مصنف خلیل الرحمن قمر کا نیا ڈرامہ ’میرے پاس تم ہو‘ تو بحث کا موضوع تھا ہی لیکن خود انھوں نے ایک انٹرویو میں اپنے ڈراموں میں خواتین کی ایک خاص انداز میں عکاسی، صنفی برابری اور اپنے لحاظ سے ’اچھی‘ اور ’بری‘ عورت کی تعریف کر کے خود کو بھی ایک ایسی بحث کا موضوع بنا لیا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔
یہ سارا معاملہ ایک نجی چینل پر انٹرویو کے دوران خلیل الرحمن قمر کے لکھے گئے ڈرامہ سیریل ’میرے پاس تم ہو‘ کی کہانی سے متعلق بات چیت سے شروع ہوا۔
’میرے پاس تم ہو‘ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو ایک امیر مرد کے لیے اپنے شوہر کو چھوڑنے پر تیار ہے۔ اس ڈرامے پر زیادہ تنقید یہ تھی کہ اس میں عورت کو متعصبانہ حد تک منفی کردار میں دکھایا گیا ہے جس سے صنفی امتیاز جھلکتا ہے۔
مذکورہ انٹرویو کے دوران خلیل الرحمن قمر برابری کے بارے میں اپنے ایک فیمینسٹ گروپ سے کی گئی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں ’میں نے ان خواتین سے پوچھا کہ آپ نے یہ خبر تو اکثر پڑھی ہو گی کہ پانچ مردوں نے مل کر ایک لڑکی اغوا کر لی لیکن یہ کبھی نہیں پڑھا ہو گا کہ پانچ لڑکیوں نے مل کر ایک مرد اغوا کر لیا۔‘
ساتھ ہی وہ کہتے ہیں ’اگر برابری کرنی ہے تو ریپ کر کے دکھاؤ نا۔ آئیں کوئی بس لوٹے، کوئی مرد لے جائیں اٹھا کے، گینگ ریپ کریں اس کے ساتھ، کچھ ایسا کریں تو مجھے پتا چلے گا یہ برابری کر رہی ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
خلیل الرحمان قمر نے انٹرویو میں کی گئی اپنی اس بات کے بارے میں بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں نے جو کچھ کہا اسے غلط رنگ دیا جا رہا ہے، لوگ بات سمجھنے کو تیار ہی نہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ ریپ ایک گندا کام ہے اسی لیے عورت کبھی اسے نہیں کرے گی۔’
‘میں نے ساری عمر عورت کے لیے لکھا ہے۔ اسے بااختیار بنانے کے بارے میں لکھا ہے اور میرا تو بھروسہ ہی عورت کے اوپر ہے۔’
وہ کہتے ہیں ‘جن لوگوں نے میرا کام ہی نہیں دیکھا ہوا وہ صرف اسے ’سپر فیشیلی(سطحی انداز میں)‘ دیکھ کر باتیں کر رہے ہیں۔ اور یہ باتیں لوگ نہیں کر رہے کچھ فیمینسٹ ہیں وہ کر رہی ہیں ۔’
‘پہلے آپ سمجھیے تو سہی، اگر ایسے ہی آپ نے مجھ سطحی بحث کرنی ہے تو جو منھ میں آئے کہتے رہیے۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ لیکن اگر آپ نے خلیل الرحمان قمر کو پڑھا ہوا ہے تو خدا کے واسطے بات کرتے ہوئے کچھ شرم کیجیے۔’
خلیل الرحمان قمر کے ڈراموں میں پہلے بھی کئی بار عورت کو بےوفا، خود غرض، لالچی اور بدکردار دکھایا گیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عورتوں کی منفی عکاسی اور کئی مکالموں پر ناپسندیدگی کے باوجود خلیل الرحمان قمر کے ڈراموں کو خواتین میں پذیرائی ملتی رہی ہے۔ اور حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کے حالیہ انٹرویو کے بعد بھی ان پر تنقید تو کافی ہوئی لیکن ’میرے پاس تم ہو‘ کی مقبولیت میں کمی نہیں آ سکی ہے۔
کسی بھی مصنف کو ڈراموں کے موضوعات اور کرداروں کو اپنی مرضی سے ڈھالنے کا حق ہے لیکن کیا عورتوں کی مخصوص زاویے سے عکاسی ان کے بارے میں منفی سوچ اور رویوں کو جنم دینے اور پروان چڑھانے میں کوئی کردار ادا کر رہی ہے؟
بی بی سی نے اس حوالے سے ڈرامہ انڈسڑی سے وابستہ لوگوں اور ایسے پاکستانی ڈرامے دیکھنے والوں کی رائے معلوم کی۔
