ڈاکٹر مجاہد مرزا
اردو میں ایک لفظ ہے ”جنس“ جس کا تعلق اعضائے تناسل کے ساتھ جوڑا جاتا ہے جس سے ہم طے کر دیتے ہیں کہ کون انسان مادہ ہے اور کون نر۔ اس لفظ جنس کو انگریزی میں Sex لکھا جاتا ہے مگر انگریزی میں ایک اور لفظ Gender بھی ہے جس کا اردو ترجمہ نہیں کیا گیا ویسے بھی یہ لفظ کوئی اتنا پرانا نہیں ہے۔ اس کا ترجمہ عرفان ذات کی طرح ”عرفان جنس“ کیا جا سکتا ہے۔
ہمیں بچپن سے بتا دیا جاتا ہے کہ تم لڑکی ہو اور تم لڑکا۔ لڑکیوں اور لڑکوں کے کپڑے مختلف ہوتے ہیں، بال رکھنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ بہت سے کھیل مختلف ہوتے ہیں۔ ان دونوں کے ساتھ ماں باپ، بہن بھائی، رشتہ دار، اساتذہ بلکہ معاشرے تک کا رویہ مختلف ہوتا ہے۔ ہم میں سے اکثریت خود کو اسی طرح لیتی ہے۔ جوان ہوتی ہے۔ لڑکیاں جوان ہو کے شرماتی لجاتی اور بناؤ سنگار کرتی ہیں، اس کے برعکس لڑکے جوان ہو کر خود کو اس لیے بناتے سنوارتے ہیں تاکہ لڑکیوں پر ڈورے ڈالنے کی کوشش میں کامیاب ہوں۔
اب ایک اور انگریزی کا لفظ لیتے ہیں جسے Euphoria لکھا جاتا ہے اس کا ترجمہ ”انتہائی خوشی“ ہوگا اس کے برعکس ایک لفظ ہے Dysphoria یعنی انتہائی ناخوشی۔ تو کچھ بچے بچپن سے ہی وہ کپڑے پہنتے ہوئے روتے ہیں یا انکاری ہوتے ہیں جو انہیں لڑکے یا لڑکی کے طور پر پہنائے جاتے ہوں۔ وہ ویسے کھیل نہیں کھیلنا چاہتے جو ان کی طے کردہ جنس کے مطابق کھیلنے والے ہوں جیسے بچی گڑیوں سے نہیں کھیلنا چاہے گی اور بچہ کھلونا ہتھیاروں سے کھیلنے سے انکاری ہوگا۔
بچہ گڑیوں سے کھیلنا چاہے گا اور بچی کھلونا ہتھیاروں سے کھیل کر خوش ہوگی۔ ایسے بچوں کو والدین یا اساتذہ یہ کہہ کر ڈانٹیں گے ”تم لڑکا ہو کیا؟ “ یا ”تم لڑکی ہو کیا؟ “ بچوں کو لڑکا یا لڑکی ہونے کا وجدان نہیں ہوتا مگر ”عرفان جنس“ بارے وجدان ہو جاتا ہے اگرچہ وہ چھوٹی عمر میں اس کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے۔
مگر عنفوان شباب میں قدم رکھتے ہی کچھ لڑکیوں اور لڑکوں کو Gender dysphoria ہونے لگ جاتا ہے یعنی لڑکی اپنے سینے میں ہونے والی تبدیلی سے پریشان ہوگی اور لڑکا داڑھی مونچھ آنے اور عضو کے بڑھنے سے دل برداشتہ ہوگا۔ وجہ وہی انتہائی ناخوشی ہوتی ہے یعنی Gender dysphoria۔ ایسے لوگ کسی بھی معاشرے میں کچھ کم نہیں ہوتے۔ ایک تحقیق کے مطابق، جس میں 15000 افراد کو زیر تحقیق لایا گیا ”برعکس عرفان ذات“ یعنی Trans۔ Gender افراد کی شرح 1 % ہے یعنی ایک کروڑ افراد میں ایک لاکھ، یوں پاکستان میں ایسے لوگوں کی تعداد 2200000 سے 250000 ہو سکتی ہے۔
جنہیں ہمارے ہاں خواجہ سرا یا زنخا کہا جاتا ہے، وہ لوگ ایسے لوگوں میں شامل نہیں کیونکہ زنخا صرف ایسا مکمل مرد ہو گا جسے عورتوں کے کپڑے، زیور پہننے اور عشوے غمزے دکھانے کا شوق ہو اور خواجہ سرا ایسے لوگ ہو سکتے ہیں جن میں اعضائے تناسل نامکمل یا ناقص ہوں مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ برعکس عرفان ذات والے کچھ مرد بھی پاکستان کے ماحول کے مطابق خواجہ سراؤں میں شامل ہو جاتے ہوں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ایسی نفسیات کے حامل لوگوں کے لیے طب اور نفسیات کے باقاعدہ علیحدہ شعبہ جات ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ 99 % لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کی اس برعکس نفسیات کو سمجھنے والے لوگ معدودے چند ہی ہو سکتے ہیں۔ ایسے لوگ خود بھی اپنے Gender dysphoria کے سبب شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ مایوسی، بددلی، تلملاہٹ، اضطراب، کس سے کہیں، کہیں تو کیا کہیں؟ کوئی ان کی سنے گا بھی یا نہیں؟
