شام میں ترکی کی فوجی کارروائی: دولتِ اسلامیہ سے وابستہ جنگجوؤں کے ’سینکڑوں‘ رشتہ دار عین عیسیٰ کیمپ سے فرار

خاتون اور بچہ
کُرد حکام کا کہنا ہے کہ ترکی کی جانب سے کیے گئے حملے کے دوران شام کے شمالی علاقے میں واقع ایک کیمپ سے دولتِ اسلامیہ سے وابستہ سینکڑوں غیر ملکی قیدی فرار ہو گئے ہیں۔
حکام کا مزید کہنا ہے عین عیسیٰ نامی کیمپ کے قریب ہونے والی جھڑپ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زیرِ حراست قیدیوں نے کیمپ کے گیٹ پر دھاوا بول دیا۔
فرار ہونے والے قیدیوں کے حوالے سے تفصیلات ابھی مکمل طور پر سامنے نہیں آئی ہیں۔ تاہم ایک مانیٹرنگ گروپ کا دعوی ہے کہ فرار ہونے والوں کی تعداد لگ بھگ ایک سو کے قریب ہے جبکہ کُرد حکام نے مطابق دولت اسلامیہ سے وابستہ جنگجوؤں کے 800 کے قریب رشتہ دار اس کیمپ سے فرار ہوئے ہیں۔
عین عیسیٰ کیمپ میں تقریباً 12 ہزار افراد موجود تھے جن میں ایک ہزار کے قریب خواتین اور بچے وہ تھے جن کے جہادی گروہوں سے تعلقات تھے۔