مصنفہ اور ڈرامہ نگار آمنہ مفتی کا کہنا ہے کہ ’معاشرے میں واقعات تو ہوتے رہتے ہیں لیکن ان واقعات کی جس طرح سے عکاسی کی جاتی ہے وہ ایک مصنف کے اپنے اندر کا نظریہ ہوتا ہے۔ خلیل صاحب کا جو نظریہ ہے وہ انھوں نے اپنے انٹرویو میں بھی بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا۔۔۔ اس میں انھوں نے خواتین کی برابری کا جو فارمولہ پیش کیا ہے اس کے بعد مزید کسی تبصرے کی بھی گنجائش نہیں رہ جاتی۔‘
آمنہ مفتی کہتی ہیں ’ایک بہت خطرناک چیز سامنے آ رہی ہے کہ ابھی بھی معاشرے میں 90 فیصد لوگ انھی خیالات کو پسند کر رہے ہیں اور انھی چیزوں میں دلچسپی لیتے ہیں اسی لیے آپ دیکھیں کہ ان کے ڈراموں کی ریٹنگ آ رہی ہے۔ ان کی مقبولیت سے ہمیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ بھی یہی ہے اور یہ میرے نزدیک ایک لمحہِ فکریہ ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں ’عورتوں کو ایسے منفی کرداروں (گولڈ ڈگر جیسے روپ) میں دکھانے والی کہانیاں جب گھر گھر پھیلیں گی تو عورتوں کے خلاف جو زہریلے رویے ہیں وہ مزید بڑھیں گے۔ میرا نہیں خیال کوئی عورت گولڈ ڈگر ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ یہ صرف ایک کردار ہے اور اس کردار کو ایک بیانیہ بنا کر پورے معاشرے پر ہم چھاپ دیں کہ ایسی عورتیں ہوتی ہیں۔ ایسے جنرلائزیشن نہیں ہونی چاہیے۔‘
ڈرامہ نویس انعام حسن کہتے ہیں کہ اس طرح کے ڈرامے اس لیے لکھے جا رہے ہیں کیونکہ عوام ایسے ڈرامے دیکھنا چاہتی ہے۔
‘ہم ایک پدر شاہی نظام کا حصہ ہیں جہاں نہ صرف مرد حضرات ایسے ہیں جو کہ عورتوں کے بارے میں متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں اور عورت کو ساری برائی کی جڑ، عقل سے عاری سمجھتے ہیں اور اس میں صرف مرد ہی شامل نہیں ہیں ایک بڑی تعداد میں خواتین ڈرامہ نگار بھی ہیں جو ان سے اتفاق کرتی ہیں۔ اسی لیے اس طرح کے ڈرامے ہٹ بھی ہوتے ہیں اور ریٹنگ بھی لاتے ہیں۔‘
ڈرامہ نگاروں کی سوچ وقت کے ساتھ تبدیل کیوں نہیں ہوئی، اس بارے میں انعام کہتے ہیں کہ ان ڈرامہ نگاروں کی سوچ میں تبدیلی اس عمر میں نہیں آ سکتی۔
’نئے خیالات، نئے آئیڈیاز سے ہمیشہ لوگوں کو ڈر لگتا ہے۔ پاکستان ہو یا انڈیا، پرانے خیالات حاوی ہیں۔ چینلوں میں ایسے ڈراموں کا سکرپٹ منظور کرنے اور ان پر ڈرامے بنانے والے جو لوگ بیٹھے ہیں وہ بھی اسی سماج سے ہی آئے ہیں۔‘
خلیل الرحمن قمر کے انٹرویو کے بارے میں بات کرتے ہوئے انعام کہتے ہیں ’خلیل الرحمن قمر اس میدان کے بےتاج بادشاہ ہیں۔ ان کے ڈرامے بہت مشہور ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ خوبصورت، کمال کے جملے لکھتے ہیں اور دل کو چھو جانے والی کہانیاں سناتے ہیں لیکن ان کے ذاتی خیالات جان کر اتنی مایوسی ہوئی اور اتنا غصہ آیا کہ ان کے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ جس پیمانے پر وہ عورت کو تول رہے ہیں اس پیمانے کا کوئی عشرِعشیر ہی لے کر ہمارے معاشرے میں جو مرد کرتا ہے اسے بھی تول لیں۔‘
انعام کہتے ہیں کہ ’عورت آپ سے ریپ کرنے کی برابری نہیں مانگ رہی۔ عورت یہ نہیں کہہ رہی کہ تم جس طرح مجھے مارتے ہو مجھے ویسے ہی مارنے کی برابری دو۔ ان کو تکلیف یہ ہوتی ہے وہ کہتی ہے جتنے پیسے مردوں کو ملتے ہیں اتنے ہی عورتوں کو ملیں۔ جس طرح نوکری میں مردوں کو ترقی ملتی ہے اسی طرح عورتوں کو ترقی ملے۔‘
اس تمام بحث میں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ اگر کسی ڈرامے کا مصنف اپنی تحریر میں ایسے خیالات کا اظہار کرتا ہے تو اس کے یہ خیالات اور سوچ ناظرین تک پہنچانے میں پروڈکشن ہاؤس اور چینل کتنے ذمہ دار ہیں جو اس سے ڈرامہ لکھواتے ہیں۔
