دفتر میں کم کام کرنا نقصان دہ یا فائدہ مند؟

دفتر
یہ عام تصور ہے کہ جب ایک محنتی ملازم ریٹائر ہوجاتا ہے تو پھر فراغت کے دنوں میں انھیں الجھن ہوتی ہے کیونکہ ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا۔
جن لوگوں کی زندگی کا مقصد صرف ان کے پیشے سے منسلک ہو جاتا ہے، ان کے لیے بغیر کام کے زندگی بدمزہ ہوجاتی ہے۔
کام کرنے سے پورے ہفتے کا ایک معمول بن جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں فارغ رہنے کو ایک اضطراب اور غیرصحت مندانہ سرگرمی کے طور پر دیکھا جائے۔ ممکن ہے کہ یہ لوگوں کو جرائم اور منشیات جیسی سرگرمیوں کی طرف لے جائے۔
امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار اور ملازمتیں پیدا کرنے والی سماجی تنظیم ’وینچر‘ کے بانی اینڈریو یانگ کا کہنا ہے کہ ’اعداد و شمار، عام مشاہدے اور انسانی تجربے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کام کے بغیر بہت بڑی تعداد میں لوگ ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
کشتیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
ان کے خیال میں ’ہمارے پاس بہت وقت ہوتا ہے لیکن ہم نکمے ہیں اور رضا کارانہ طور پر کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ اضافی وقت میں ہم ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں اور شراب پیتے ہیں۔ عام طور پر معاشرہ کام کے بغیر بہت کمزور پڑ جاتا ہے۔‘
لیکن اگر لوگ سماجی سرگرمیوں کے حامی بن جائیں تو کیا ہوگا؟ یہ مشکل ہوگا لیکن کیا اس سے لوگ زیادہ تخلیقی بن سکتے ہیں اور سیاسی یا سماجی خدمت کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں؟

’محض مصروف رہنا کام کی نشانی نہیں‘

جاپانی خاتونتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
سرگرم زندگی گزارنے کے لیے صرف تنخواہ دار ملازمت واحد راستہ نہیں۔
جاپان میں ’اکیگائی‘ کا نظریہ لوگوں کو زندگی میں خوش رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس کے مطابق لوگوں کو صبح سویرے اٹھ کر کسی سرگرمی میں مصروف ہونا چاہیے تاکہ انھیں صبح اٹھنے کی ایک وجہ مل سکے۔
سنہ 2010 میں جاپان میں خواتین اور مردوں کا سروے کیا گیا جس کے مطابق ایک تہائی سے بھی کم لوگ اپنے کام کو ’اکیگائی‘ کا مترادف سمجھتے ہیں۔ اور اپنے شوق، بغیر تنخواہ کام اور تعلقات سے اپنی ریٹائرمنٹ مراد لیتے ہیں۔

فراغت کے وقت میں ہمیشہ سکون نہیں ملتا

خواتین ملازمتتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
خواتین ہمیشہ ہی زیادہ کام کر رہی ہوتی ہیں لیکن ان کے کام کی قدر معاوضے والے کام جیسی نہیں ہوتی۔
بچوں کی دیکھ بھال سے لے کر بوڑھے والدین کی خدمت تک اور گھر کے کام کاج سے لے کر معاشرتی اور دیگر ذمہ داریوں تک، خواتین کا کافی وقت خرچ ہوتا ہے۔
معاوضے والے کام کے بوجھ میں کمی بغیر معاوضے والے کاموں کے لیے وقت اور توانائی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ لیکن کمپنیوں اور حکومتوں کو مخصوص سروسز میں خرچ کرتے ہوئے مفت میں کام کرنے والے لوگوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔

طویل چھٹیاں مہنگی ثابت ہوسکتی ہیں

خاتون رضا کارتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
مختصر دورانیے کی چھٹیوں والے ہفتے کے ٹرائل سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہفتے کے آخر میں زیادہ چھٹیوں والے ملازمین، جن کی تنخواہ برابر ہیں، اپنے اضافی وقت کو مختلف سرگرمیوں میں خرچ کرتے ہیں جن میں گالف کھیلنے سے لے کر بزرگوں کا کام میں ہاتھ بٹانا بھی شامل ہے۔
لندن میں مارکیٹنگ اور کمیونیکیشن کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرنے والی الگزینڈرا ہارٹنال کے خیال میں فری لانس کے طور پر کام کرنے سے وہ سکون محسوس کرتی ہیں۔ اس وجہ سے انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ہفتے میں چار دن سے زیادہ کام نہیں کریں گی۔
اب وہ اضافی وقت اپنے پسندیدہ ماحولیاتی ایشوز پر خرچ کرتی ہیں۔ وہ ماحولیات سے متعلق کام کرنے والے ٹرسٹ کے لیے عوامی مفاد میں مواصلات کا کام کرتی ہیں۔
اس سے ان کی شخصیت کو تسکین پہنچتی ہے اور وہ ان کاموں میں سرگرم رہنا چاہتی ہیں۔
اب ہارٹنال بھی یہ تسلیم کرتی ہیں کہ معاشی سکیورٹی ان کی رضاکارانہ سرگرمیوں کو یقینی بناتی ہے۔

