آج بھارتی سپریم کورٹ نے اپنا 2013 کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے ہم جنس پرستی کو جرائم کی فہرست سے نکال دیا ہے اور کہا ہے کہ ”جنسی رجحان کی بنیاد پر کسی قسم کا تعصب برتنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے“۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے اور نا انصافی سے بچنے اور تفاوت سے جان چھڑانے کے لئے اس کی عملی تفہیم کی جانی ہو گی۔ سماجی اخلاقیات کو بنیاد بنا کر کسی ایک بھی فرد کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی ہے۔
برطانوی راج کے دور کے سیکشن 377 کے تحت ہم جنسی پرستی کو ”غیر فطری“ قرار دے کر اس پر دس سال قید کی سزا دی جاتی تھی۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے بھارت کے ہم جنس پرستوں کی طرف سے پیٹیشن دائر کرنے والے اشوک کوی نے کہا کہ ”اب ہم سیکشن 377 کو ختم کیے جانے کے بعد برابر کے شہری بن گئے ہیں۔ اس کے بعد ہمیں اب یکساں حقوق حاصل ہو گئے۔ “
اشوک کوی نے کورٹ کے سامنے ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں بتایا گیا سروے میں شامل بیس فیصد افراد نے اپنے جنسی رجحان کو واضح کیا تھا جبکہ پانچ میں سے دو ہم جنس افراد کو 2013 میں سپریم کورٹ کی جانب سے ہم جنس پرستی کو جرم قرار دینے کے بعد بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
چین نے ہم جنس پرستی کو 1997 میں جرائم کی فہرست سے خارج کر دیا تھا۔ انڈیا کی سپریم کورٹ کے اس فیصلے بے بعد ایشیائی باشندوں کی اکثریت کے لئے ہم جنس پرستی ایک جرم نہیں رہی۔
جنیوا کی تنظیم عالمی لیزبین، بائی سیکشوئل، ٹرانس اینڈ انٹر سیکس ایسوسی ایشن کی کوآرڈینیٹر برائے ایشیا لوان وو نے کہا کہ ”یہ بلاشبہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور ابھرتی ہوئی طاقت انڈیا کے لئے ایک تاریخی لمحہ ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے۔ اس کے ہمسائے دیکھ رہے ہیں۔ سری لنکا، پاکستان اور بنگلہ دیش کی ہم جنس پرست کمیونیٹریز اس برطانوی راج کے قانون کو اپنے اپنے ملک میں ختم کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہیں اور انڈیا کی اس رولنگ کے بعد مزید بات چیت ہو گی“۔
انڈیا میں ہم جنس پرستوں کے خلاف مار پیٹ، جنسی حملے، بلیک میلنگ، بدمعاشی اور استحصال کے واقعات عام ہیں۔ یہ رویے اختیار کرنے والوں میں گھر والے، عوام اور پولیس شامل ہوتے ہیں۔