نجی ٹی وی اے آر وائی ڈیجیٹل پر مواد کے شعبے کے سربراہ علی عمران کا کہنا ہے کہ ’ہم مصنف کی ذاتی رائے اور شخصیت کو سامنے رکھ کر کوئی ڈرامہ منظور یا نامنظور نہیں کرتے۔ ہم صرف کہانی دیکھتے ہیں۔ ہاں اس کہانی پر پالیسیاں ضرور ہو سکتی ہیں کہ کیا بات کرنی چاہیے اور کیا نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا میں کسی بھی تخلیق کو آپ تخلیق کار کے فلسفے سے نہیں دیکھتے۔ بہت سارے سائنسدان ایسے ہیں جنھوں نے بہت ساری ایسی سائنسی تخلیقات کی ہیں۔ اگر آپ ان کی ذاتی زندگی دیکھیں، ذاتی تجربے دیکھیں تو وہ بڑے بھیانک تھے۔ آپ اس بنیاد پر ان کے کام کو مسترد نہیں کر سکتے۔’
پروڈیوسر اور ڈائریکٹر رضا موسوی بھی خلیل الرحمن قمر اور ان جیسے دیگر مصنفین کے خیالات کو ان کی ذاتی رائے سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں ’اس کا ان کے ڈرامے سے کوئی تعلق نہیں۔ ہماری تو وویمن اوریئنٹڈ مارکیٹ ہے ہم عورتوں کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے۔‘
رضا کہتے ہیں ’ہم تو افسانوی کردار بناتے ہیں۔ ڈرامے کو آرٹ اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ آپ خود بناتے ہیں اور اس لیے بناتے ہیں کہ لوگوں کو بتا سکیں کہ اگر ایک ڈرامے میں کوئی کردار برا کام کر رہا ہے تو اس کا انجام بھی برا ہو گا لیکن اگر آخر میں جا کر اس کے ساتھ کچھ اچھا ہو جاتا ہے تو پھر آپ ڈرامے کو الزام دیں کہ اچھا نہیں بنا، صحیح پیغام نہیں دیا گیا۔‘
اس سلسلے میں ایک موقف یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ ڈراموں میں وہی کچھ دکھایا جاتا ہے جو ناظرین دیکھنا چاہتے ہیں۔
مہرین دانش قطر کے دارالحکومت دوحہ میں رہتی ہیں اور انھوں نے تقریباً ہر پاکستانی ڈرامہ یوٹیوب پر دیکھ رکھا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’میں خلیل الرحمن کے ڈرامے بہت پسند کرتی ہوں اور ایسا نہیں ہے کہ وہ سارے ڈرامے عورتوں کے خلاف لکھتے ہیں۔ وہ ہر ڈرامے میں حقیقت ہی دکھاتے ہیں ہاں ان کے لکھنے کا انداز مختلف ہے اور ان کے مکالموں کی وجہ سے ڈرامہ غیر معمولی لگتا ہے۔‘
خلیل الرحمن قمر کے انٹرویو کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بات جو انھوں نے کی کہ عورت ہی عورت کی مجرم ہے میں اس سے بالکل اتفاق کرتی ہوں۔‘
تاہم مہرین جیسے خیالات کی مالک خواتین سے اختلاف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی سارہ ظفر کا کہنا ہے کہ انھیں ’میرے پاس تم ہو‘ کے مکالمے بہت ہی ’زہریلے‘ لگے۔
’میں یہ چیزیں نوٹس کر ہی رہی تھی اور جب میں نے خیل الرحمن قمر کا انٹرویو دیکھا تب مجھے سمجھ آیا کہ یہ اپنے خیالات کی ڈرامے میں عکس بندی کر رہے تھے۔’
سارہ کا کہنا ہے ڈراموں میں اس طرح کی چیزیں دکھائی جائیں گی تو اس سے عورتوں کے بارے میں منفی رویے اور سوچ اور مستحکم ہو گی۔
سارہ کے مطابق خود ان کے گھر میں یہ ڈرامہ دیکھنے والی خواتین یہی کہہ رہی تھیں کہ ’دیکھو عورتیں ایسی ہی ہوتی ہیں، اس نے پیسہ دیکھا تو وہ چلی گئی۔’
کراچی سے تعلق رکھنے والی اقرا مجاہد بیگ کا کہنا ہے کہ ‘مجموعی طور پر پاکستان میں رائٹرز سے لے کر پروڈیوسر ڈائریکٹر تک کوئی بھی روایتی طریقوں سے جان چھڑا کر کسی بھی نئے موضوع پر کام کرنے کا رسک لینے کو تیار نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں بہت ساری کہانیاں اور مثبت آئیڈیاز ہیں لیکن نئے آئیڈیا پر ردِعمل کا بھی ایک ڈر ہوتا ہے۔ اشتہار ملتے ہیں، نہیں ملتے، لوگ نئے تجربات پر پیسہ لگانے سے بھی گھبراتے ہیں۔‘