ڈرامہ سیریل “میرے پاس تم ہو” میں ایک مکالمے نے بہت مقبولیت پائی ہے۔ “اس دو ٹکے کی لڑکی کے لئے تم نے پچاس ملین دے دیے؟”
بلاشبہ پاکستان کے سدا بہار ڈرامے کراچی سنٹر سے ٹیلی کاسٹ ہوئے ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی مرکز کی ڈرامہ انڈسٹری کو ملک بھر کے ٹی وی مراکز پر سبقت حاصل تھی اور اب بھی ہے، ہم نے اپنا دور لاہور سنٹر کے ڈرامہ “دن، فشار، راہیں” کی صورت میں جیا ہے جبکہ ہم سے پہلے “وارث” کی دھوم تھی، اسی طرح کوئٹہ مرکز سے “دھواں”، پشاور مرکز سے “بساط” اور اسلام آباد مرکز سے “گیسٹ ہاؤس” اور “انگار وادی” جیسے ڈرامہ سیریلیز کی مقبولیت کے ہم عینی شاہد ہیں، لیکن کراچی مرکز ان مثالوں سے بہت آگے تھا، “ان کہی ، دھوپ کنارے، تنہائیاں” جیسے عظیم الشان ڈرامہ سیریلز پاکستان کی تاریخ میں کراچی مرکز کو سب پر ممتاز کرتے ہیں، اسی طرح ہمارے دور میں کراچی مرکز سے “ہوائیں، اعتراف، پاداش، کشش، ہائے جیدی” کافی مقبول تھے۔ . یہ برملا اعتراف کیا جانا چاہئیے کہ کراچی کی ڈرامہ انڈسٹری کو ہمیشہ سے سبقت حاصل تھی اور آج بھی ہے۔ اگرچہ آج پرائیویٹ پروڈکشن کا دور ہے لیکن ہم پروڈکشن سے پہچان لیتے ہیں کہ ڈرامہ میڈ ان کراچی ہے یا میڈ ان لاہور یا کوئی دوسرا مرکز۔
جس طرح لاہور کی ہواؤں میں فلم رچی بسی ہے اسی طرح کراچی کی فضاؤں میں ڈرامہ رچا بسا ہے، جس طرح لاہور ڈرامہ نہیں بنا سکتا اسی طرح کراچی فلم نہیں بنا سکتا۔ کیونکہ دونوں جگہوں پر پائے جانے والے مائینڈ سیٹ کبھی بھی تبدیل نہیں ہو سکتے، لیکن ہمارا آج کا موضوع فلم نہیں بلکہ ڈرامہ ہے جس کا نام ” میرے پاس تم ہو ” ہے،
اس ڈرامہ میں ہمایوں سعید ، عائزہ خان اور عدنان صدیقی اپنی زندگی کی بہترین پرفارمنس پیش کر رہے ہیں کیونکہ کیمرہ کے پیچھے پاکستان کے کہنہ مشق ہدایتکار ندیم بیگ ہیں، ہمایوں سعید نے خود کو چھوٹی اسکرین کا بہت بڑا اداکار ثابت کیا ہے، عدنان صدیقی کی پر اعتماد ایکٹنگ، ہماہوں سعید کی دل کو ہاتھ ڈالتی پرفارمنس اور عائزہ خان کی آنکھوں سے کردار نگاری تاریخ میں امر ہو رہی ہے جس کی مثالیں دی جایا کریں گی، اس ڈرامہ کا بیک گراؤنڈ اسکور، کاٹ دار مکالمے اور منظرنامے ایک طرف لیکن اس حواس باختہ اسکرپٹ نے مکالمے توہین آمیز حد تک ایکسپوز کر دیے ہیں۔ . بلاشبہ خلیل الرحمن قمر کے قلم میں یہ طاقت ہے کہ وہ معاشرے کی سمت تبدیل کر سکتے ہیں، وہ معاشرہ جو حیا کا پیکر ہے، بے حیائی کا محور نہیں، جو شرم و وفا کا علمبردار تو ہے لیکن بے غیرتی کا سبق نہیں۔
“دو ٹکے کی لڑکی” سن کر ہر مرد تالیاں بجا رہا ہے، مکالمہ “دو ٹکے کی لڑکی” سے اپنی جھوٹی انا کی تسکین کے لئے واہ واہ کی جا رہی ہے، یہاں تک کہ ہمایوں سعید نے خصوصی طور پر یہ مکالمہ لکھ کر ٹویٹ کر کے کامیابی کی مبارکباد دی ہے، لیکن کیا عائزہ خان کی ٹویٹ کسی کو نظر آئی ہے، اس عظیم اداکارہ کی عظمت کو سلام جس نے یہ مکالمہ قبول کرتے ہوئے یہ ڈرامہ قبول کیا، کیا وہ بھی خوش ہیں؟
