میاں یا بیوی کی خفیہ نگرانی: ’سٹاک ویئر‘ ایسا سافٹ ویئر ہے جو آپ کے ساتھی کی خفیہ نگرانی کر سکتا ہے


خفیہ نگرانی

Getty Images

ایمی کہتی ہیں کہ یہ معاملہ شروع اس وقت ہوا جب انہیں محسوس ہوا کہ ان کے شوہر کو ان کے دوستوں کے خفیہ معاملات کے بارے میں پتہ چل جاتا ہے۔

’وہ باتوں باتوں میں کوئی ایسا فقرہ کہہ دیتے، مثلاً میری دوست سارہ کے بچے کے بارے میں کوئی فقرہ۔ ایسی نجی باتیں جو میرے شوہر کو معلوم نہیں ہونی چاہئیں۔

’اگر میں پوچتھی کہ انھیں ان باتوں کا کیسے پتہ چلا، تو مجھے کہتے کہ تم نے خود بتایا تھا اور پھر مجھے ہی الزام دیتے کہ تمہاری عقل جواب دیتی جا رہی ہے۔‘

ایمی (اصلی نام نہیں) کو یہ بات بھی حیران کرنے لگی کہ ان کے شوہر کو پل پل کا معلوم ہوتا ہے کہ آج وہ کہاں تھیں، کس سے ملیں۔

’کبھی وہ کہتے کہ وہ اتفاقاً کہیں سے گزر رہے تھے اور انھوں نے مجھے کیفے میں دوستوں کے ساتھ بیٹھے دیکھا تھا۔ میں ہر چیز کے بارے میں سوچنے لگی اور کسی شخص پر بھی اعتبار کرنا چھوڑ دیا، حتیٰ کہ اپنی سہیلیوں پر بھی‘۔

کئی ماہ تک اسی قسم کے واقعات ہوتے رہے اور ہماری شادی جو پہلے بدسلوکی کی مثال تھی، اب وہ ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہونے لگی، اور پھر جب ہم پورا خاندان ہیلووین کی چھٹیوں میں سیر سے واپس آئے تو ہمارا رشتہ ختم ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیے

ہم سب کی جیب میں ایک جاسوس ہے؟

بلو ٹوتھ آن رکھا تو معلومات چوری ہو سکتی ہیں

’ہم ایک زرعی فارم پر بڑے عرصے بعد ایک اچھا وِیک اینڈ گزار رہے تھے۔ میرے شوہر مجھ سے کوئی بھی بات اگلوانے میں کامیاب نہیں ہو رہے تھے۔ ہمارا چھ سالہ بچہ فرش پر کھیل رہا تھا اور وہ بہت خوش تھا۔

’اس فارم پر لی ہوئی ایک تصویر دکھانے کے لیے میرے شوہر نے اپنا فون مجھے تھمایا، اور ابھی میں بمشکل تصویر دیکھ ہی رہی تھی کہ ایک سیکنڈ میں فون پر الرٹ دکھائی دیا۔ اس پر لکھا تھا ’ایمی کے (ایپل) کمپیوٹر پر سرگرمیوں کی آج کی رپورٹ تیار ہے‘۔

’میں نے محسوس کیا کہ جیسے ایک سرد لہر میرے پورے جسم میں دوڑ گئی ہو اور ایک منٹ کے لیے میری سانس بند ہو گئی۔ میں نے باتھ روم کا بہانہ کیا اور معذرت کر کے وہاں سے اٹھ گئی۔ مجھے اپنے بیٹے کے لیے فارم پر رہنا تھا اور میں نے شوہر کے سامنے ایسے ظاہر کیا جیسے میں نے کچھ نہیں دیکھا تھا۔‘

مجھے جیسے ہی پہلا موقع ملا، میں سیدھا لائبریری پہنچ گئی اور کتابوں میں تلاش کرنا شروع کر دیا کہ میرے شوہر نے کون سا سپائی ویئر استعمال کیا تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے محسوس ہوا کہ پچھلے کچھ ماہ سے جو کچھ ہو رہا تھا وہ میں پاگل نہیں تھی، اور مجھے سب کچھ سمجھ آ گیا۔‘

سٹاک وئیر (کسی کا پیچھا کرنے کے لیے ایک سافٹ ویئر)، جسے سپاؤز ویئر (شوہر، بیوی پر نظر رکنے والا سافٹ ویئر) بھی کہتے ہیں، اصل میں ایک طاقتور سافٹ ویئر ہے جو انٹرنیٹ پر اکثر کھلے عام فروخت ہو رہا ہوتا ہے۔

آپ اس سافٹ ویئر کی مدد سے اپنی کسی بھی ایپ (فون، کمپیوٹر،ٹیبلٹ وغیرہ) پر کسی دوسرے شخص کے فون پر آنے والے تمام پیغامات، دوسرا شخض سکرین پر کیا کچھ دیکھتا رہا، وہ کہاں کہاں گیا، آپ سب کچھ معلوم کر لیتے ہیں اور یوں اس شخص کی حرکات و سکنات پر چھپ کر نظر رکھ سکتے ہیں۔

Sidestep stalkerware. Tips to avoid being victimised:  [ Don’t leave device unattended – most software requires physical access ],[ Ditch fingerprint lock - a partner can use your print while you sleep ],[ Add security app - antivirus software can also detect spyware and remove it ], Source: Source: BBC, Image: Woman on phone

سائبر سکیورٹی کی معروف کمپنی، کیسپرسکائی، کے مطابق گذشتہ ایک سال کے دوران ایسے افراد کی تعداد میں کم از کم 35 فیصد اضافہ ہو چکا ہے جن کو معلوم ہوا کہ ان کی ڈیوائس پر اس قسم کا کوئی سافٹ ویئر لگا ہوا ہے۔

کمپنی کی ریسرچ ٹیم کہتی ہے کہ لوگوں کے کمپیوٹرز وغیرہ پر لگے ہوئے حفاظتی سافٹ وئیر کی مدد سے اس برس کے دوران وہ اب تک سراغ رسانی کرنے والے 37,532 سافٹ ویئر پکڑ چکے ہیں۔

کمپنی کی اس ٹیم کے سربراہ ڈیوڈ ایم کے بقول اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ’اکثر لوگ عوماً اپنے لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ پر حفاظتی سافٹ وئیر لگاتے ہیں، اور ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے جو اپنے موبائل فونز کو محفوظ بناتے ہیں۔‘

ڈیوڈ ایم کا مزید کہنا تھا کہ یہ معلومات ہمیں ان فونز سے بھی مل رہی ہیں جن پر ہماری حفاظتی مصنوعات لگی ہوئی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ( 37,532) تعداد کل تعداد کے قریب بھی نہیں ہے۔

کیسپرسکائی کے مطابق ان کی تحقیق بتاتی ہے کہ دنیا میں سپائی ویئرز کا سب سے زیادہ استعمال روس میں ہو رہا ہے۔

اگر آپ انڈیا، برازیل، امریکہ اور جرمنی کو بھی شامل کر لیں تو، روس سمیت یہ پانچ ممالک ایسے ہیں جہاں دنیا میں سب سے زیادہ سپائی ویئرز استعمال ہو رہے ہیں۔ برطانیہ 8ویں نمبر پر ہے اور وہاں ایسے 730 کیسز سامنے آئے ہیں۔

ایک دوسری سکیورٹی کمپنی کا کہنا تھا کہ اگر لوگوں کو شک ہو کہ پہلے سے ہی ان کی نگرانی کی جا رہی ہے تو وہ اس سے بچنے کے لیے عملی اقدامات کر سکتے ہیں۔

ای سیٹ نام کمپنی سے منسلک جیک مُور کا کہنا تھا کہ ’اسی لیے آپ کو ہمیشہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ دیکھیں کہ آپ کے فون پر کون کون سی ایپس موجود ہیں، اور پھر ضرورت پڑنے پر فون کا وائرس سکین بھی کریں۔ اور اگر آپ کے فون پر کوئی ایسی ایپس موجود ہیں جنہیں آپ نہیں پہچانتے تو بہتر یہی ہے کہ آپ آن لائن جا کر ان ایپس کے بارے میں لوگوں کی رائے پڑھیں اور ضرورت پڑے تو انہیں اپنے فون سے ختم یا ڈلیٹ کر دیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ایک عام اصول یہ ہے کہ اگر آپ کوئی ایپ استعمال نہیں کرتے تو اسے ڈلیٹ کر دیں۔‘

جب ایمی کو احساس ہو گیا کہ ان کے کمپیوٹر پر کچھ انسٹال کیا جا چکا ہے تو ٹیکنالوجی پر ان کا اعتبار بری طرح متاثر ہوا۔ وہ ابھی تک اس بے اعتباری پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

عوامی بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس قسم کے دھچکے کے بعد اکثر لوگوں کا رد عمل ایمی جیسا ہی ہوتا ہے۔

سٹاک ویئر کا نشانہ بننے والی ایک دوسری خاتون جسیکا ہیں۔ ان کا شوہر مسلسل جسیکا کے فون کے مائیکروفون کے ذریعے ان کی نگرانی کرتا اور بار بار کوئی ایسا خاص فقرہ دھراتا جو اصل میں جسیکا نے اپنی کسی دوست کے ساتھ پرائیویٹ گفتگو میں استعمال کیا ہوتا تھا۔

انہیں اپنے شوہر سے الگ ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں لیکن وہ آج بھی جب دوستوں سے ملنے جاتی ہیں تو اپنا فون لاک کر کے گاڑی میں چھوڑ جاتی ہیں۔

ایک پریشان خاتون

Getty Images
سٹاک ویئر کو عموماً متاثرہ شخص کی آمد و رفت پر نظر رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے (فائل فوٹو)

سیف پلیسِز یا محفوظ مقامات نامی تنظیم سے منسلک جیما ٹوئنٹن کہتی ہیں کہ ان کے پاس اس قسم کے بہت سے معاملات آتے ہیں جن میں متاثرہ شخص پر دورس ذہنی اثرات نظر آتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر آپ کی یوں خفیہ نگرانی کی جاتی ہے تو ’آپ کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنا فون یا کمپیوٹر ایک ہتھیار دکھائی دیتا ہے کیونکہ ان چیزوں کو ان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جا چکا ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں ’ایسے لوگوں کے لیے ٹیکنالوجی ایک ایسا جال بن چکی ہے جس نے ان کے دماغ کو پکڑ لیا ہوتا ہے، اور بہت سے لوگ ٹیکنالوجی کے استعمال سے واقعی دور ہو جاتے ہیں۔‘

جیما ٹوئنٹن کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سے واقعی آپ کی ساری زندگی پر برے اثرات پڑ جاتے ہیں۔ یہ بڑی فکرمندی کی بات ہے کہ سٹاک ویئرز کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔‘

ایمی کا تعلق امریکہ سے ہے اور وہ اب طلاق کے بعد اپنے سابق شوہر سے کئی میل دور رہائش پزیر ہیں۔

انھوں نے اپنے سابق شوہر کے خلاف عدالت سے حکم نامہ لے رکھا ہے جس کے تحت وہ ایمی سے براہ راست رابطہ نہیں کر سکتے اور اپنے بیٹے کی ضرویات کے بارے میں وہ صرف خط کے ذریعے بات کر سکتے ہیں۔


میں نے خود بھی یہ ٹیسٹ کیا

انگلیوں کے نشان

Getty Images
اکثر افراد ایسے سافٹ ویئر انسٹال کرنے کے لیے متاثرہ شخص کی انگلیوں کے نشان ہی استعمال کرتے ہیں

اس کہانی کی تیاری میں میں نے خود بھی تین ماہ کے لیے سراغرسانی کے لیے عام طور پر استعمال کی جانے والی ایک چیز استعمال کی جس پر میرے 140 پاؤنڈ خرچ ہوئے۔

میں نے یہ آن لائن خریدی اور اسے اپنے دفتر کے فون پر انسٹال کر لیا۔ اس پر میرا صرف ایک گھنٹہ صرف ہوا اور میں نے کسی مسئلے کی صورت میں کپمنی سے آن لائن رہنمائی اور مدد کی سہولت بھی خرید لی۔ اس کے تحت دن یا رات کسی بھی وقت کمپنی سے رابطہ کیا جا سکتا تھا۔

سپائی ویئر فروخت کرنے والی کمپنیاں اپنی مصنوعات ’ملازمین کی نگرانی‘ یا ’بچوں پر نظر رکھنے‘ والے سافٹ ویئر کے نام پر فروخت کرتی ہیں۔

برطانیہ سمیت، بہت سے ممالک میں اپنے شوہر، بیوی یا پارٹنر کی اجازت کے بغیر سپائی ویئر استعمال کرنا غیر قانونی ہے، اسی لیے بہت سی کمپنیوں کی ویب سائٹس پر آپ کو ایسے اعلانات کی بھرمار نظر آتی ہے کہ ہم فلاں فلاں چیز کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔

لیکن ان ہی میں سے کچھ ویب سائٹس ایسی ہیں جن پر ایسے مضامین کے لِنک دیے ہوتے ہیں جو بظاہر ماہرین نے لکھے ہوتے ہیں اور ان میں لکھا ہوتا ہے کہ اگر آپ کا ’شوہر یا بیوی آپ کی پیٹھ پیچھے کچھ کر رہے ہیں، تو اس کے لیے بھی آپ یہ سپائی ویئر استعمال کر سکتے ہیں۔‘

میں جس کمپنی کی چیز استعمال کر رہا تھا، ان کی آن لائن چیٹ میں میں نے یہ سوال صاف الفاظ میں پوچھا کہ ’میں یہ سافٹ ویئر اپنی بیوی کے فون میں لگانا چاہتا ہوں، کیا یہ چیز خفیہ رہے گی۔‘

کمپنی کے نمائندے کا جواب تھا ’یہ ایپ انسٹال کیے جانے کے بعد فوراً اپنا خفیہ کام شروع کر دے گی اور اگر آپ کو کوئی مسئلہ ہوا تو مجھے آپ کی مدد کر کے خوشی ہو گی۔‘

اس کے علاوہ، میں نے فون پر سائبر سکیورٹی کی پانچ بہترین ایپس بھی ڈاؤن لوڈ کیں، اور پھر انہیں باری باری چلا کر دیکھا۔ ہر ایک ایپ نے مجھے الرٹ کر دیا کہ آپ کے فون میں کوئی ایسا سافٹ ویئر موجود ہے ’جو ممکنہ طور پر نقصاندہ‘ ہو سکتا ہے۔


برطانیہ کے جرائم کی تفتیش کرنے والے ادارے ’کراؤن پراسیکیوشن سروس‘ کا کہنا ہے کہ سٹاک ویئر کے استعمال کے خلاف کوئی باقاعدہ قوانین موجود نہیں، تاہم اس نوعیت کی کسی بھی مجرمانہ کارروائی کے خلاف دیگر قوانین کے تحت مقدمات درج کرائے جا سکتے ہیں، مثلا حراس کرنے کے حلاف سنہ 1997 کا قانون۔

تاہم ایمی کہتی ہیں کہ سپائی ویئر جیسی ٹیکنالوجی کے استعمال کے خلاف مزید قانون سازی کی ضرورت ہے۔

’ان کمپنیوں کو ایسی باتوں کے پیچھے چھپنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ ’ہم اپنی مصنوعات کے غلط استعمال کے ذمہ دار نہیں ہیں‘۔

یہاں تک کہ جب یہ کمپنیاں آپ کو اعلانِ دست برداری کا خط بھیجتی ہیں تو اس پر بھی تصویر میں ایک چہرہ آپ کو آنکھ مار کے کہہ رہا ہوتا ہے: ’ہمیں یہ پسند نہیں ہے کہ آپ اپنی بیوی کی خفیہ نگرانی کریں‘۔

اس کا مطلب ہے کہ کمپنیاں جانتی ہیں کہ لوگ ان کے سپائی ویئرز کس کام کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