اپسرا – ایک عورت ڈھائی فسانے

”تو مجھ سے شادی کرے گی؟“
”کر لوں؟“ مایا نے دھیمے سے لہجے میں، دِل باختگی سے پُوچھا۔
”اللہ کا نام ہے، کہیں ہاں ہی نہ کَہ دینا۔“ شکیل مَتذَبذِب ہنسی کے بیچ میں گویا ہوا۔
”جس طرح میرا بیٹا تم سے اٹیچڈ ہے، دِل کرتا ہے، میں تم سے شادی کر لوں۔“ مایا نے بڑی لگاوٹ سے جِتلایا۔
”اچھا چھوڑو، ابھی تم نواز ہی کے بارے میں سوچو۔ میرے ساتھ تم خوش نہیں رہ سکتیں۔“ دونوں مایا کے گھر کے ڈرائنگ رُو م میں بیٹھے تھے۔
جی پی او میں کلرک کے عہدے پر فائز مایا کو دو سال ہوئے، اُس کا شوہر طلاق دے چکا تھا۔ شوہر سے اُس کا ایک بیٹا تھا، جس کی عمر تین سال تھی۔ وہ اپنے بچے کے ساتھ، بیوہ بہن کے یہاں رہتی تھی۔ شکیل شاعروں کے حلقے میں معروف تھا، اور شاعروں کا جیسا احوال ہوتا ہے، وہ ویسا ہی تھا۔
مایا نو آموز تھی۔ اپنی ٹوٹی پھوٹی شاعری پر شکیل سے اِصلاح لِیا کرتی۔ شکیل اُس کی نثری کاوش کو منظوم کر دیتا۔ شکیل ہی اُسے مشاعروں تک لے کر گیا۔ مایا نے مشاعروں میں، جس غزل پر سب سے زیادہ داد سمیٹی، وہ در حقیقت شکیل ہی کے فن کا کمال تھا۔ شکیل کا کہنا تھا، تم خود غزل ہو۔ ایسی غزل جسے کئی بحروں میں لکھا جا سکتا ہے۔ احوال یہ تھا، کِہ ایک بچے کی ماں بننے کے با وجُود مایا کے بَدن کا رَدِیف قافِیَہ ایسا چست تھا، کِہ اُسے دیکھتے ہی مردوں کے پَسینے چھُوٹ جائیں۔ شکیل کا خیال تھا، وہ زَرا سی فربہ ہے۔ اپنا وزن کم کرے تو اور بھی پر کِشش دِکھائی دے گی۔ مایا جواب دیتی، کِہ نواز کو وہ اِسی حال میں قبول ہے۔ اُس نے شکیل کو یہ قِصہ بھی سنایا تھا، کِہ نواز نے جب پہلی مرتبہ اُسے بے لباس دیکھا، تو اُس کی آنکھوں میں پسندیدگی کی چمک دیکھتے، مایا نے شریر لہجے میں پوچھا، کیا مَیں اپنا وزن کم کروں؟ تو نواز کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا، کبھی نہیں۔
”ایک طرف تم نواز کو چاہتی ہو، دوسری طرف تُم سعید سے پِینگیں بڑھا رہی ہو! تم آخر کرنا کیا چاہتی ہو، میری سمجھ سے باہر ہے؟!“
”کیا کروں! مجھے آپ اپنی سمجھ نہیں آتی۔“
”برباد کر رہی ہو، اپنے آپ کو۔ نواز اچھا آدمی ہے، اُسے دھوکا مت دو۔“
”ہاں! تم صحیح کہتے ہو۔ لیکن مَیں کیا کروں، مجھے خود پر قابو نہیں ہے۔ تم ٹھیک کہتے ہو، مَیں اچھی عورت نہیں ہوں۔ دِلوں سے کھیلتی ہوں۔“
”مَیں نے یہ کب کہا، کِہ تُم اچھی عورت نہیں ہو؟ مَیں تو ہمیشہ یہ کہتا آیا، کِہ تم نیک رُوح ہو۔“
”نیک رُوح ہوں، تو مَیں یہ کیا کر رہی ہوں؟ تم جانتے ہو، میرا دِل کسی ایک مرد پر نہیں ٹھیرتا۔ مَیں بہت بری عورت ہوں۔“

شکیل نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ ”دیکھو! تم مردوں کو نہیں جانتیں۔ تمھیں پَرَکھ نہیں ہے، مرد کی۔“
”تم بھی تو مرد ہو، تمھیں پَرکھ کے دیکھ تو لیا!“