یہ عدم مساوات کا سبب بن سکتا ہے

ورکشاپتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی میں مزدوروں کی تاریخ پڑھانے والے پروفیسر فلپ ریک نے خبردار کیا ہے کہ ہفتے میں چار دن کام کرنا اس بات کی نشاندہی ہو سکتی ہے کہ کام میں ایسی رعایت کا فائدہ صرف ہارٹنال جیسے پیشہ وارنہ ملازمین کو پہنچ سکتا ہے۔
بہت سے لوگ جن کی ملازمت کی صورتحال اچھی نہیں ہے، جن کی اجرت کم یا پھر ریٹائرمنٹ کے محدود پیسے ان کو پریشان کرتے ہیں اور رضاکارانہ کام ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
فراغت کا وقت ان کے لیے ایک دھوکے سے زیادہ کچھ نھیں ہے کیونکہ وہ بے تابی سے اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے کسی اور کام کی تلاش میں ہوتے ہیں۔
ریک کا کہنا ہے کہ اس سے بچاؤ ممکن ہے۔ ان کی تجویز کے مطابق ’اگر ہم بحیثیت معاشرہ یہ تسلیم کرلیں کہ 40 گھنٹوں کے بجائے ہفتے میں 28 گھنٹے کام کرنا زیادہ مناسب ہے جس کے بدلے مناسب آمدن بھی ہوسکے۔‘
’مجھے اب بھی شک ہے کہ پارٹ ٹائم لیبر، کم ملازمتیں یا صفر گھنٹے کے معاہدے کتنے عام ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس پر جلد اتفاق رائے پیدا ہوسکتا ہے۔
ہفتے میں کم دن کام کرنے کی بحث میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ دنیا بھر میں سب کے لیے ایک مناسب آمدن ممکن ہوسکے یا کام کے وقت کم ہونے سے تنخواہ میں کسی قسم کی کوئی کٹوتی نہ ہو۔

کیا اس سے لوگ دوسروں کی مدد بھی کریں گے؟

کامتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionفراغت کام
ایک اور چیلنج یہ ہے کہ کام کے اوقات کم کرنے سے ضروری نہیں ہے کہ لوگ خود بخود معاشرے کی بہتری کے لیے فلاحی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے۔
ٹوکیو یونیورسٹی کی میلانی اوپنھامر، جو آسٹریلیا کی مشہور اداکارہ بھی رہ چکی ہیں، کا کہنا ہے کہ حقیقیت میں 35 سے 44 سال تک کے لوگ جو بچوں کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہوتے ہیں یا دوسرے الفاظ میں وہ انتہائی مصروف لوگ جو رضا کارانہ سرگرمیوں میں بھی زیادہ وقت دیتے ہیں۔
بہت سے لوگوں کی سوچ کے برعکس رضاکارانہ کام کی تعریف بہت وسیع ہے: سکول کے بچوں کے فٹ بال میچ کا ریفری بن جانا اور سکول کے پروگرامز کرانا، شہر میں نئے آنے والوں کو رہنے میں مدد فراہم کرنا، سیٹیزن سائنس پروجیکٹ میں حصہ ڈالنا اور مذہبی تہوار کا انعقاد کرنا شامل ہیں۔
اوپنھامر کے خیال میں اس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لینے میں وقت کی کمی بڑی رکاوٹ نہیں بنتی۔ ایسے لوگوں کی مدد کرنا جو رضاکارانہ سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہتے ہیں اور ان کو ایسے مواقع کے بارے میں رہنمائی کی جائے۔

