ میری تھوڈی اٹھا کر میرا ماتھا چوما۔

 کتنی ہی دیر میرے گال تھپتھپاتی رہی، حتیٰ کہ میرے آنسو خشک ہو گئے۔  کلپنا سے میری پہلی ملاقات ہی اسے میری روح میں بسا گئی۔ وہ کشمیری برہمن تھی۔ سکالرشپ پر پی ایچ ڈی کرنے آئی تھی۔ اس نے ویک اینڈ پر مجھے کھا۔ نے پر بلایا، اپنے ہاتھ سے پراٹھا اور تڑکے والی دال بنائی۔ پھر ہر ویک اینڈ پر اس کے ہاتھ کا پراٹھا کھانا گویا میری زندگی کا مقصد بن گیا۔ وہ مجھے ہر سبجکٹ میں ٹیوشن دیتی۔ میرے گریڈ اچھے ہوتے گئے، دوائی کی مقدار کم ہوتی گئی حتٰی کہ دوائی چھوٹ گئی۔
 کلپنا کو میری کہانی پوری طرح سمجھ آگئی تھی۔ اس کے عقیدے کے مطابق میرے لئے وہ عائشہ کا دوسرا جنم تھی یوں دوسال گزر گئے۔  میں نے اس کے ساتھ سارا لندن گھوما، دریائے ٹیمز کے کنارے شامیں گزاریں، مادام تساؤ کے مومی مجسمے دیکھے، بذریعہ فیری فرانس گئے اور ایفل ٹاور دیکھا۔ زندگی کے سارے رنگ کلپنا کے سنگ لوٹ آئے تھے۔  میری زندگی کا پودہ ہرا بھرا ہو گیا تھا۔ کلپنا نے میری زندگی کے مر جھائے پودے کو پانی دیا تھا، میرے دل کے جھاڑ جھنکار کی گوڈی کر کے صفائی کر دی تھی، یوں دل کا چمن میں پھر سے بہار اتری تھی، اور وہ پھولوں سے بھر گیا تھا۔
 پھر یوں ہوا کہ ہمارے بیچ جتندر حائل ہو گیا۔ وہ کلپنا کا منگیتر تھا، اس کا بھی سکالرشپ لگ گیا تھا۔ نہ جانے کیوں وہ مجھ سے ناراض ناراض سا رہتا، جس کی وجہ مجھے سمجھ نہ آتی تھی۔ شاید وہ مجھے مسلمان سمجھ کر کلپنا کو مجھ سے ملنے سے منع کرتا تھا، یا کوئی اور وجہ تھی۔ وہ دونوں اکٹھے رہتے تھے، اس لئے ویک اینڈ پر کلپنا کے گھر جانا اب مشکل ہو گیا تھا۔ کئی ہفتے میں کلپنا کے ہاتھ کا پراٹھا نہیں کھا سکا۔ کبھی کبھی ہم پھوپھو کے گھر چلے جاتے، جہاں ہم سارا دن کیرم کھیل کر گزارتے۔

میری زندگی کی روانی میں رکاوٹ آگئی تھی اور مجھے نیند بھی کم آنے لگی تھی۔ ایک دن میرا جتندر کے ساتھ یونیورسٹی میں ٹاکرا ہو گیا۔ کلپنا اس کے ساتھ تھی۔ کلپنا نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا تھا مگر جتندر نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ میں رات کا جاگا ہوا تھا، دوا کھانا بھول گیا تھا، اس لئے  ہائپر ہو گیا۔ میں نے اسے گھٹیا، انتہا پسند ہندو کہ ڈالا۔ ہمارے درمیاں سخت جملوں کا تبادلہ ہورہا تھا جب کلپنا نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔  میں خاموش ہو گیا۔ وہ دونوں چلے گئے۔  میرے اور کلپنا کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے گئے۔
کلپنا کو دیمک لگ گئی تھی۔ مالی کہتا تھا جس پودے کی جڑ کو دیمک لگ جائے وہ ہرا نہیں ہوسکتا۔ کلپنا کو جتندر کی صورت دھرم کی دیمک لگ چکی تھی۔ یہ دیمک اس کے خون کے ذروں کو سفید کرتی جارہی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ بلکل مرجھا جاتی، دھرم کی دیمک اس کی جڑوں تک جا پہنچتی، میں نے اس سے قطع تعلق کر لیا۔ میں نے ماہر نفسیات کے پاس دوبارہ جانا شروع کر دیا۔