”بیچ میں مت بولا کر، میری بات پُوری ہونے دیا کر۔ بہت بری عادت ہے، تیری۔“ شکیل چِڑ چِڑے پن کا شکار ہو رہا تھا۔
”اچھا بول! کیا کہتا ہے۔“
کبھی تو، کبھی تم، کبھی آپ۔ اُن کے بیچ میں تَخاطُب کے انداز بدلتے رہتے۔ شکیل نے اُسے دوسری طرح سمجھانا چاہا۔ ”تم مردوں کی خَصلت سے واقِف نہیں۔ مرد بڑا حرامی ہوتا ہے، عورت کو چٹکیوں میں بے وقوف بنا دیتا ہے۔ عورت تَعرِیف کے جال سے بچ ہی نہیں سکتی۔ تم تو بالکل نہیں۔“
مایا نے اُس کی بات سنی ان سنی کرتے پوچھا، ”مَیں تمھاری بات کراوں، سعید سے؟“
”نہیں نہیں! مت کراو۔ کوئی پَردَہ رہنے دو۔“ شکیل نراش تھا، کِہ مایا اُس کی نصحیتوں پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہے۔
”لے! تجھ سے کیا پَردہ؟ ہر بات تو بتاتی ہوں، تجھے۔ سعید کو خبر ہے، کِہ تو میری اور اُس کی دوستی کے بارے میں جانتا ہے۔“
”تیری اور اُس کی دوستی کی بات نہیں ہو رہی۔ مَیں نے یہ کہا، کِہ سعید کی بات مُجھ سے مت کیا کر۔“
مایا نے حیران آنکھوں سے دیکھتے سوال کِیا، ”کیوں؟۔۔ جلتا ہے، تو؟“
”مَیں کیوں جلوں گا، یار!؟“ شکیل پر جھُنجلاہٹ طاری ہوگئی۔ ”مَیں ہر فیصلے میں تیرے ساتھ کھڑا ہوتا ہوں۔۔ اور تو۔۔۔ تو مجھے یہ کَہ رہی ہے؟“
مایا نے اُسے مِٹھاس بھری نظروں سے تکتے کہا، ”جلتا ہے، تو۔“
”اچھا جلتا ہوں۔۔۔ تو ایسے کہاں مانے گی۔ آگے بول!“ شکیل نے اِس موضُوع سے جان چھُڑانے کے لیے کَہ دیا۔
”کیا ہو گیا ہے۔ تو اتنا پریشان کیوں ہے؟ سعید کو نہیں پَتا کیا؟ سب بتاتی ہوں، کِہ میرا تجھ سے کوئی پَردَہ نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے، کِہ ہر بات تجھے بتاتی ہوں۔ راز دار ہے تو میرا۔“
شکیل کے چہرے سے بیزاری صاف ظاہر تھی۔ ایسے میں مایا کو اُس پہ پیار آیا۔ اُس نے بے ساختہ شکیل کو اپنے سے لپٹا کے، اُس کے لَبوں سے لَب مِلا دیے۔ ڈرائنگ رُوم میں کسی بھی لمحے مایا کی بہن یا بچے آ سکتے تھے۔ اِس خدشے کے پیشِ نظر، بوسہ کاری کی یہ عبادت چند ثانیوں سے زیادہ ممکن نہ ہوئی۔ شکیل سَر تا پا پِگھل گیاتھا۔ مایا خُوب جانتی تھی، کِہ کیسے شکیل سے اپنی بات منوانی ہے۔ بعد میں شکیل نے اپنی ایک نظم میں لکھا:
”ہر وہ بوسہ مُقدس ہوتا ہے، جو بے ساختہ اَدا ہو۔“
”دیکھو! نواز کو تمھارے سعید سے بات کرنے پر اعتراض ہے، مَیں نہیں سمجھ پاتا، کِہ تم شادی کے بعد سعید سے تعلق کو کیسے مینیج کرو گی؟“
”نواز سے شادی کے بعد سعید کو چھوڑ دوں گی ناں۔۔۔ بَس دِل میں کوئی حسرت تو نہیں رہے گی۔۔ سمجھ رہے ہو؟۔۔ میں نواز سے شادی کرنے سے پہلے اپنی یہ حَسرت پوری کرنا چاہتی ہوں۔“
