ڈاکٹر خالد سہیل صاحب !
یہ میرا پہلا اداس نامہ ہے۔ آپ کی طبیعت پر بار گذرے تو معذرت۔
میں نے آپ کی کتاب FROM ISLAM TO SECULAR HUMANISMپڑھی اور بہت ٹھہر ٹھہر کے پڑھی۔ میں سست رفتار پڑھنے والی نہیں ہوں لیکن اس کتاب پر مجھے بار بار رکنا پڑا۔ اور کہیں کہیں تو دیر تک ٹھہرنا پڑا۔ آگے جانے سے پہلے سوچ نے پائوں پکڑ لیئے کہ ذرا رکو اسے سمجھ تو لو جان تو لو۔ یہ کتاب سرسری پڑھنے والی نہیں ہے۔ اسی لیے میں نے شاید ضرورت سے زیادہ وقت لیا۔
آپ کو سچ کی تلاش تھی۔ مجھے بھی ہے۔ لیکن سچ کیا ہے؟
سچائی کہاں سے ملے گی؟ کون بتائے گا؟ کس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ یقین سے کہہ سکے کہ جو وہ کہہ رہا ہے، وہی سچائی ہے؟ ہم اس کا یقین کیسے کر لیں؟ کیا سب کی سچائی ایک ہی ہے؟ میرا اور آپ کا سچ ایک ہی ہے؟ یا یہ کہ ہمیں اپنی سچائی خود ڈھونڈنی ہے؟ سچ ماننے کے لیئےکیا دل کی گواہی کافی ہے؟ کیا سچ اور حقیقت ایک ہی چیز ہے؟ حقیقت بدل نہیں سکتی تو کیا سچائی بدلی جا سکتی ہے؟
میرا سچ اس وقت یہ ہے کہ یہاں ابھی رات ہے لیکن سڈنی میں میری دوست کہہ رہی ہے کہ ابھی دن ہے۔ تو یہ اپنا اپنا سچ ہوا۔ کیا اپنے اپنے سچ کے ساتھ ہم کہیں مڈل گراونڈ پر راضی ہو جائیں گے؟ یا ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے؟کیا ہم اپنے تجربات سے سچائی سیکھتے ہیں؟ تو پھر ہم غلط بھی ہو سکتے ہیں۔
کیا سچائی وہ ہے جو ہم مانتے ہیں یا وہ جو نظر آتی ہے؟
کیا ہمیں درمیانی راستہ لے کر مفاہمت اور سمجھوتہ کر لینا چاہیئے؟اور سچائی سے زیادہ امن و آشتی ہمارے لیئے اہم ہونا چاہئے؟
سچ کی متلاشی۔۔۔
نادرہ مہرنواز
٭٭٭ ٭٭٭
ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب
محترمہ نادرہ مہرنواز صاحبہ !
یہ میری کتاب کی خوش قسمتی ہے کہ اسے آپ جیسا قاری ملا جس نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا اور پڑھ پڑھ کر سوچا اور سمجھا۔ میکسیکن دانشور اوکٹاویو پاز کا کہنا ہے کہ سنجیدہ قاری جتنی دیر میں تحریر پڑھتا ہے اس سے زیادہ دیر اس پر غور و خوض کرتا ہے۔ اس حوالے سے آپ ایک سنجیدہ قاری ہیں۔
یہ میری خوش بختی ہے کہ آپ نے مجھے پہلا خط لکھا۔ بہت سے لوگ کتاب پڑھتے ہیں تو کوئی فیڈ بیک نہیں دیتے۔ آپ نے نہ صرف خط لکھا ہے بلکہ ایک ایسا سنجیدہ سوال پوچھا ہے جو بہت لوگ سوچتے تو ہیں لیکن زبان پر نہیں لاتے کیونکہ اس سوال کو الفاظ کو روپ دینا آسان نہیں۔ میں آپ سے کبھی نہیں ملا لیکن ‘ہم سب’ پر آپ کے کالم پڑھے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ ایک قاری ہی نہیں ایک صاحب الرائے لکھاری بھی ہیں اور کسرِ نفسی سے کام بھی لیتی ہیں۔ ہم سچ کی تلاش میں نکلے انسانوں کو دانشور کہتے ہیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ اگر آپ چاہیں تو ہمارے خطوط کا سلسلہ دراز ہو سکتا ہے۔
سچ کے بارے میں میرا موقف یہ ہے کہ دنیا میں دو طرح کے سچ ہیں۔۔۔ذاتی سچ اور معروضی سچ۔۔
SUBJECTIVE TRUTHS AND OBJECTIVE TRUTHS
جہاں تک ذاتی سچ کا تعلق ہے دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان۔۔۔ کسی کا سچ مذہبی سچ ہے کسی کا سچ روحانی سچ ہے۔ کسی کو مردوں سے محبت ہے کسی کو عورتوں سے۔ کسی کو پیرس پسند ہے کسی کو روم۔ کسی کا پسندیدہ شاعر اقبال ہے اور کسی کا غالب۔ کوئی بلھے شاہ کا دلدادہ ہے اور کوئی کبیر داس کا۔ یہ سب ذاتی سچ کی مثالیں ہیں کیونکہ یہ سچ اس شخص کے ذوق کی غمازی اور پسند کی نشاندہی کرتے ہیں۔
جب ہم معروضی سچ کی بات کرتے ہیں تو سائنسی سچ کی بات کرتے ہیں۔ یہ وہ سچ ہیں جو دنیا کے کسی بھی حصے میں ثابت کیے جا سکتے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں دنیا میں کششِ ثقل موجود ہے گریویٹی کی طاقت ہے تو وہ کسی بھی لیبارٹری میں ثابت کی جا سکتی ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہائیڈروجن کے دو مولیکیول اور آکسیجن کے ایک مولوکیول کے کیمیائی عمل سے پانی بنتا ہے تو یہ کسی بھی تجربہ گاہ میں ثابت کیا جا سکتا ہے۔ ایسے سچ کو ماننے کے لیے نہ ہمیں کسی استاد کسی پیر کسی بزرگ پر اندھا ایمان لانے کی ضرورت ہے اور نہ کسی غیبی طاقت پر یقین کرنے کی۔ معروضی سچ کا تعلق قوانینِ فطرت سے ہے جسے ہر عہد کے سائنسدان تلاش کرتے آئے ہیں۔
یہاں تک تو بات ذاتی سچ اور معروضی سچ کی تھی۔ دنیا میں ایک تیسرا سچ بھی ہے جو سماجی سچ ہے۔ اگر کسی انسان کا ذاتی یا معروضی سچ سماجی سچ سے ٹکرا جائے تو وہ سماج اس شخص سے اس کے سچ کی قیمت مانگتا ہے۔ وہ سماج جتنا جابرانہ ہوگا اور اس کا نظام جتنا آمرانہ ہوگا سچ کی قیمت اتنی زیادہ ہوگی۔
ہر دور اور ہر معاشرے میں سچ کہنے والوں اور سچ لکھنے والوں کو اپنے سچ کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ تاریخ میں نجانے کتنے شاعروں ادیبوں سائنسدانوں اور دانشوروں کو اپنے سچ کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔
کوئی جیل بھیج دیا گیا
کوئی شہر بدر ہو گیا
کوئی سولی پر چڑھا دیا گیا
محترمہ نادرہ صاحبہ !
اگر ہم انسانی ارتقا کا مطالعہ کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ جوں جوں ساری دنیا میں جمہوری سوچ، امن پسندی اور انسان دوستی کی روایات مضبوط ہو رہی ہیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے سچ کے اظہار کا موقع مل رہا ہے۔ عوام و خواص، ادارے اور حکومتیں انسانی حقوق کا احترام کر رہے ہیں۔ آزادیِ افکار و گفتار و کردار محترم و معتبر ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اکیسویں صدی میں بھی چند ممالک اور معاشرے ایسے ہیں جو ہمیں ماضی کے تاریک ادوار کی یاد دلاتے ہیں۔ جہاں آزادیِ افکار و گفتار پر پابندیاں ہیں اور اگر کسی کا سچ اصحابِ بست و کشاد کو پسند نہیں آتا تو سچ کہنے والوں کے پائوں میں زنجیریں اور زبان پر تالے ڈال کر انہیں جیلوں میں بھیج دیاجاتا ہے یا سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے
بخش لائلپوری کا شعر ہے
ہمارا شہر تو چھوٹا ہے لیکن
ہمارے شہر کا مقتل بڑا ہے
سچ کہنے والوں کا یہ حال دیکھ کرابن انشا نے اپنے مخصوص انداز میں کہا تھا
سچ اچھا پر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا
آپ کے اگلے خط کا انتطار رہے گا
آپ کی طرح سچ کی تلاش میں نکلا ہوا مسافر
خالد سہیل
29 اکتوبر 2019