ایک لڑکی کی 18 سال کی عمر میں شادی ہو جاتی ہے۔ 19 سال کی عمر میں وہ ماں بن جاتی ہے. ایک چاند سے بیٹے کی ماں. وہ بچہ پانچ برس کا ہو کر پریپ میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ ABC کی تعلیم شروع ہوتی ہے۔ بچہ کہانیوں میں نیولے کا ذکر سن سن کر نا جانے کیا تصّور اپنے دماغ میں پختہ کر چکا ہے۔ باپ چاہتا ہے کہ بچہ ایک ہی دن میں عالم فاضل ہو جائے۔ اس کے لئے وہ بچے کو خود پڑھانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ بچہ جب C for Camel پر آتا ہے تو بارہا سمجھانے اور بتانے پر بھی C for Camel نہیں کہتا بلکہ C for Nelu کہتا ہے۔ ہزار بار سمجھانے پر بھی یہی کہتا ہے۔ نیلو سرائیکی میں نیولے کو کہتے ہیں
C for Camel کہتے کہتے بچہ پھر وہی C for Nelu پر آ جاتا ہے۔ اور پھر ٹکا کر اس کی ٹھکائی لگتی ہے باپ سے۔ اس بے طرح مار پڑنے پر بچہ بد حواس ہو کر A for Apple بھی بھول جاتا ہے۔ ماں پریشان ہو کر دادا کی طرف دوڑتی ہے کہ بچے کو بچاؤ۔ میرے شوہر سے کہو کہ بچے پر اتنا دباؤ نہ ڈالے۔ دادا جی آتے ہیں اور بچے کو ساتھ لے جاتے ہیں۔ بچہ دادا جی کے پاس مزے سے کھا پی کر سو جاتا ہے۔ شوہر صاحب کو پہلی دفعہ اس صورت حال کا سامنا ہوا کہ بیوی نے شکایت کر دی۔ یہ جرأت اس کی۔ “میں نے تمہیں طلاق دی” تین بار کہ کر سو جاتا ہے۔ دیہات کا ماحول، خوف زدہ روتی ہوئی بیوی۔ نہ فون کی سہولت کہ میکے والوں سے رابطہ کرے اور ساس کے پاس جا کر پوری بات بتاتی ہے۔
ساس بیٹے کے پاس آتی ہے اور تصدیق کرتی ہے۔ بیٹا جواب دیتا ہے کہ اماں غصے میں منہ سے نکل گیا تھا۔ لو جی پھر تو طلاق نہ ہوئی۔ غصے میں کہاں کوئی عقل کی بات کرتا ہے۔ ساس ڈھیروں دعائیں دیتی بہو کو بیٹے کے پاس بٹھا اور صلح کروا کے چلی جاتی ہے۔ صلح ہو بھی جاتی ہے۔ 23 سالہ لڑکی کو اتنا دینی علم کہاں۔ پھر بھی تھوڑی بے چین ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی۔ یونہی اپنے سنی فرقے کے ایک معلم سے پوچھتی ہے کہ صاحب کیا ایسے طلاق ہو جاتی ہے؟ تو ان معلم کا جواب آتا ہے کہ تمہارا شوہر اگر ایک سال سے نماز نہیں پڑھ رہا تو وہ تو ویسے ہی کافر ہے۔ تم اس پر ویسے ہی حرام ہو۔ طلاق کا کیا سوال۔ ایک کافر مرد کی زوجیت میں مسلمان عورت نہیں رہ سکتی۔
وقت گزرتا جاتا ہے اور لڑکی ایک دو اور لوگوں سے اور تفسیر کی کتب سے استفادہ کرتی ہے۔ ان سب سے ایک ہی جواب حاصل ہوتا ہے کہ تین مختلف وقتوں میں طلاق دی جائے تو طلاق ہوتی ہے ورنہ نہیں۔ چلو سکھ پایا۔ پر سکھ نصیب میں کہاں۔ شوہر کو پھر تاؤ چڑھا۔ ایک بار پھر طلاق دے ماری۔ بیوی نے اب کے شور مچایا۔ روٹھ کر میکے جا بیٹھی۔ ماں نے کہا یوں زبانی کہنے سے بھلا کب طلاق ہوتی ہے۔ بیوی شوہر کے بھائی اور دوستوں کو بتاتی ہے۔ وہ سب بھابی آپ تو سیانی ہیں۔ وہ تو پاگل ہے۔ پاگل کی بات کی کیا اوقات۔ چلیں گھر چلیں۔ ایک در سے دھکا جبکہ دوسرا یعنی شوہر کا در ابھی تک کھلا ہے۔
لڑکی پھر سے پہنچ گئی شوہر کے گھر۔ پچھلے تمام ثبوتوں اور گواہوں کی روشنی میں اچھا اگر طلاق ہوئی بھی ہے تو صرف دو بار اور وہ بھی زبانی۔ مگر پھر سے لڑکی کا ریسرچ ورک شروع۔ اب اسے معلوم پڑا کہ طلاق کے لئے بھی گواہ ہونا ضروری ہیں۔ ورنہ نہیں ہوتی۔ شکر ہے. ایک دن شوہر کو پھر تپ لگی اور اس نے کہ دیا کہ میں اجازت دیتا ہوں۔ اگر رہنا چاہو تو رہو، جانا چاہو تو جاؤ۔ بیوی بڑی بےغیرت اور ڈھیٹ ہے۔ نہیں جاتی۔ اگلی بار طلاق کہنے پر میاں جی یاد دلاتے ہیں کہ بی بی طلاق کا حق تو میں تمہیں پچھلی لڑائی میں دے چکا ہوں۔ میری دی ہوئی طلاق اب کوئی معنی نہیں رکھتی۔ سو امن رکھو۔ جیو اور جینے دو۔ چلو جی جیتے ہیں اور جینے دیتے ہیں۔
پھر یاد نہیں کتنی بار طلاق دی میاں جی نے۔ ہر بار بھول جاتے تھے کہ یہ حق ان کے پاس نہیں رہا۔ کہ اچانک ٹی وی پروگرام سے پتا چلتا ہے کہ یہ حق اگر شوہر بیوی کو دے دے تو پھر بھی شوہر کا حق ختم نہیں ہوتا۔ اس کی دی ہوئی طلاق validیعنی درست ہوتی ہے۔ یا خدایا، اب لڑکی کدھر جا مرے۔ دس برس بیت گۓ اس کھیل کو اب وہ سیریس ہی نہیں لیتی۔
ایک دن اچانک اس کے ہتھے شیعہ قوانین کی کتاب لگ جاتی ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ اس برادر فرقے میں طلاق کا تصور ہی الگ ہے۔ ایک کونسل دونوں فریقین کی طرف سے بیٹھتی ہے اور سوچ بچار کے بعد طلاق کروا دیتی ہے۔ واہ جی لڑکی پکی سنی العقیدہ ہے مگر مگر اس بات پر اس کا کہنا ہے کہ یہی سب ٹھیک ہے۔ وہ صحیح کہتی ہے یا غلط مجھے نہیں پتا۔ پھر ایک روز یوں ہوا کہ لڑکی نے اپنے خاندان کو اکٹھا کیا اور شوہر کے خلاف ایک مقدمہ خاندان کی عدالت میں پیش کر دیا۔ جس کے نتیجے میں شوہر کے دوستوں کی صلاح سے شوہر نے پکّے کاغذ پر طلاق بھجوا دی اور میکے والوں نے بھی شادی کے 25 سال بعد وہ طلاق قبول کر ہی لی۔ مگر یہ کیا بدتمیزی ہے۔ ابھی بھی گواہوں کے نام ندارد۔ میاں جی کی جائداد بیوی کے پاس ہے۔ وہ پھر طلاق واپس لے لیتے ہیں کہ ابھی ادھوری ہے۔ ہوئی نہیں۔ آباد رہو، کی صدا ہر طرف سے آ رہی ہے۔ پر تین سال بعد لڑکی نے C for Nelu کہ ہی دیا۔ مجھے نہیں رہنا تمھارے ساتھ۔ طلاق دو یا نہ دو۔ زبانی دو یا لکھ کر دو۔ گواہ ہوں یا نہیں۔ پاک ہوں یا نہیں۔ باری باری دو یا ایک ساتھ یا بھلے کبھی نہ دو۔ بس اب پکچر کلیر ہو گئی ہے کہ C for camel بھی نہیں ہے اور C for cat بھی نہیں ہو گا۔
بات وہی صحیح جس کی گواہی اپنی سوچ دے۔ آپ ہی سوچئے جہاں اتنے مکاتب فکر ہوں وہاں کسی قاعدے میں C for Cat اور کسی قاعدے میں C for Camel تو کون سا قاعدہ اپنایا جائے؟ بس جو اپنی سوچ کہے۔ پھر وہی سچ ہے۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