نواز جی پی او میں مایا کا افسر تھا۔ اپنی بیوی سے اُس کے تعلقات کشیدہ تھے۔ ایسے میں مایا اُس کی زندگی میں داخل ہوئی۔ نواز جانتا تھا کِہ شکیل، مایا کا قریبی دوست ہے، اور وہ اُس سے شاعری کی اِصلاح لیتی ہے۔ نواز کو یہ بھی معلوم تھا کِہ مایا، شکیل کو بہت مان دیتی ہے۔ اِس لیے جب جب مایا اُس سے ناراض ہوتی، وہ مایا کی بے اعتنائی کا گِلہ شکیل ہی سے کِیا کرتا، کِہ وہ مایا کو سمجھائے۔ نواز کو شکیل پر اِتنا اعتماد تھا، کِہ پچھلے دِنوں مایا، شکیل کے ساتھ مشاعرہ پڑھنے مَری گئی، تو اُس نے بَہ خوشی اجازت دے دی تھی۔
’شکیل بھائی! ایک آپ ہی ہیں، جس پر میرا ایمان ہے۔“

دوسری طرف سعید، شکیل کا دوست تھا۔ سعید کا مَری میں اپنا ہوٹل تھا۔ مشاعرے کے اختتام پر شکیل اور مایا اُس کے ہوٹل کے کمرے میں ٹھیرے تھے۔ یہیں سے یہ کہانی شُروع ہوئی۔
”سعید پہلی نظر میں مجھے بھا گیا تھا۔ سعید بھی یہ کہتا ہے، مَیں اُسے پہلی نظر میں اچھی لگی تھی۔“
”یہ سب میرا قصور ہے۔ تمھیں وہاں لے کے ہی نہیں جانا چاہیے تھا، مجھے۔“
”تیرا تو احسان ہے، مجھ پر۔ تو نے ہی تو ملوایا ہے، اُس سے۔۔۔ مَیں اُس پر فِدا ہو چکی ہوں، شکیل۔“
”چل اے! تیری تو عادت ہے۔ مرد دیکھا نہیں، اور مَر مِٹی نہیں۔“
”ٹھیک کہتا ہے، تو۔ مَیں ہوں ہی بری۔“
”یہ مَیں نے کب کہا؟ تو تو نیک رُوح ہے۔“
”ایک تو ہی مجھے اجازت دے سکتا ہے۔ تیری اِتنی سنتی ہوں۔ سوچتی ہوں، تجھی سے شادی کر لوں۔“
شکیل جانتا تھا، مایا اُس کا دِل رکھنے کو کہتی ہے، ورنہ اُس کا ایسا کوئی اِرادہ نہیں ہے۔
”سوچنا بھی مت۔ تم میرے ساتھ خوش نہیں رہ سکتیں۔ اور وجہ تم جانتی ہو، کِہ کیوں۔“
”ہاں! یہی تو سوچ کر چپ کر جاتی ہوں۔“
”تمھیں خوش حال شخص چاہیے، جو تمھاری ہر خوشی پوری کر سکے۔ اور مَیں ٹھیرا فقط شاعر۔“
”اچھا چلو چھوڑو! میرا موڈ آف مت کرو۔ کوئی اور بات کرتے ہیں۔“ مایا نے منہ بِسور لِیا۔
شکیل جب جب ذہنی دباو کا شکار ہوتا توسوچا کرتا، وہ کس جال میں آ پھنسا ہے۔ مایا اور اُس کے تعلق کا تاگا، مَکڑی کا ایسا جالا ہے،جِس سے چھوٹنے کے لیے جتنے ہاتھ پاوں مارو، وہ مزید اُلجھتا جاتا ہے۔
”یار! مَیں تمھارے لیے فِکر مَند ہوں۔“ شکیل نے پریشانی بیان کی۔
”چل! اُس کے پاس چلتے ہیں۔ سعید کے پاس جاتے ہیں، مَری۔“ مایا کی سوئی سعید پہ اٹکی ہوئی تھی۔
”مَیں کیوں؟۔۔ تم اکیلی جاو۔ مجھے کیوں کباب میں ہڈی بنا کے لے جانا چاہتی ہو!؟“
”تو میرا شہزادہ ہے۔ ایسی بات مت کر۔ ویسے تو اُسے ایک اشارہ کروں، خُود ہی آ جائے۔ تجھے نہیں پَتا، بہت چاہتا ہے، مجھے۔“
”بھول ہے، تیری۔ وہ تجھ سے شادی نہیں کرے گا۔“
”مَیں نے شادی کا کب کہا؟“ مایا نے شکیل کو یوں دیکھا، جیسے کسی احمق کو سمجھا سمجھا تھک گئی ہو۔ ”مَیں اُسے چاہتی ہوں، بَس!۔۔ اِتنا بہت ہے۔۔ شادی تو میں نواز سے کروں گی۔“

شکیل نے اپنا سَر پکڑ لِیا۔ ”کیوں اپنی دُشمن ہوئی ہے۔ نواز کو بھَنک بھی پڑ گئی، تو تو اُس سے جائے گی۔“
کون بتائے گا، نواز کو؟ تو؟“ مایا نے شکی نظروں سے دیکھا۔
