مجھے عورت ہونے پر فخر ہے

مجھے فخر ہے کہ میں ایک آواز ہوں، ایک زندہ عورت کی آواز!
مجھے اپنی آواز  کے معنی پر اعتماد ہے۔
اور یہ آواز تب گونجتی ہے جب عورت کے کردار، اختیار اور مقام پہ حملہ کیا جاتا ہے۔ وہ لاکھوں عورتیں جو بول نہیں سکتیں، محض لہو کے گھونٹ بھر کے رہ جاتی ہیں، ان کے لئے میری آواز صحرا کی تپتی دھوپ میں تھوڑا سایہ اور دو گھونٹ پانی کے مترادف ہے۔
مجھے اپنی طاقت کا احساس ہوتا ہے جب احساس کمتری مین ڈوبی ہوئی زبانیں میرے سچ سے گھبرا کےانگارے اگلتی ہیں۔
مجھے ناز ہے جب میں دیکھتی ہوں کہ ہر رنگ ، نسل، اور عمر کے مرد کے اعصاب پر عورت کا خوف سوار ہے۔
میں مسکراتی ہوں جب گیان دھیان سے عورت کے کردار کا پیمانہ متعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور پیمانے پہ پورا نہ اترنے کی صورت میں لفظ عورت سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔
میں کھل کے ہنستی ہوں جب اپنا قد اونچا کرنے کی ناکام کوشش میں قعر مذلت میں گرے ادنیٰ لوگ مزید بونے نظر آنے لگتے ہیں۔
مجھے لطف آتا ہے جب مجھے بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے بازار میں میری صنف کی بولی کیا ہے اور میں خریداروں کی اوقات بیان کرتی ہوں۔
مجھے اور بھی لطف آتا ہے جب میں بے وقعت گھمنڈیوں کو عورت پہ تبصرہ کرتے دیکھتی، سنتی یا پڑھتی ہوں اور جہنم کے دروازے عورت پہ کھول دیئے جانے کی نوید سنا دی جاتی ہے۔
مجھے اپنی جھوٹی ایگو میں ڈوبے ہوؤں پہ ترس آتا ہے جب وہ یہ سوچ کے سنگ باری کرتے ہیں کہ ان کے اسفل الزام اور ہلکے الفاظ عورت کو ارزاں کر دیں گے۔
سنو!
میری آواز وہ آواز ہے جو عرب کے صحراؤں میں وقت پیدائش ہی زندہ دفن کی جاتی تھی۔
اور آج احسان جتایا جاتا ہے عورت پہ، کہ وہ جو زمین میں زندہ گاڑی جاتی تھی، ننھی سی جان پہ مٹی ڈال کے ڈوبتی سانسوں کا نظارا کیا جاتا تھا، روشن آنکھوں کے دیپ بجھا دیے جاتے تھے، اس عورت کو زندگی کی نوید دے دی گئی۔ دین حق نے وحشی دلوں کو موم ہونے کا حکم دے دیا۔
مگر کیا کیجئیے کہ سوال پوچھنا ہماری مجبوری ہے۔
 کیا واقعی عورت کو مٹی میں زندہ دفن ہونے سے بچا لیا گیا ؟
کیا واقعی معاشرے نے اپنی بربریت تسلیم کر لی ؟
کیا واقعی عورت کو آزادی سے جینے کا حق دے دیا گیا ؟
کیا یہ تسلیم کر لیا گیا کہ وہ مرد جیسی ہی جیتی جاگتی امنگوں بھری مخلوق ہے ؟
کیا اسے بھی پرواز کا وہی حق حاصل ہوا جو مرد کو میسر ہے ؟
کیا اس کی بھی خواہشات، احساسات اور جذبات کا احترام ہوا جو مرد کو حاصل ہے ؟
کیا اسے بھی اپنی زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہوا جو مرد کے حصے میں آیا؟
کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ معاشرے نے چلن بدلنے کی بجائے دفن کرنے کے لئے کچھ برسوں کی مہلت مانگ لی ؟
اور اب سمجھ میں آتا ہے کہ ہوا کچھ یوں ہی ہے!
انسانیت اور محبت بھرا حکم آیا کہ ننھی بچی گڑھے میں زندہ دفن نہیں ہو گی۔ زندگی سے محروم نہیں ہوگی، شقاوت القلبی کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا۔
حکم سن لیا، مان لیا، ماننا ہی تھا!