یہ بھی پڑھیے

کُرد حکام کا کہنا ہے کہ عین عیسیٰ کیمپ میں ’اس وقت کوئی گارڈ موجود نہیں ہے۔‘
بی بی سی میں عرب امور کے ایڈیٹر سبیسٹین اشعر کا کہنا ہے کہ یہ معلوم نہیں ہے کہ فرار ہونے والے افراد کہاں گئے ہیں۔
ترکیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionسینئیر کُرد افسر ریڈور سیلیل نے کہا ہے کہ ترکی کے آپریشن سے دولت اسلامیہ کو دوبارہ گروپ بندی کرنے کا موقع ملے گا
سینئیر کُرد افسر ریڈور سیلیل نے کہا ہے کہ ترکی کے آپریشن سے دولت اسلامیہ کو موقع ملے گا کہ وہ دوبارہ گروپ بندی کرنے میں کامیاب ہوں۔
ترکی نے گذشتہ ہفتے ان علاقوں سے کُردوں کو بیدخل کرنے کے لیے حملوں کا آغاز کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے مطابق ان حملوں کے بعد سے اب تک 13 ہزار افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ اس تعداد میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔
اس سے قبل کُرد حکام نے واضح کیا تھا اگر ترکی کی جانب سے ان کے خلاف حملے جاری رہے تو وہ دولتِ اسلامیہ کے قیدیوں کی نگرانی کو ترجیح نہیں دیں گے۔
شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد اس وقت کردوں کی زیر قیادت شامی ڈیمو کریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے قبضے میں ہیں۔
ترکی شامتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionحکام کا کہنا ہے عین عیسیٰ نامی کیمپ کے قریب ہونے والی جھڑپ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زیرِ حراست قیدیوں نے کیمپ کے گیٹ پر دھاوا بول دیا
ترکی کی جانب سے یہ عسکری کارروائیاں بدھ کے روز شروع کی گئیں۔ شمال مشرقی شام میں ایس ڈی ایف کے زیرِ اثر علاقوں کو شدید زمینی اور فضائی حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سرحد کے دونوں اطراف کم از کم 50 عام شہریوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔
ترکی کرد ملیشیا (ایس ڈی ایف) کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتا ہے اور ان کے مطابق ترکی کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کا مقصد کردوں کو ’محفوظ زون‘ سے 30 کلومیٹر دور بھگانا ہے۔
ترکی، 30 لاکھ شامی پناہ گزینوں کو اس محفوظ زون میں بسانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ فی الحال یہ پناہ گزین ترکی میں قیام پذیر ہیں۔
شامتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
سیرین آبزرویٹری برائے ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کے مانیٹرنگ گروپ کے مطابق سنیچر کے روز شمالی شام میں ایک سڑک پر کیے گئے حملے میں نو شہری ہلاک ہو گئے جن میں ایک خاتون کرد سیاستدان اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن، ہروین خلف بھی شامل تھیں۔
کرد ذرائع اور ایسڈی سی کے مطابق فیوچر سیریا پارٹی کی جنرل سکیرٹری، ہروین خلف کو اس وقت گولیوں سے نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا جب وہ اپنے ڈرائیور اور ایک معاون کے ساتھ ہاساکا میں ہونے والے ایک اجلاس سے واپس جا رہی تھیں۔
سیرین آبزرویٹری برائے ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کہ مطابق ان نو افراد کو سڑک کے مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں ہلاک کیا گیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ترکی کے حمایت یافتہ باغی گروپ شامی نیشنل آرمی کے ترجمان نے ان ہلاکتوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے اب تک شام میں اتنی آگے تک پیش قدمی نہیں کی۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق کردوں کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ شمال مشرقی شام میں کرد انتظامیہ اس تعداد کو کئی گنا زیادہ بتاتی ہے۔
کرد انتظامیہ کے مطابق بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 191000 سے بھی زیادہ ہے۔
خیال رہے کہ ترکی کی شام میں کردوں کے خلاف عسکری کارروائی صدر ٹرمپ کی جانب سے شمال مشرقی شام سے امریکی فوجیوں کو نکالنے کے فیصلے کے بعد شروع ہوئی۔
شامتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionسنیچر کے روز راس الاعین کے آس پاس ہونی والی جھڑپوں میں شدت پیدا ہوگئی۔ راس العین سے دھواں اٹھتا دکھائی دے دہا ہے
ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے امریکی افواج کے انخلا کے فیصلے نے ترکی کو سرحد پار سے حملہ کرنے کی موثر طور پر گرین لائٹ دی تھی۔
کردوں کی زیرِ قیادت شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) اس خطے میں امریکہ کی اہم اتحادی ہیں۔
کرد کیا کہتے ہیں؟
سنیچر کے روز ایک ٹیلی وژن بیان میں سینئر عہدیدار ریدور جلیل کا کہنا تھا کہ سام کی سرحد پر ترکی کے ساتھ لڑائی کے باعث ایس ڈی ایف اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے حراستی مراکز کی نگرانی نہیں کر سکتی۔
’دولتِ اسلامیہ کے قیدیوں کی نگرانی کرنا اب ہماری ترجیح نہیں ہے۔ جو بھی ان قیدیوں کی حراست کی پرواہ کرتا ہے وہ آکر حل نکالیں، ہم انھیں خوش آمدید کہیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس سب کے بجائے ایس ڈی ایف کی افواج ’ہمارے شہروں اور اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے پیش قدمی کریں گی۔‘
انھوں نے متنبہ کیا کہ ترک آپریشن دولتِ اسلامیہ کے دوبارہ منظم ہونے کے لیے راہیں کھول رہا ہے۔.
ان کا کہنا تھا کے دولتِ اسلامیہ کے شدت پسند پھر سے سر اٹھا رہے ہیں اور قمیشلی اور حساکا میں اپنے سیلز کو فعال بنا رہے ہیں۔

دولتِ اسلامیہ شام میں کیا کر رہی ہے؟

ریدور جلیل کا یہ تبصرہ ایک روز پہلے ان دونوں شہروں میں ہونے والے کار بم دھماکوں کے بعد سامنے آیا ہے۔ دولتِ اسلامیہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
ایس ڈی ایف کے مطابق جمعے کے روز ترکی کی گولہ باری کے دوران دولتِ اسلامیہ کے پانچ اراکین قمیشلی کی ایک جیل سے فرار ہوگئے۔
شامتصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionدولتِ اسلامیہ نے کرد اکثریتی شہر قمیشلی میں ایک کار بم حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے
سنیچر کے روز دولتِ اسلامیہ نے شام میں ایک نئی مہم کا اعلان کیا، جس کا مقصد کردوں کی زیر انتظام جیلوں میں اپنے ممبران کی حراست کا بدلہ لینا ہے۔
ایس ڈی ایف کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کی سات جیلوں میں دولتِ اسلامیہ کے 12000 سے زیادہ ممبران قید ہیں، جن میں کم از کم 4000 غیر ملکی بھی شامل ہیں۔
یہ قیدی جن مقامات پر قید ہیں اگرچہ ان کا انکشاف نہیں کیا گیا لیکن اطلاعات کے مطابق ان میں سے چند ترکی کی سرحد کے قریب واقع ہیں۔
روج اور عین ایسیہ کے کیمپ جن میں دولتِ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے مشتبہ ارکین کے خاندان قید ہیں، یہ دونوں ’محفوظ زون‘ کے اندر واقع ہیں۔
شامتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionاقوامِ متحدہ کے مطابق کردوں کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں
جمعے کے روز کردوں کی زیرقیادت حکام کا کہنا تھا کہ عین عیسیٰ کیمپ کو منتقل کرنے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ اس کیمپ کو گولہ باری کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ترکی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی کارروائی کے دوران پکڑے جانے والے دولتِ اسلامیہ کے قیدیوں کی ذمہ داری قبول کرے گا۔