”مَیں کیوں بتانے لگا؟ تیری آنکھیں خود بول پڑیں گی۔ یہ کچھ چھُپا نہیں سکتیں۔“ شکیل اب وہاں سے اُٹھنا چاہتا تھا۔
”رہنے دے ناں۔ جب تک نواز ٹریننگ سے واپس آئے گا، تب تک میں سعید کو چھوڑ چکی ہوں گی۔ ختم کر لوں گی، رابطہ اُس سے۔۔۔ سعید اپنی بیوی سے بہت پیار کرتا ہے۔ مَیں اُس سے تعلق رکھ کے، اُس کا ہنستا بستا گھر تھوڑی برباد کروں گی۔“
”تو تمھارا یہ آخری فیصلہ ہے، کِہ تم شادی سے پہلے سعید سے مِل کے رہو گی؟“
”اگر تو اجازت دے تو۔“ مایا نے لجَاجَت سے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ تو بلا لو اُسے۔ مَیں نے تو بہت پہلے کہا دیا تھا، تم اُس کے ساتھ سونا چاہتی ہو۔ مَچمچا رہی ہو۔ تب مجھ سے ناراض ہو رہی تھیں، تم۔“
”ہاں مَیں ناراض ہوئی تھی، لیکن اب سوچتی ہوں، تُو ٹھیک کہتا تھا۔ تو مجھے خوب پہچانتا ہے۔ مَیں ہوں ہی خراب عورت۔“ مایا نے مَسکین صورت بنا لی۔
”تم نیک رُوح ہو۔“ شکیل کو گوارا نہیں تھا، کِہ مایا احساسِ جرم کا شکار ہو۔
”جھوٹ بولتا ہے، تو۔“
”سچی۔ تو بہت اچھی ہے۔ اِس لیے تو پریشان ہوں، کِہ تو اپنے آپ کو برباد کر رہی ہے۔“
”شکیل، پتا ہے کیا؟۔۔ مَیں واقعی مَچمچا رہی ہوں۔“ مایا نے اپنی شہادت کی اُنگلی کو اپنے ہونٹوں پر رکھا۔ ”مَیں اُسے یہاں پیار کرنا چاہتی ہوں۔“ پھِر اُنگلی کو اُٹھا کر اپنی دائیں آنکھ پر رکھ لِیا۔ ”اور یہاں۔“ شکیل دائیں ہاتھ سے اپنی پیشانی مسلنے لگا۔ ”میں اُس کے ساتھ بھَر پور سیکس کرنا چاہتی ہوں، شکیل۔“ مایا کی آواز میں پیاس کی شدت محسوس کی جا سکتی تھی۔
”تو کر لے۔“ شکیل اِس کے جواب میں اور کیا کہتا۔
”کبھی تو کہتا ہے، اچھی بات نہیں۔ کبھی تو کہتا ہے، کر لے!“
شکیل نے ایک سرد آہ بھری۔ ”مَیں تجھے کیسے سمجھاوں۔ تو میری بات ہی کب سُنتی ہے۔“
مایا نے بڑے رَسان سے کہا، ”تیری ہی تو سنتی ہوں۔ پھِر بھی کہتا ہے، نہیں سنتی؟“
”اچھا! ایسا کر، بلا لے اُسے۔ لیکن کہاں مِلے گی، اُس سے؟“
”اُس کا گھر ہے یہاں، اِس شہر میں۔“ مایا کی آواز میں شَوخی در آئی۔
”ظاہر ہے، وہ تجھے گھر تو نہیں بلائے گا۔“
”وہ کہیں نہ کہیں بند و بست کر لے گا۔ یہ اُس کا کام ہے۔“
”بلا لے! یا چلی جا، اُس کے پاس۔۔۔ نواز آ گیا، تو تیرا اُس سے مِلنا مُشکل ہو جائے گا۔ یہ تو ماننے والی بات ہے، کِہ جب تک تو سعید سے سیکس نہیں کر لیتی، تو باز نہیں آنے والی۔“
”تو اجازت دے رہا ہے ناں، مجھے؟“ مایا خوش ہو گئی۔
”تجھے میری اجازت کی ضرورت ہے؟“ شکیل نے اُکتاہٹ سے کہا۔
”کبھی تجھ سے پوچھے بغیر کوئی کام کیا ہے؟“ مایا نے منہ بِسورتے اُس پر جِتلایا۔
”تجھے جو کرنا ہوتا ہے، تو وہی کرتی ہے۔ ملبا مجھ پر ڈالنا ہوتا ہے، کِہ یہ قدم میں نے تیری مرضی سے اُٹھایا۔“
”تو پھر نہ بلاوں؟“
اُس نے ایسے نو میدَانہ پوچھا، کِہ شکیل چاہتے ہوئے بھی منع نہ کر سکا۔ سینے سے اِک سرد آہ نِکلی۔ مایا شکیل سے اپنی منوا چکی تھی، اب بات بدلنا ضروری ٹھیرا تھا۔