وہ ماں باپ کیا کہیں گے جنہوں نے انہوں بطور لڑکی یا بطور لڑکا پالا۔ وہ جوان ہو جاتے ہیں، ان کے ابدان ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے کسی جوان لڑکی یا لڑکے کے۔ وہ دیکھنے میں خوبصورت لڑکیاں یا کڑیل جوانمرد لگیں گے مگر وہ جانتے ہیں کہ انہیں اس بات کا شدید احساس ہے جیسے ان کی روح کسی اور کے بدن میں قید ہو۔ ایسے لوگ انتہائی مایوسی کے عالم میں اقدام خود کشی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایک بار نہیں بلکہ بار بار۔ وہ جانتے ہیں کہ معاملہ اعضائے تناسل کا نہیں ذہنی اپچ کا ہے۔ ذہنی اپچ وہ مرض ہے جس کو نہ تو کوئی ڈاکٹر ادویہ سے تبدیل کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ماہر نفسیات اس کو الٹ سکتا ہے۔
آپ سوچیے کہ ایک روز آپ کی جوان بیٹی یا بہن اعلان کر دے کہ وہ مزید لڑکی نہیں رہنا چاہتی یا آپ کا جوان بیٹا یا بھائی میک اپ کرکے خواتین کا لباس زیب تن کرکے آپ کے سامنے آئے اور پوچھے ”میں آپ کو کیسی لگ رہی ہوں“ تو آپ کا کیا حال ہوگا؟ لڑکی کے اعلان کی صورت میں آپ سرپکڑ کر رہ جائیں گے اور پریشان ہوں گے کہ کسی کو معلوم نہ ہو کیونکہ لوگ کیا کہیں گے۔ لڑکے کے اس طرح سامنے آنے پر آپ یا تو مذاق سمجھیں گے یا اس کی ٹھکائی کر دیں گے۔ لیکن اگر لڑکی یا لڑکا اپنے رویے پر نہ صرف بضد ہوں بلکہ آپ کو قائل بھی کریں تو آپ کا پریشان ہونا ہی درست ہو گا۔
ایسے میں دو ردعمل ہو سکتے ہیں یا تو آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں اور انہیں گھر سے نکال دیں یا پھر آپ ان کی پریشانی کو سمجھتے ہوئے ماہرین سے رجوع کریں اور اگر ماہرین طے کر دیں کہ وہ Trans۔ Gender ہیں تو ان کی اس سلسلے میں مدد کیجیے۔
یورپ میں ایسے بہت سے مرد ہیں جو پہلے لڑکیاں ہوا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک خاتون کو ایک مرد بھا گیا۔ وہ ڈیٹنگ کرنے لگے۔ ان میں آپس کا پیار بڑھ گیا۔ مرد نے اپنی دوست سے جھوٹ نہیں بولا اور اسے بتا دیا کہ وہ لڑکی سے تبدیل ہو کر بنا ہوا مرد ہے۔ نوجوان خاتون نے کہا کوئی بات نہیں۔ مرد نے تبدیلی جنس کے عمل سے گزرنے سے پہلے اپنے ”بیضے“ محفوظ کروا دیے تھے۔ ان بیضوں کو ڈونر کے سپرم سے بارآور کروا کے لڑکی کے رحم میں رکھوایا گیا اور یوں دونوں نے بچوں کی پیدائش میں کردار ادا کیا۔ اب وہ چار بچوں کے خوش باش والدین ہیں۔
تبدیلی جنس کا عمل نہ آسان ہوتا ہے نہ سستا۔ خاص طور پر خاتون سے مرد بننے والے فرد کو ادویہ کے علاوہ کئی تکلیف دہ آپریشنوں سے گزرنا پڑتا ہے جن میں چھاتیوں کا ہٹایا جانا، رحم اور بیضہ دانی نکالا جانا، بول کے لیے عضو کی پلاسٹک سرجری وغیرہ۔ اس کے بعد قانونی طور پر خود کو نئے سرے سے مرد یا عورت تسلیم کرائے جانا بھی ایک جاں گسل عمل ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں تو کیا امریکہ جیسے ملک کی کئی ریاستوں میں اس سے متعلق باسہولت قوانین موجود نہیں۔
بہر طور اگر کسی کو ایسی صورت حالات سے سامنا کرنا پڑے تو گھبرانا نہیں چاہیے اگرچہ خاص ماحول میں اور خاص طور ان لوگوں کے لیے جو ”لوگ کیا کہیں گے“ سے بہت گھبراتے یا ڈرتے ہیں، اس معاملے میں گھبرانا کچھ فطری سا ہے مگر آپ اپنے بچے یا بچی کو تنہا بھی نہ چھوڑیں نا، بالخصوص اگر آپ تعلیم یافتہ والدین یا بہن بھائی ہیں تو۔