جواں سال لڑکیوں میں بڑھتے ہوئے خودکشیوں کے رحجان سے عوام میں تشویش
چترال(خصوصی رپورٹ) چترال کے بالائی علاقے ملکہو میں جماعت نہم کی ایک طالبہ نے خود اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔تھانہ ملکہو پولیس کے مطابق مسما فصیحہ بی بی دختر رستم خان سکنہ گوہ کیر اپنی بہن کے گھر موردیر گا ئوں گئی تھی جہاں اس نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر بارہ بور چھرے دار بندوق سے خود پر گولی چلا کر خودکشی کرلی، پولیس اس سلسلے میں تفتیش کررہی ہے، فصیحہ کی لاش پوسٹ مارٹم کیلئے تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال لائی گئی تھی جسے بعد میں ورثا کے حوالہ کر دیا گیا۔قبل ازیں یکم اکتوبر کو جونالی کوچ میں ایک جواں سال لڑکی نے دریائے چترال میں چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی تھی۔
بونی پولیس کے مطابق رشیدہ بی بی دختر سید بادشاہ نے دریائے چترال میں چھلانگ لگاکر زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ اس کی لاش دریا سے برآمد کرکے بونی ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے بعد سپرد خاک کی گئی۔ اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے ماسٹرز کی دو ڈگریاں لی تھیں مگر کچھ دماغی بیماری میں مبتلا تھی۔اس سے قبل آیون گاں میں 15 ستمبر کو ایک جواں سال لڑکی اور آٹھویں جماعت کی طالبہ نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی تھی۔ایون پولیس کے مطابق مسما نرگس بی بی دختر صفدر علی شاہ نے معمولی تکرار پر گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کرلی تھی۔18ستمبر کو ایک اور جواں سال لڑکی کی اچانک موت یا خودکشی پولیس کیلئے معمہ بن گئی تھی۔ پولیس کے مطابق فرحین بی بی دختر انور خان ساکن مزید خیل ضلع کوہاٹ، جو ان دنوں کورو آیون میں مقیم تھی، کی اچانک موت کو اس کی والدہ طبعی موت قرا ر دے رہی ہیں مگر پولیس نے مزید تفتیش کیلئے اس کے پوسٹ مارٹم پر زو ر دیا۔اس کی والدہ کا کہنا ہے کہ فرحین بی بی نے کپڑے استری کیے اور صحن میں آنے کے بعد بے ہوش ہوگئی جسے فوری طور پر ہسپتال لے جانے کی کوشش کی گئی مگر اس دوران اس کی موت واقع ہوئی۔
تاہم ذرائع نے بتایا کہ فرحین کے گلے اور چہرے پر زخم کے نشانات بھی دکھائی دے رہے تھے۔چترال کی خواتین خاص کر جواں سال لڑکیوں میں بڑھتے ہوئے خودکشیوں کے رحجان سے عوام میں کافی تشویش پائی جاتی ہے، پچھلے سال ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت نے معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر خالد مفتی کو فری میڈیکل کیمپ کیلئے چترال بلایا تھا جنہو ں نے ٹائون ہال چترال میں صرف ایک دن مریضوں کا معائنہ کیا مگر زیادہ تر لوگوں کو ان کی آمد کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں جس کی وجہ سے دور دراز کے مریض ان کی خدمات سے محروم رہ گئے