”کل میں آوں گی، تیری طرف۔ آفس سے چھُٹی ہے۔ تُجھ سے اور بھی بہت سی باتیں کرنی ہیں۔“
شکیل اُسی شہر میں ایک سستے سے فلیٹ میں رہتا تھا۔ کچھ تو وہ پبلشرز کے لیے مُسَودوں کی پروف رِیڈنگ سے کماتا تھا، کبھی کبھار اُس سے کوئی کتاب ترجمہ کروا لی جاتی، زندگی ایسی بے ڈھب سی گزر رہی تھی۔ اُسی رات مایا نے شکیل کو فون کال پر بتایا، ”اچھا سن! سعید آ رہا ہے، کل۔ مَیں نے اُسے بلایا ہے۔ وہ تو پہلے سے تیار بیٹھا تھا، کِہ مَیں بلاوں اور وہ دوڑا چلا آئے۔ کل دُپہر تک پہنچے گا۔“
شکیل نے حَسرت سے پوچھا، ”کل تو نے میری طرف نہیں آنا تھا؟“
”آوں گی ناں۔ پہلے تجھ سے ملوں گی۔ وہیں سے سعید کو مِلنے جاوں گی۔“
”مگر اُس کو نہ پتا چلے، کِہ مَیں اِس مُلاقات کے بارے میں جانتا ہوں، ورنہ شرمِندہ ہو گا۔“ شکیل نے ہدایت کی۔
”پاگل ہوں مَیں، کیا؟“
شکیل پوری طرح مطمئن نہیں تھا۔ اُس کے لا شعور میں کُچھ تھا، جس کو لے کر اُسے بے اطمینانی تھی۔
”یار! سوچ لے۔“
”لے! اب سوچنے کا کَہ رہا ہے؟ تو نے ہی تو اِجازت دی تھی۔ تیری اِجازت سے بلایا ہے، اُسے۔“
شکیل جانتا تھا، تِیر کمان سے نکل چُکا ہے، پھِر بھی اپنی سی کوشش کی۔ ”کھو دے گی، نواز کو۔“
”ڈرا تو مت۔ پہلے تو نے اجازت دی ہے، اور اب ڈرا رہا ہے؟“
”ڈرا نہیں رہا۔ پَتا نہیں کیوں!۔۔ مَیں تُجھے سمجھا نہیں پا رہا۔“
”دیکھ! تو نے سچ کہا تھا۔ مجھے نواز کے آنے سے پہلے پہلے سعید سے مِل لینا چاہیے۔ دیکھی جائے گی، جو ہو گا۔“
شکیل بے بسی محسوس کر رہا تھا، تو مایا کے دِل میں بھی خدشات تھے۔
”سن! نواز مجھے چھوڑے گا تو نہیں؟“
”مَیں کیا کَہ سکتا ہوں۔“ شکیل نے تقریباََ چِڑ کے کہا۔
”تو سب جانتا ہے۔ ایسے ہی تو تجھے مرشد نہیں کہتی۔ تجھے خبر ہوتی ہے، سب۔“ شکیل خاموش رہا۔ ”سن! کیا میں ساری زندگی ایسے ہی گزاروں گی؟ کبھی اِس کے ساتھ، کبھی اُس کے ساتھ؟ کیا میری زندگی میں کبھی خوشی نہیں ہے؟“
”تیری زندگی بہت اچھی ہے۔ بہت اچھی ہو گی۔ بہت اچھی۔۔۔ تیری قِسمت میں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔“ شکیل نے دِل گیر لہجے میں یقین دِلایا۔
مایا کا جی اُداس ہو گیا تھا۔ ”چل ٹھیک ہے۔ اَب مَیں سوتی ہوں۔ صبح بہت سے کام ہیں۔ اُس کے آنے سے پہلے پہلے پارلر بھی جاوں گی۔“
یہ سوچ کے شکیل بے کل ہو گیا تھا، کِہ کل مایا اُس کے یہاں نہیں آئے گی۔ کہنے کو مایا نے کہا تھا، کِہ وہ آئے گی۔ لیکن شکیل، مایا کی نَس نَس سے واقِف تھا۔ رات گئے تک وہ سعید سے فون پر بات کرے گی، صبح دیر سے اُٹھے گی۔ حسبِ معمول ہر جگہ لیٹ پہنچے گی۔ شکیل کو اگلے روز کہیں نہیں جانا تھا، وہ کروٹیں بدلتے سو گیا۔
دُپہر میں مایا، شکیل کے فون کال کرنے پر اُٹھی۔ شکیل کا اندیشہ دُرست ثابت ہوا۔ مایا نے عذر پیش کیا، کِہ اِس کم وقت میں اُسے پارلر بھی جانا ہے، کئی روز سے اُس نے ٹھیک سے اپنا خیال نہیں رکھا، اِس لیے شکیل کے یہاں نہیں آ سکے گی۔ شکیل نے مِلنے پر اصرار نہیں کیا، کیوں کِہ وہ جانتا تھا، اصرار کرنے کا فائدہ بھی نہیں۔ اپنی عادت کے مطابِق، مایا نے سعید سے مِلنے میں شام سے رات کر دی۔ وہ بہن کو بتا کے نکلی تھی، کِہ شکیل کے ساتھ ایک مشاعرے میں مَدعو ہے، گھر لوٹنے میں دیر ہو جائے گی۔ مایا کا خیال تھا، سعید نے ہوٹل میں کمرا لِیا ہو گا، اور وہ اُسے سیدھا وہیں لے جائے گا۔ لیکن سعید کا ایسا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ وہ ایک ریستوران میں جا بیٹھے۔ مایا پہلی بار یہاں شکیل کے ساتھ آئی تھی۔ سعید واش رُوم گیا، تو مایا نے شکیل کو کال کر دی۔
”سنو! میں اُسے لے کے یہاں آئی ہوں۔“ شکیل کو دھچکا لگا، مگر مایا نے فورا جِتلا دیا۔ ”لیکن اُس جگہ نہیں بیٹھی، جہاں تمھارے ساتھ بیٹھی تھی۔ سچ کہوں، ہَم ابھی آئے ہیں، پر میرا یہاں رُکنے کو جِی نہیں کر رہا۔ تم یاد آ رہے ہو۔ کیا اُسے لے کے تمھاری طرف آ جاوں؟“
”نہیں! بالکل بھی نہیں۔ اور پھر یہاں میرے دوست بیٹھے ہیں۔ مَیں کہیں نہیں جا سکتا۔“ شکیل نے جھُوٹ بولا۔
”مِس کر رہی ہوں، تجھے۔ تو یاد آ رہا ہے۔“
”جس کام کے لیے اُسے بلایا ہے، ناں۔۔۔ وہ کر جا کے۔“ شکیل نے تاکید کی۔
”میرا جِی نہیں چاہ رہا۔ سیکس کو تو بالکل بھی نہیں۔ شاید نہ کر سکوں۔ مَن کرتا ہے، اُڑ کے تیرے پاس آ جاوں، اور گھُٹ کے تجھے جپھی ڈال لوں۔“

شکیل کا دِل بھر آیا۔ مایا کو فوری کال بند کرنا پڑی، کیوں کِہ سعید واش رُوم سے لوٹ آیا تھا۔ مایا نے اُس سے کہا، کِہ یہاں جِی نہیں بہل رہا، چلو کہیں اور چلتے ہیں۔ اُنھوں نے راستے میں فاسٹ فوڈ سے کچھ کھانے کو لِیا۔ سعید کار کو ایک ہی علاقے میں گول گول گھُماتا رہا۔ کُچھ فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا، کِہ کہاں جایا جائے۔ اس بیچ میں کار ہی میں بیٹھے، انھوں نے بوس و کنار بھی کِیا۔ پھِر دونوں سنیما ہال چلے گئے۔ رات کا آخری شو تھا۔ انٹروَل میں سعید ہال سے باہر گیا، تو مایا نے ایک بار پھر شکیل کو کال مِلا دی۔ ”دیکھ مَیں تُجھے کیسے پَل پَل کی خبریں دے رہی ہوں۔“
”اُس پر دھیان کر۔ چھوڑ مجھے۔ جا انجوائے کر۔“ شکیل نے جلے کٹے لہجے میں تنبیہہ کی۔
”فِلم دیکھ رہے ہیں، ہَم۔ جو تُو سمجھ رہا ہے، وہ بات نہیں ہے۔ فِلم دیکھ کے مَیں گھر چلی جاوں گی۔“
رات ڈیڑھ بجے سعید نے مایا کو گھر چھوڑا۔ مایا کار سے اُتر کے گلی میں داخل ہوئی، تو سعید وہیں ٹھیرے جاتی کو دیکھتا رہا۔ سعید کا خیال رہا ہو گا، کِہ وہ پیچھے مُڑ کے دیکھے گی۔ مایا نے پَلٹ کر نہ دیکھا۔ شکیل اُس کی کال لینے کے لیے بے تاب تھا۔
”مَیں نہا کے آتی ہوں، پھِر بات کرتی ہوں۔“
”نہانے کیوں لگی ہے؟“
”پاگل ہی ہے، تُو بھی۔ کہا ناں، کُچھ نہیں ہوا ہمارے بیچ میں۔ صُبح مُجھے جلدی اُٹھنا ہے، ابھی سے نہا دھو کے سو جاوں گی۔ کل پھر ہماری مُلاقات ہو گی۔“
”یہ رات تو ضاءِع کر دی، تُو نے۔“ شکیل کو شُبہہ تھا، کِہ مایا جھُوٹ بول رہی ہے، وہ اُگلوانا چاہ رہا تھا۔
”اُس کا تو کل بھی کوئی پروگرام نہیں لگ رہا۔“ مایا نے اگلے دِن کی صفائی بھی پیش کر دی۔
”تو کیا کرنے آیا ہے، پھِر وہ؟“
”مُجھ سے مِلنے آیا ہے، اور کیوں!“ مایا نے یُوں کہا، جیسے اُس سے مُلاقات ہی سعید کی زندگی کا مَقصد رہا ہو۔
شکیل کو مایا کے لہجے سے اَجنبیت کی بُو آ رہی تھی۔ ”لیکن تیرے اِرادے کا کیا؟ تُو تو اُس کے ساتھ؟۔۔۔“
”چھوڑ ناں! میرا مَن نہیں کِیا۔ ہو سکتا ہے، کل بھی کُچھ نہ ہو۔ چل فون بند کر، مَیں نہا کے آتی ہوں، پھِر بات کرتے ہیں۔“
شکیل ایک گھَنٹا اِنتِظار کرتا رہا۔ مایا، شکیل کو بھُلا کے سعید سے وٹس ایپ پہ چَیٹِنگ کرتی رہی۔ شکیل نے اِنتِظار سے تنگ آ کے مایا کا نمبر ملایا، تو اُس نے کال رِسیو نہ کی۔ یہ جانتے کِہ مایا اُسے نظر انداز کر رہی ہے، شکیل کا پارہ چڑھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد مایا نے وٹس ایپ پر پیغام بھیجا: ”باجی کمرے میں آ گئی تھیں۔ مُشاعرے میں کیا ہوا۔۔۔ یہ پُوچھنے لگیں۔ اِس لیے تُمھاری کال نہیں لے سکتی تھی۔۔۔ مَیں اب سونے لگی ہوں۔ مُجھے بہت نیند آ رہی ہے۔“
”مُجھے بات کرنی ہے‘ تُجھ سے۔“ شکیل نے جوابی پیغام بھیجا۔
”کل کریں گے، ناں۔ اِس وقت بہت تھکی ہوئی ہوں۔ آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی ہیں۔“

شکیل پیچ و تاب کھا کے رہ گیا۔ اُسے مایا سے یہ اُمید نہ تھی، کِہ یُوں ٹرخا دے گی۔ ہُوا بھی یہ کِہ شکیل سے بہانہ کر کے مایا صُبح پانچ بجے تک سعید سے بات کرتی رہی، جب تک کِہ سعید کو نیند نہ آ گئی۔ شکیل بار بار دیکھ رہا تھا، کِہ مایا وٹس ایپ پہ آن لائن ہے۔ اُسے چین نہیں پڑ رہا تھا۔ سعید سو گیا، تو مایا نے شکیل کو کال مِلا دی۔ شکیل نے کال کاٹ کر، اپنی برہمی کا اِظہار کِیا۔
”کیا ہے؟ اب کا ل کیوں کاٹ دی؟ تُو مُجھے خُوش نہیں دیکھ سکتا کیا؟ جلتا کیوں ہے؟“
مایا نے یہ میسیج بھیجنے کے تھوڑی دیر بعد دوبارہ کوشش کی، تو شکیل نے کال لے لی۔ اِس سے پہلے کِہ شکیل کوئی شِکوہ کرتا، مایا نے چڑھائی کر دی۔
”تُجھے ہو کیا جاتا ہے؟ جَل گیا ہے، میری خُوشی سے؟“
”یہ بات ہوتی، تو مَیں تُجھے اجازت ہی کیوں دیتا؟“شکیل بھنایا۔
”تو پھِر یہ کیا ہے؟ بتایا تو ہے، تُجھے۔ بہت تھکی ہوئی ہوں، مَیں۔ طبیعت بھی ٹھیک نہیں۔ اوپر سے تیرا یہ رویہ۔ کیسے انجوائے کروں گی، کل میں!“
”تُو اِس حال میں بہت اچھے سے۔۔۔“
شکیل نے بہت نا زیبا زبان استعمال کی۔ مایا کے تَن بَدن میں آگ لگ گئی۔