لیکن دلوں میں جو سنگدلی بسی تھی، روح میں، جو بے بس کی چیخیں سن کے فخر کے ہلکورے لیتی تھی، کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ماہیت قلب نہیں بدلی، آنکھ نہیں جھکی اور جھک کے عزت کرنا نہیں سیکھا۔ حقوق دینا نہیں سیکھا، حقارت سے دیکھنا نہیں چھوڑا۔ دوسری طرف بھی انسانی دل دھڑکتا ہے، خواب دیکھے جاتے ہیں، خواہشات کا الاؤ ہے، یہ نہیں جانا۔
نہیں کچھ بھی نہیں سمجھا، جانا اور پہچانا!
کیونکہ ضرورت نہیں تھی یہ سب کشٹ کاٹنے کی کہ اس سب کے لئے دل میں کچھ جگہ خالی کرنا تھی۔ کچھ حقوق دینے کے لئے من کو راضی کرنا تھا، آنکھ پہ پہرے بٹھانے تھے، دل میں عزت پیدا کرنی تھی، نفس کو لگام دینا تھی اور عورت کو اپنے جیسا، اپنے جیسا زندہ انسان سمجھنا تھا۔
یہ ایک کھٹنائیوں بھرا سفر تھا سو کیوں اتنی مشکل میں پڑیں یہ بے وقعت نفس کے مالک، کیوں بدلیں اپنے آپ کو؟
سو نوزائیدہ بچی کو زندگی بخش کے زندہ قبر میں تو نہیں اتارا گیا، مگرانتظار کیا گیا کچھ برسوں کا کہ عورت کو ظالم روایات کی تنگ قبر میں اتار کے تماشا دیکھا جا سکے، وہی تماشا جو ننھی بچی کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ وہاں جسم دفن کیا جاتا تھا، یہاں روح کو صلیب پہ گاڑنے کی تیاری کی گئی۔ تعفن زدہ غیرت کے بوجھ تلے دبا دیا گیا، مصنوعی عزت کے بار تلے کچل دیا گیا۔ بنیادی مقصد تو ہوا روشنی اور زندگی سے محروم کرنا تھا نا تو چلیئے پیدائش پہ ننھی بچی نہ سہی، کچھ برسوں بعد کی نوعمر لڑکی سہی۔
عورت کی قسمت میں مالک کی چاکری لکھی ہے، مرضی کی زندگی نہیں۔ سکول جانا، علم حاصل کرنا، کام کرکے معاشرے کا فعال رکن بننا، ہنسنا بولنا، مرضی سے جینا، شادی کا فیصلہ خود کرنا، آزاد پرندے کی طرح پرواز کرنا، یہ سب مالک کی بنائی وہ دیواریں ہیں جنہیں غلام مالک کی مرضی کے بغیر نہیں پھلانگ سکتے۔
سو پدرسری معاشرے میں نصیب وہی رہے گا، سر تسلیم خم کرو، بچپن میں باپ بھائی کا حکم اور باقی عمر میں شوہر کی تابعداری۔ کھونٹا بدلنا ہےسو نکیل تو رہے گی اور اس سے بندھی رسی بھی کوئی تھامے رکھے گا۔
پاکستان سے ایک مہربان کا فون تھا!
رندھے لہجے میں سسکیاں بھرتی آواز!
” کیوں لکھتی ہو ایسا ؟ جب سنگ باری ہوتی ہے تو کیا ٹیس نہیں اٹھتی؟
کیا درد رگوں میں نہیں پھیلتا ؟ لفظوں کے تیروں سے زخمی نہیں ہوتیں کیا؟
یہ مشکل راستہ ہے جو تم نے چنا ہے
ہم مسکرا دیئے ” سنو تمھیں معلوم ہے کیا کہ وہ لاکھوں عورتیں جنہیں زباں بندی کا حکم سنایا گیا، وہ کیسا محسوس کرتی ہیں میرے الفاظ پڑھ کے۔ روح کیسے شانت ہوتی ہے ان کی کہ کہیں تو کوئی نقار خانے میں آواز بلند کرنے کی جرات رکھتا ہے۔ بھلے صدا صحراؤں میں گونج کے کھو جائے۔ پروا نہیں کہ شکار کی تلاش میں اندھے بہرے گدھ اپنے کان بند کر لیں۔ سچ کا عذاب سقراط کو زہر پینے پہ مجبور تو کر دیتا ہے لیکن صدیوں پہ محیط وقت کے سفر میں سچائی کی دہلیز پہ اپنا نام امر کر جاتا ہے
روؤ نہیں میری بہن، یہ میری آگہی کا تاوان ہے اور اس کا بوجھ مجھے اٹھانا ہی ہے
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