یہ اتنا برا بھی نہیں ہے

کم دن کامتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
ہفتے میں پانچ دن سے کم کام کرنے کے بعد لوگ اپنے فراغت کے لمحات کن کاموں میں خرچ کریں گے اس متعلق کوئی مفصل تحقیق موجود نہیں ہے۔
لیکن اب بھی لوگ کم دن کام کرنے سے متعلق یہ کہہ کر اس مطالبے پر زور دے رہے ہیں کہ اس طرح ان کو فراغت کے زیادہ لمحات میسر ہوں گے، ان کی صحت بہتر ہوگی، ان کی تخلیقی صلاحتیوں میں اضافہ ہوگا، خاندان کو زیادہ وقت دے سکیں گے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے قابل ہوجائیں گے۔ اور یہ بہت ضروری ہے۔
سنہ 1954 میں ہفتے میں کام کے چھ دن سے کم ہو کر جب پانچ دن کردیے گئے تو ایک جرمن سیاستدان نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جب ہمارے پاس سنیچر کا بھی دن ہوگا تو پھر ایسے میں ہم ورزش کرسکیں گے، فلم دیکھنے سینما جائیں گے، تھیٹر یا سرکس بھی جاسکیں گے، اپنے موٹر سائیکل اور سکوٹرز پر باہر نکل کر باغات کی طرف سیر کرسکیں گے۔‘
ریک کا کہنا تھا کہ ’ایک بڑا فرق یہ ہے کہ چار دن کام کرنے سے متعلق تصور کی (کمپنیوں کے) مالکان کی بھی حمایت حاصل ہے۔ ٹریڈر یونین نے ماضی میں ہمیشہ ہفتے میں کم وقت کام کے حق کے حصول کے لیے جدوجہد کی ہے۔
ریک کو یہ شک ہے کہ یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ مالکان ایک صدی قبل کے مقابلے میں اب ملازمین کا زیادہ خیال رکھنا شروع ہوگئے بلکہ وہ اس وجہ سے اس تصور کی حمایت کررہے ہیں کہ اس سے تخلیقی صلاحیت مزید بڑھے گی۔
ان کو یہ ڈر بھی ہے کہ مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں ہفتے میں کم دن کام کرنے کے مطالبے کی حمایت صرف انفرادی فائدے کے لیے کررہی ہیں جبکہ ان کو معاشرتی تبدیلی کے لیے یہ تحریک چلانی چائیے۔

دولت ناپنے کے دوسرے طریقے

نیوزی لینڈتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
کیا ہمیں کم عرصہ کام کرنے سے مستقبل میں اپنے آپ کو بدلنے میں مدد ملے گی؟ یعنی اس بارے میں کہ ہم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ بات چیت کیسے کرتے ہیں؟
کمیونیکیشن کنسلٹنٹ ہارٹنال کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں آپ کی شناخت آپ کے کام سے ہے۔ اور وہ معاوضے والے کام پر کم وقت خرچ کرنے کو ترجیح نہیں دیں گی جس کے بارے میں انھیں لگے کہ اب وہ اس کی شناخت کا حصہ نہیں ہے۔‘
مستقبل میں جب یہ پوچھا جائے گا کہ ’آپ کیا کام کرتے ہیں؟‘ تو ایسے میں موجودہ ملازت کے بجائے اس سوال کے بہت سے مختلف طرح کے جوابات آئیں گے۔
بڑے پیمانے پر بھی کام کی اس تبدیلی کو زیادہ خیالی تصور کرنے کا یہ ایک اچھا موقع ہے۔
ساراتھ ڈوالا حیدر آباد انڈیا میں سماجیات کے شعبے سے وابستہ ہیں اور وہ ’بیٹر انکم ارتھ نیٹ ورک‘ کے وائس چئیرمین بھی ہیں۔ یہ نیٹ ورک ایک ایسا خیراتی ادارہ ہے جو کم سے کم اجرت اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو اب کامیابی اور فلاح و بہبود کو ماپنے کے وسیع پیمانے درکار ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ کام سے کیا حاصل ہوتا ہے اور کام سے لوگ کیسے وقت خرچ کرتے ہیں۔
وہ اس متعلق بھوٹان کی مجموعی قومی خوشی اور نیوزی لینڈ کے لوگوں کی خوشی کا اندازہ لگانے والے انڈیکس کا حوالہ دیتے ہیں جو سرمایے کے بجائے شہریوں کی خوشی پر زور دیتے ہیں۔
Bored young manتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
انھیں یہ معلوم ہوا ہے کہ انڈیا کے ایک قبائلی گاؤں میں بنیادی آمدنی تین گنا بڑھنا ایک ’یکجہتی کا اثر‘ ہے۔ اس سے مراد ہے کہ ہمسایوں نے ایک دوسرے کو پیسے دینا شروع کیے تاکہ وہ قرضوں کے جال میں نہ پھنسیں، کیونکہ لوگ قرضوں پر سود کی مد میں بڑی رقم لے اڑتے ہیں۔ یا شادیوں جیسے خاص مواقع کے لئے پیسے جمع کرانے شروع کر دیتے ہیں۔
ڈیوالا کا خیال ہے کہ جس طرح سے معاشرہ وقت کو ترتیب دے رہا ہے، وہ کام اور تفریح​​ یا اجرت والے کام اور معاشرتی کام کے مابین کم سخت اور مصنوعی امتیاز کے ساتھ بدل سکتا ہے۔
ڈوالا کا کہنا ہے کہ ’مستقبل کی قیاس آرائی غیر یقینی ہونے والی ہے۔‘
یہ سوچنے کے لئے اچھا وقت ہے کہ آیا مستقبل میں دفاتر میں زیادہ وقت گزرے گا یا زیادہ وقت خرگوشوں کو پالنے میں خرچ ہوگا۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں