روخان یوسف زئی
دو کردار ایک کہانی اور اسی طرح کی ہزار داستانیں، جو بکھری پڑی ہیں ہر سو، چیخ چیخ کر ہمارا ضمیر جھنجھوڑ رہی ہیں ہمارے ضمیر کے بند دروازوں پر دستک دے رہی ہیں ہم سے رو رو کر بھیک مانگ رہی ہیں لیکن ہم جو ضمیر کے قیدی ہیں جنہوں نے اپنے دل و دماغ کو مقفل کر ڈالا ہے سنتے کانوں بہرے بنے بیٹھے ہیں، کھلی آنکھوں سے بھی کچھ نہیں دیکھتے ہیں، ہمیں نہ کچھ سنائی دیتا ہے نہ کچھ دکھائی دیتا ہے ہم خود کو اشرف المخلوقات کہتے ہیں مگر مخلوقات بھی ہمیں دیکھ کر شرم سار ہوتی ہوں گی، یہ شیرینئی کی کہانی بھی ہے اور شیرینئی کی طرح ہزاروں دوسری حوا اور آدم کی بیٹیوں کی قسمت بھی ہے، وہ جو عین جوانی میں بیوہ ہو گئی شوہر نے ورثے میں جائیداد یا بینک بیلنس نہیں چھوڑا بل کہ تین بچے چھوڑے، غربت اور اس پر بیوگی دوہرا عذاب ہے وہ کہتی ہے کہ ہاتھ کھینچنے کے لئے تو ہر کوئی تیار ہے مگر ہاتھ تھامنے کا کوئی روا دار نہیں، ہر ایک بات کرنا چاہتا ہے مگر بات نبھانا نہیں چاہتا، ہر کوئی مجھے پانا چاہتا ہے مگر کوئی اپنانا نہیں چاہتا، میرے بچے میری زندگی اور میرا جیون ہیں مگر یہی بچے میرے پیروں کی بیڑیاں ہیں، عورت ہر ایک کو چاہیے مگر پرائے بچے کون پالے، ایک نہیں تین تین، کون ہے اس جہاں میں اتنے ظرف کا مظاہرہ کرے اور وہ یہ بوجھ سر پر اٹھا لے، مگر زندگی کے یہ دن جو سالوں کی طرح کٹتے ہیں ایسے تو نہیں بیتیں گے اور پھر اس معاشرے میں جہاں بیوہ عورت پر مال غنیمت کی طرح ہر شخص کی نظریں ہوتی ہیں ایک غریب عورت کتنی دیر تک سمت مخالف سے آنے والے بے رحم تھپیڑوں کا مقابلہ کر سکتی ہے، یہ دنیا جس میں نہ بھائی ہے نہ بہن پیسہ نہ ہو تو کچھ بھی نہیں، رشتے تب تک رشتے ہیں جب تک ان میں پیسوں کی خوشبو ہو، نوٹوں کی مٹھاس ہو ورنہ کوئی رشتہ سگا نہیں، ہر رشتہ پرایا ہے، جس ماں کی کوکھ سے جنم لیا ہو اسی ماں کو بھی پھر اپنے بچوں کا وجود بوجھ محسوس ہوتا ہے، شیرینئی کی عمر بمشکل 28 برس ہو گی مگر بیوگی کا داغ جو قدرت کی طرف سے اس کے ماتھے پر لگ گیا ہے اور تین بچے جن کو کوئی قبول نہیں کر سکتا اس کے لئے تو یہ جیون ایک عذاب سے کم نہیں، اس کے لئے رشتے آتے ہیں رشتے بلائے بھی جاتے ہیں کہ اس کی ماں کی یہ خواہش ہے کہ اس کی بیٹی کو بھائیوں کے طعنوں سے چھٹکارا مل جائے مگر اس کے لئے آنے والے رشتوں میں کوئی بھی اتنی ہمت والا سامنے نہیں آیا جو شیرینئی کے ساتھ ساتھ اس کے تین بچوں کو بھی انگلی سے پکڑ کر لے جائے اور یوں وہ بیج منجدھار پھنس گئی ہے مانا کہ تقدیر کے فیصلے آسمان سے آتے ہیں مگر آزمائش سے دنیا والوں کو گزرنا پڑتا ہے اور دنیا والے کبھی کسی آزمائش پر پورا نہیں اترتے کیوں کہ مادے سے بنا انسان ہر چیز میں مادی فوائد ہی ڈھونڈتا ہے، گل مکئی بی بی بھی ایک کردار ہے گل مکئی سے ملتا جلتا اور اس سے مختلف کہانی کے ساتھ،گل مکئی کے شریک حیات بھی اس وقت دغا دے گئے جب اس کی عمر صرف 25 سال تھی اور اپنے پیچھے دو بچے چھوڑے، گل مکئی نے ہمت نہیں ہاری اور ملازمت کر لی دوبارہ شادی کی سوچ دل سے نکال کر اپنی جوانی اپنے دو بچوں کے نام کر دی مگر معاشرہ ہمارے زخموں پر تب تک مرہم رکھتا ہے جب تک ہم درد سے بلبلاتے ہیں مگر جیسے ہی زخم مندمل ہوتے ہیں تو ڈنک مارنا شروع کر دیتا ہے کیوں کہ کسی سے کسی اور کی خوشی دیکھی نہیں جاتی، گل مکئی آفس جاتی ہے تو آفس کے لئے موزوں لباس پہن کر جاتی ہے مگر تنقید کرنے والوں کی زبانیں ہمیشہ لمبی ہوتی ہیں اس لئے گل مکئی کو بھانت بھانت کی باتیں سننا پڑتی ہیں، ایسے ایسے الزامات برداشت کرنا پڑتے ہیں کہ جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتی، بولنے والوں کو کون روک سکتا ہے بولتے چلے جاتے ہیں مگر بعض باتیں سننے والوں کے کانوں میں سیسہ پگھلا دیتی ہیں، عجیب معاشرہ ہے کسی کی مدد نہیں کر سکتے مگر اس کی توہین کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں، اور ایسے فقرے سننے کو ملتے ہیں’’ اس کے شوہر کو مرے ابھی چند مہینے نہیں ہوئے اور اس نے لال جوڑا پہنا ہے ہاتھوں میں چوڑیاں پہنی ہیں کانوں میں بندے پہنے ہیں بالوں کو یوں کیا ہے وہ کیا ہے‘‘ کیا اس کے شوہر کے مرنے کے ساتھ اس کی زندگی کا جنازہ بھی نکل گیا کیا اب زندگی کی کسی خوشی کسی رعنائی پر اس کا کوئی حق نہیں رہا شوہر تو قدرت نے لے لیا اب اس سے یہ خوشیاں کون چھین رہا ہے اسی لئے تو گل مکئی کہتی ہے کہ کاش وہ ہندوؤں کی طرح اپنے شوہر کے ساتھ ’’ستی‘‘ کر دی جاتی کہ زندہ رہ کر تو روزانہ جلنا پڑتا ہے کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ یہ زندگی نہیں محض ایک قید ہے جس میں اسے وہی کرنا ہو گا جو معاشرہ چاہتا ہے، ہم مسلمان ہیں اور اکیسویں صدی میں رہتے ہیں مگر ہمارے رسم و رواج وہی ہیں جو آج سے سو سال پہلے ہندوؤں میں رائج تھے ایک بیوہ بن سنور نہیں سکتی، اپنی مرضی کے کپڑے نہیں پہن سکتی، کہیں آجا نہیں سکتی آخر اس کا قصور کیا ہے، قسمت نے اگر اس کو نوجوانی میں بیوہ بنا دیا تو کیا یہ اس کا قصور ہے قدرت نے اگر اسے دو بچے دے دیئے تو کیا یہ اس کا جرم ہے ہاں اس کا جرم یہ ہے کہ اس نے معاشرتی روایات اور لوگوں کی خواہشات پر سر تسلیم خم نہیں کیا اپنی زندگی کی باگ ڈور کسی اور کے ہاتھ میں نہیں دی اور اگر وہ خود کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی تو معاشرہ اسے ذلت کے سوا کچھ بھی نہ دیتا مگر ہمارا معاشرہ یہ کب چاہتا ہے کہ کوئی آزاد زندگی گزارے اور کھوکھلی روایات کو توڑ ڈالے، ہمارا مذہب عورت کو کتنے حقوق دیتا ہے یہ ایک الگ بحث ہے مگر ایک بیوہ کو جتنے حقوق اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ نے دیئے ہیں شاید کسی نظام، کسی مذہب یا کسی قانون ریاست میں اسے ملے ہوں، مگر ہم مذہب کو تب مانتے ہیں جب مذہب ہماری روایات اور ہمارے مفادات کی پاس داری کرے ورنہ ہم مذہب کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں، آپ ذرا اپنے اردگرد نظر دوڑایئے حقیقت خودبخود آپ کے سامنے آجائے گی، کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ایک عورت جس کا شوہر مر جاتا ہے اور اس کا دنیا میں دوسرا کوئی معاون و مددگار نہ ہو اس کے کیا احساسات ہوں گے اس کی کیا ضروریات ہوں گی زندگی اس کے لئے کتنی کٹھن ہو گی اور اگر ایسا کچھ خود ہمارے ساتھ ہماری بہنوں یا دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ ہو جائے تو کیا ہو گا، اگر ہم ایک بار بھی اس طرح سوچ لیں تو شاید ہمیں اپنی سوچ بدلنے میں دیر نہیں لگے گی، مگر کیا کریں ہم آنے والے برے وقت کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے اور ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا اگرچہ زندگی میں ہر ایک کے ساتھ سب کچھ ہو سکتا ہے،شیرینئی کہتی ہے کہ ہم کتنے کھوکھلے معاشرے میں رہ رہے ہیں کہ پانچ بچوں والا مرد تو جوان لڑکی سے شادی کر لیتا ہے مگر دو بچے جننے والی کا ہاتھ تھامنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا، وہ کہتی ہے کہ خدا کسی عورت کو نوجوانی میں بیوہ نہ کرے اور اگر کسی کا سہاگ چھینے تو اتنا تو بے بس نہ کرے، کیوں کہ بے بسوں کو دنیا قدموں تلے کچل دیتی ہے۔