ترکی کی عسکری کارروائیوں کی تازہ صورتِ حال کیا ہے؟

سنیچر کے روز راس الاعین کے آس پاس ہونی والی جھڑپوں میں شدت پیدا ہوگئی۔ دونوں فریقین کی جانب سے سب سے اہم سرحدی شہر پر قبضے کے متضاد دعوے کیے جارہے ہیں۔
ترکی کا کہنا ہے کہ وہ راس العین پر قبضہ کر چکا ہے لیکن ایس ڈی ایف نے اس کی تردید کی ہے۔
راس العین اور قصبہ طل آبادی ترکی کے دو اہم اہداف میں شامل ہیں۔
دوسری جانب ترکی کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے سرحد سے 30 کلومیٹر دور اسٹریٹجک لحاظ سے اہم سڑکوں اور درجن سے زیادہ دیہاتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
نقشہ
ایس ڈی ایف کو ترکی اور شام کی سرحد کے قریب 75 میل (120 کلو میٹر) لمبی سرحد پر ترکی کے زمینی اور فضائی حملوں کا سامنا ہے۔
سنیچر کے روز ایک بیان میں ایس ڈی ایف کے عہدیدار ریدور جلیل نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ترک طیاروں کے لیے فضائی حدود بند کرکے کرد جنگجوؤں کی حفاظت یقینی بنائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری مدد کرنا امریکہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔

ہلاکتوں کی تعداد کیا ہے؟

سرحد کی دونوں جانب عام شہریوں کی ہلاکت کی تعداد بڑھ رہی ہے:
  • برطانیہ میں قائم سیرین آبزرویٹری برائے ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کے مطابق کم از کم 38 شہری اور 80 سے زیادہ کرد جنگجو ہلاک ہوگئے ہیں۔
  • ترکی کے مطابق، جنوبی ترکی میں سترہ شہری ہلاک ہو گئے ہیں جن میں ایک شامی بچہ بھی شامل ہے۔
  • ایک ترک فوجی کے علاوہ ترکی کے اتحادی باغیوں کے ساتھ لڑنے والے 50 ترک جنگجو جنھیں شامی قومی فوج کے نام سے جانا جاتا ہے، کی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔

ترک کارروائی پر کیسا ردِ عمل سامنے آ رہا ہے؟

ترکی پر عسکری کارروائیاں روکنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے لیکن صدر رجب طیب اردوغان کا کہنا ہے کہ حملے جاری رہیں گے۔
سنیچر کے روز فرانس کی وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ترکی کو ہتھیاروں کی تمام برآمدات معطل کردے گا۔
اس سے قبل جرمنی نے اعلان کیا تھا کہ وہ نیٹو اتحادی کو اپنے ہتھیاروں کی فروخت میں کمی لا رہے ہیں۔
برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے بھی صدر اردغان کو ٹیلیفون پر متنبہ کیا تھا کہ ان کا آپریشن شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف ہونے والی پیشرفت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
کردوں نے صدر ٹرمپ کے امریکی افواج کے انخلا کو وہ اپنے ساتھ دھوکہ قرار دیا ہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہت ترکی اور کردوں کے دومیان ثالثی کی خواہش رکھتا ہے۔
برلنتصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionبرلن میں بھی سنیچر کے روز ترکی کے آپریشن کے خلاف مظاہرے دیکھے گئے
صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ضروری ہوا تو ترکی کے خلاف پابندیوں کا استعمال کرنے کے لیے بھی تیار ہوں گے۔
دوسری جانب پیرس، برلن سمیت متعدد یورپی شہروں میں ہزاروں افراد نے ترک حملے کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں