آپ کے شریکِ حیات کی موت تکلیف دہ ہوتی ہے لیکن دنیا میں کچھ رسومات بیواؤں کی مشکلات میں اضافہ کر دیتی ہیں، خاص طور پر جب اِن کا تعلق کھانے سے ہو۔ تاہم تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف رسومات ہی ایسے رویے کی بنیاد نہیں بنتیں بلکہ بیوگی میں غم اور شریک حیات کے بچھڑ جانے کی تکلیف سے بھی کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی آتی ہے۔
فرسودہ رسومات
چند ثقافتوں میں بیواؤں کو کھانے کے وقت ان کو ساتھ بٹھایا نہیں جاتا، انھیں غذائیت سے بھرپور کھانا کھانے سے منع کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ ان کو ایسی رسومات میں حصہ لینے پر مجبور کیا جاتا ہے جو تذلیل کا باعث اور خطرناک ہوتی ہیں۔
افریقہ کے ملک گھانا میں اکثر یہ غریب ترین بیوائیں ہوتی ہیں جو سب سے زیادہ تکلیف برداشت کرتی ہیں۔ حالانکہ ملک میں قانون سازی کے ذریعے بیوہ عورتوں کی تذلیل اور ان کے لیے کی جانے والی نوحہ خوانی کے خاتمے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن کچھ بیوہ خواتین کو جان بوجھ کر اچھی خوراک سے محروم رکھا جاتا ہے یا وہ اس سے بھی بدتر حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔
یہاں ایسی رسومات بھی ہیں جہاں بیوہ عورتوں کو ایک سوپ پینے کے لیے کہا جاتا ہے جس میں ان کے مردہ شوہر کے جسم کے کچھ حصے شامل ہوتے ہیں۔
شمالی گھانا میں بیواؤں اور یتیموں کے لیے تحریک چلانے والے ایک فلاحی ادارے کی ڈائریکٹر فاتی عبدالائی کا کہنا ہے کہ ’میت کے بال اور ناخن استعمال کیے جاتے ہیں، مردے کو غسل دلایا جاتا ہے اور اس پانی کو عورت کے پینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘
چند بیوائیں پیسے دے کر ان ذلت آمیز رسومات سے فرار کا راستہ تلاش کر لیتی ہیں لیکن غربت میں رہنے والی زیادہ تر خواتین ایسا نہیں کر پاتیں۔
شوہر کے مرنے کے بعد عام طور پر جائیداد مرد کے گھر والوں کو مل جاتی ہے جس کے وجہ سے بہت ساری خواتین اپنی زرعی زمین تک رسائی سے محروم ہو جاتی ہیں جب تک کہ وہ اپنے شوہر کے کسی رشتے دار سے شادی نہ کریں۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں کم از کم 285 ملین بیوہ خواتین ہیں اور ہر دس میں سے ایک انتہائی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ بہت سے ممالک میں بیوگی کو شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے بیوہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو وہاں انسانی حقوق کی سب سے سنگین خلاف ورزیوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔
مچھلی، گوشت اور انڈے کھانے کی ممانعت
دنیا کے چند ممالک میں معاشرے کے امیر طبقوں میں بھی بیوگی کو ایک بد نما داغ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
بنگلہ دیش کے کھانے کی تاریخ دان اور ناول نگار، چتریتا بینرجی کے مطابق صرف چند عشروں پہلے تک مغربی بنگال میں ہندو برادریوں میں اعلیٰ ذات کی بیواؤں سے اپنے شوہروں کی موت پر نوحہ خوانی اور پچھتانے کی توقع کی جاتی تھی۔
چتریتا کا کہنا ہے کہ’ انھیں مچھلی، گوشت، انڈے، پیاز، لہسن کھانے سے منع کیا جاتا تھا۔ یہی وہ چیزیں تھیں جن پر ان کی پرورش کی جاتی تھی اور پھر اچانک یہ ان سے مکمل طور پر چھین لی جاتی تھی۔‘
’اس کا بنیادی مقصد ان کو غذائیت سے محروم رکھنا ہوتا ہے گویا بیوہ کی غلطی ہے، اس نے گناہ کیا ہے، اسے توبہ کرنا چاہیے۔ اس سے کھانا چھین کر یہ حاصل کیا جاتا تھا۔‘
یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا مشاہدہ چیتریتا نے بچپن میں کیا تھا، جب ان کی اپنی نانی بیوہ ہوئی تھیں۔
وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’یہ میرے لیے ایک مکمل تبدیلی تھی۔ وہ روشن ساڑھیاں اور زیورات پہننے سے سفید پہناوے میں تبدیل ہو گئی تھی۔ انھوں نے گھر والوں کے ساتھ کھانا کھانا چھوڑ دیا تھا اور وہ سب کچھ نہیں کھا سکتیں تھیں کیونکہ اب ان میں سے کچھ خوراک انھیں منع تھی۔
’لیکن جب وہ پکاتی تھیں تو ان کے چند پکوان بہت لذیذ ہوتے تھے۔‘
اب کھانے پینے کی تاریخ پر نظر رکھنے والے مؤرخ کی حیثیت سے چیتریتا بینجرجی دیکھ سکتی ہیں کہ کس طرح ان کی دادی نے اس خوراک کا متبادل مصالحوں میں تلاش کر لیا جو انھیں منع تھی۔
چیتریتا کہتی ہیں ’وہ پیاز نہیں کھا سکتی تھی، لیکن اپنے کھانے میں اسی طرح کا ذائقے لانے کے لیے انھوں نے اس میں ہینگ کا استعمال کیا تھا۔‘
اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہم دنیا میں کہاں ہیں۔ جب ہم افسردہ ہوتے ہیں تو ہمیں ایسی غذائیت اور تسکین کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے جو اچھی خوراک مہیا کر سکتی ہے۔ لیکن ہم زیادہ تر جس شخص کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں اس کے چلے جانے کے بعد کھانے کے وقت اس کی یاد اور زیادہ آتی ہے۔ یہ احساس ہماری جسمانی اور دماغی تندرستی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
شریک حیات کے بچھڑنے کا غم
چین، یورپ اور امریکہ میں کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بوڑھے لوگوں میں وزن کم ہونا بیوگی میں کم غذا کے ساتھ وابستہ ہے۔
عملی غذائیت کی محقق الزیبتھ ویسنیور نے کینیڈا میں ایسی بیوہ خواتین کے کھانے کا گہرائی سے مطالعہ کیا جو 70 اور 80 کے پیٹے میں تھیں۔
ویسنیور کا کہنا ہے کہ ان کی دو دادیاں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھیں۔
ایک وہ جو اپنے شوہر کی وفات کے بعد دو سال کے اندر بنا کسی حقیقی بیماری کے انتقال کر گئی ماسوائے اس کے کہ انھوں نے اپنے بیمار شوہر کی خوراک سے مناسبت کے لیے اپنی خوراک کم کر لی تھی۔ جبکہ میری دوسری دادی ہیں جو کھانے کو دوا کی طرح استعمال کرتی ہیں اور یہ ان کی اپنی نگہداشت کا ایک بڑا حصہ ہے۔‘
شریکِ حیات کی موت کا اثر
ویسنیور کو معلوم ہوا کہ بیواؤں اور رنڈووں دونوں میں پہلے دو برسوں میں موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ان کے جیون ساتھی کی موت کا اثر ہے، اور انھیں ہمیشہ سے یقین ہے کہ اِس میں کھانے کا اہم کردار ہے۔
ویسنیور کہتی ہیں کہ ’یقینی طور پر تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیوگی میں غذا اور غذائیت میں تبدیلی آتی ہے۔ ہم نے کم خوراکی، غیر ارادی طور پر وزن میں کمی اور کم لطف کا مشاہدہ کیا ہے اور بوڑھے مرد کبھی بھی اپنے لیے کھانا پکانا نہیں سیکھتے ہیں۔‘
تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف کھانے پکانے کی مہارت رکھنے کی بات نہیں ہے۔
’دلچسپ بات یہ ہے کہ خواتین میں سے بھی بہت ساری انھیں منفی اثرات کا شکار ہوتی ہیں حالانکہ انھوں نے کئی دہائیوں تک سب کو کھانا کھلایا ہوتا ہے۔‘
ایک خاتون نے محققین کو بتایا کہ جب ان کے شوہر کی موت ہوئی تو ان کے پاس بستر سے نکلنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ وہ کبھی کبھی گیارہ بجے یا سہ پہر تین بجے تک بستر میں پڑی رہتیں اور ان کے کھانے کے اوقات بھی بے ربط ہو گئے تھے۔
ویسنیور نے مشاہدہ کیا کہ یہ وہ خواتین تھیں جو بیوہ ہونے سے پہلے کھانا پکانے میں سب سے زیادہ لطف اندوز ہوتی تھیں۔ لیکن جنھیں بیوہ ہونے کے بعد کھانا تیار کرنا مشکل لگتا تھا۔ جبکہ وہ خواتین جو اپنے خاندان والوں کے لیے کھانا نہیں پکاتی تھیں ان کے لیے شوہر کی موت کے بعد اپنے آپ کو سنبھالنے میں آسانی ہوئی۔
اور کچھ مرد نئی صلاحیتیں سیکھتے ہیں
ایک فری لانس صحافی اور براڈکاسٹر مائیکل فریڈ لینڈ کی اپنی اہلیہ سارہ سے 52 برس پہلے شادی ہوئی تھی۔
جب چھ برس پہلے ان کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو ان کے لیے بھی کھانا کھانا مشکل ہو گیا۔
فریڈ لینڈ یاد کرتے ہیں کہ’گھر میں کھانے میں ذرا بھی خوشی نہیں تھی۔‘ بیوہ ہونے کے بعد ان کا وزن کم ہو گیا اور اسے واپس لانے میں انھیں جدوجہد کرنا پڑی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے واقعی اس وقت بہت کم کھایا تھا، لیکن میں انڈہ بنانے میں ایک ماہر بن گیا۔‘
فریڈ لینڈ کے دوست اور گھر والے ان کے دکھ میں شریک تھے اور انھیں کھانے کے لیے مدعو کرتے تھے۔
فریڈ لینڈ کہتے ہیں کہ ’میں نے رات کے کھانے کی دعوتوں کے بارے میں ہمیشہ شرمندگی محسوس کی، مجھے یہ خیرات کی طرح محسوس ہوتے تھے۔‘
’میرے نزدیک یہ ایسا تھا کہ آپ نے کسی سے کتاب ادھار لی ہے اور آپ کو یہ واپس کرنی ہے میں سوچتا تھا کہ مجھے بھی لوگوں کو رات کے کھانے پر مدعو کرنا چاہیے۔‘
آخر کار ان کے بچوں نے انھیں 80 برس کی عمر میں کھانا پکانے کی کلاسز لینے پر آمادہ کیا۔
بھلا ہو ان کوکنگ کلاسز کا جس کی بدولت فریڈ لینڈ نے انڈہ پکانے سے سالمن مچھلی کے سٹیک بنانے، اسے تلنے اور ایپل ٹارٹ بنانا سیکھا۔ ان کے خاندان والوں نے بھی انھیں ان کے پسندیدہ کھانوں کی تراکیب بتائی تھیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ کافی دلچسپ تجربہ تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ اس نے واقعی میری زندگی بدل دی۔‘
اس انٹرویو کے کچھ عرصے بعد مائیکل فریڈ لینڈ کا انتقال ہو گیا۔
تو ہم ان لوگوں کی مدد کیسے کرسکتے ہیں جن کے شریکِ حیات مر چکے ہیں؟
واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک مصنف اور سابق پیسٹری شیف لیزا کولب کے پاس کچھ تجاویز ہیں۔ اس نے اپنے شوہر ایرک کو 19 ماہ کی شادی میں پہاڑ پر چلنے والے حادثے میں کھو دیا۔ اس وقت وہ دونوں صرف 34 برس کے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ جب آپ اپنے شریک حیات کے ساتھ اکٹھے کھانا پکاتے ہیں، اکٹھے کھاتے ہیں، ایک ساتھ رات کے کھانے پر جاتے ہیں اور جب آپ یہ سب کھو دیتے ہیں تو یہ تنہائی کی ایک ایسی شکل ہے جس میں خالی باورچی خانے اور خالی میز کو دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘
’اگرچہ اپنے ساتھ کھانا لانا ضروری ہے، لیکن لوگوں کا ساتھ زیادہ بہتر ہے۔ میرے خیال میں لوگ یہ سوچتے ہیں کہ کوئی صرف ایک اسٹر فرائی کے لیے کیوں آئے گا؟ لیکن بات صرف کھانے کی نہیں ہے بلکہ یہ ایک موقع ہے لوگوں کے درمیان ہونے کا اور اِس احساس کا کہ کوئی آپ کا خیال رکھتا ہے`
لہذا اگر آپ نہیں جانتے کہ کسی غمزدہ کی دل جوئی کیسے کی جائے تو ایک سادہ اور چھوٹا سا کام یعنی اس کے لیے کھانا پکانا یا اسے کھانے پر مدعو کرنا ایک بہت بڑا کام بھی ہو سکتا ہے۔
یہ انٹرویو بی بی سی ورلڈ سروس پر ’دا فوڈ چین` Widowed: Food after loss کی ایک ایوارڈ یافتہ قسط میں نشر کیے گئے تھے۔