جناب عالی عورت تو بے وفا ہو سکتی ہے لیکن ممتا بے حیائی کی چادر نہیں اوڑھ سکتی، اگر ایسا ہوتا تو اس کے قدموں میں جنت نہ رکھی جاتی۔ یہ ہم مرد ہی ہیں جو اس کو ورغلاتے ہیں، یہ ہم مرد ہی ہیں جو کہتے ہیں کہ شہوار میرا دوست ہے وہاں جا کر ملازمت کرنے میں اب مجھے کوئی اعتراض نہیں، یہ ہم مرد ہی ہیں جو پیسے کی چمک سے خدا کی اس معصوم تخلیق کی آنکھیں چندھیا کر دیتے ہیں، یہ ہم مرد ہیں جو اسکی قیمت 5 کروڑ لگاتے ہیں، یہ ہم مرد ہی ہیں جو اسکی قیمت دو ٹکا لگاتے ہیں، یہ ہم مرد ہی ہیں جو یہ سوچ رکھتے ہیں کہ پیار پاس ہے تو انمول اور دور جا رہا ہے تو مول دو ٹکا۔
یہ کیسی خود غرضی ہے، حیوانیت ہے، بے شرمی ہے، پل میں انمول پل میں مول دو ٹکا، عورت میں انکار کرنے کی جرات ہے، جناب خلیل صاحب نے ایک انٹرویو میں واضح کہا کہ اس کہانی کا پس منظر یہ ہے کہ وہ ایک ایسے جوڑے کو جانتے ہیں جنہوں نے یہ سب کیا۔ کسی انفرادی عمل سے آپ اس معاشرے کی شرم و حیا کو چیلنج کر رہے ہیں، اس معاشرے کے منہ پر گھونسے برسا رہے ہیں، مرد کو بے غیرت اور عورت کا مول دو ٹکا مقرر کر رہے ہیں، دونوں طرفین کی انتہا تک پہنچ کر آپ جو ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ قابلِ مذمت ہے۔
میں اس ڈرامہ “میرے پاس تم ہو” کی 12 اقساط تک پیش کی جانے والی کہانی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہوں، خدارا اگر آپ کے قلم میں طاقت آ گئی ہے تو یہ دکھائیں کہ عورت انمول ہے، یہ نہیں کہ مول دو ٹکا، عورت کی بے وفائی ضرور دکھائیں لیکن اس کی وفا کی قیمت دو ٹکے مقرر نہ کریں، عورت کی بے وفائی ضرور دکھائیں لیکن ممتا کی تذلیل نہ کریں، عورت کی بے وفائی ضرور دکھائیں لیکن عورت کو اس حد تک مجروح نہ کریں کہ بارہویں قسط نشر ہونے کے بعد عائزہ خان چپ کا روزہ رکھ لے اور ہمایوں سعید جشن منائے، آپ کسی انفرادی واقعہ کو معاشرے پر مسلط نہ کریں، خدا نے مرد کو عورت پر فوقیت دی ہے تاکہ وہ اس سے دو قدم پیچھے رہ کر تحفظ محسوس کرے، اس لئے نہیں کہ وہ پیچھے سے کھسک جائے۔
ایک عورت اس قدر بے وفا تو ہو سکتی ہے لیکن ایک ماں اس قدر سنگدل نہیں ہو سکتی، ایک مرد اس قدر باوفا تو ہو سکتا ہے لیکن ایک مرد اس قدر بے غیرت نہیں ہو سکتا، کہیں ہم ان رشتوں کی توہین تو نہیں کر رہے، عورتوں کی تذلیل پر تالیاں تو نہیں بجا رہے، کہیں ہم جانے انجانے میں کسی میٹھے زہر کو سراعیت کر جانے کا موقع تو نہیں دے رہے، 12 ویں قسط میں نے 2 بار دیکھی ہے، اس قسط میں جو کچھ ہوا ہے وہ رشتوں کی پامالی ہی نہیں بلکہ انسانیت کی بھی توہین ہے، ممتا کی تذلیل ہی نہیں بلکہ غیرت کا بھی قتل ہے، بلاشبہ ہمایوں سعید کی اداکاری نے رلا کر رکھ دیا ہے عدنان صدیقی کی اداکاری نے متاثر کیا ہے اور عائزہ خان کی ایکٹنگ اور آنکھوں سے اداکاری نے جنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، لیکن محو حیرت اس لئے ہوں کہ پنجاب دھرتی سے جنم لینے والا ایک عظیم تخلیق کار جو اپنے ہر ڈرامے میں غیرت کو ٹھاٹھیں مارتا ہوا دکھاتا ہے یہاں پر وہ کیونکر چُوک گیا۔ عورت انمول ہے ، دو ٹکے کی نہیں، اگر آپ نے مول دو ٹکا مقرر کر بھی دیا ہے پھر بھی دو ٹکے کی لڑکی، دو ٹکے کی بیوی، دو ٹکے کی ماں بھی ہو تو یہ سب نہیں کر سکتی جو کرتے ہوئے دکھایا جا رہا ہے، خلیل الرحمن قمر صاحب رشتوں سے کھیل رہے ہیں ۔ کیا اب وہ زمانے کو بتائیں گے رشتوں کی اقدار؟
ذرا سوچیے۔۔۔؟ نہیں بھئی۔۔ بہت سوچیے