”بہت اچھے! یہ ہے تیرا اصلی رُوپ۔ آگ لگا کے خُوش ہے، میرے تَن بَدن میں۔ دے طعنے۔۔۔ مار دے مُجھے۔۔ بُرا کیا، جو تُجھے راز دار بنایا۔ سچ کہتے ہیں، کِہ کسی پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔“
جانے مایا کیا کیا کہتی چلی گئی۔ آگے سے شکیل بھی دُو بدُو جواب دیتا رہا۔ ایک دوسرے کے لیے سخت جُملے کہے گئے۔ مایا نے کال مُنقطع کر کے شکیل کو وٹس ایپ پہ میسیج بھیجا: ”اتنی ہی بُری ہوں، تو چھوڑ دے مُجھے۔ آیندہ کسی شکیل کو کبھی اپنا راز دار نہ بناوں گی۔ آج کے بعد، مُجھ سے رابطہ مَت کرنا۔“
شکیل کا پارہ چڑھ چُکا تھا۔ اُسے جو سُوجھا لکھنے لگا۔ شاعری میں نفیس الفاظ مُنتخِب کرنے والا، وٹس ایپ پر غلیظ گالیاں لکھ کے بھیجتا گیا۔ اس پر بھی غُبار نہ چھَٹا، تو کانٹوں کے بستر پہ لیٹ گیا۔ دُپہر کو اُٹھا تو عادت کے مُطابِق، سب سے پہلے سیل فون اُٹھایا۔ مایا کی طرف سے کوئی پیغام نہ تھا۔ اپنے لکھے الفاظ پڑھ کے افسوس ہوا، کِہ کاش نہ لکھے ہوتے۔ دِن جیسے تیسے کٹا۔ شام گئی، رات ہوئی۔ نہ شکیل نے کال کر کے پَتا کیا، نہ مایا نے اپنی خبر دی۔ شکیل بار بار وَٹس ایپ اسٹیٹس دیکھتا رہا، کِہ مایا آن لائن ہوئی یا نہیں۔ رات اڑھائی بجے مایا آن لائن دکھائی دی، تو شکیل نے معذرتی پیغام لکھ بھیجا۔ اِس بار مایا نے بے نُقَط سُنائیں۔ شکیل نے تُوبہ کی، مُعافی مانگی کِہ وہ آیندہ کبھی غُصہ نہیں کرے گا۔
”مَیں کہیں نہیں گئی۔ سارا دِن گھر پہ تھی۔ بیٹے کی طبیعت خراب تھی۔“
”جھُوٹ مت بول۔“ شکیل کو اعتبار نہ آیا۔
”پُوچھ لینا باجی سے۔ مَیں کہیں نہیں گئی۔“
”تیرا میرا جھُوٹ کا ناتا نہیں ہے۔ مَت بول جھُوٹ۔“ شکیل نے اِلتجائیہ لہجے میں کہا۔
”ہاں! گئی تھی۔ ابھی گھر چھوڑ کے گیا ہے۔“ مایا فوراََ مان گئی۔
”پھِر؟“ شکیل کا دِل مُٹھی میں آ گیا۔
”مُجھے وہ مِل گیا ہے، جس کی مُجھے تلاش تھی۔ یہ وہی ہے، شکیل۔ اِس نے مُجھے سَر شار کر دیا۔“
”واقعی؟“
”اُسے پَتا ہے، عورت کو کیسے چھُوتے ہیں۔ کیسے پیار کرتے ہیں۔ نواز تو بالکل جنگلی ہے۔ اِس نے مُجھے ایسے چھُوا ہے، جیسے پھُولوں کو چھُوتے ہیں۔ مَیں بہت سکُون میں ہوں۔ بہت اندر تک سکُون ہے۔“
شکیل کو لگا، جیسے مُسافِر صحرا کے بیچوں بیچ ہے، اور پانی ختم ہو گیا ہے۔ خُشک حلق سے نکلا، ”پھِر مِلے گی، اُس سے؟“
”کیا فرق پڑتا ہے، مَیں نے اُسے پا لیا ہے۔ مِلوں یا نہ مِلوں۔“
شکیل اِتنا تو جانتا تھا، مایا کسی بات کا سیدھا جواب نہ دے، تو اُس میں بھید ہوتا ہے۔
”پھر سکیس کرے گی، اُس کے ساتھ؟“
”مَیں نواز کی ہوں۔ مَیں نواز سے شادی کروں گی۔“ مایا کا دِل اُس کی زُبان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔
ابھی تک شکیل کی تسلی نہیں ہوئی تھی۔ ”اِس کو چھوڑ دے گی؟“
”اِسے تو مَیں نے پا لیا ہے۔ یہ میرے اندر بَس گیا ہے۔“
شکیل جو پُوچھ رہا تھا، اُس کا جواب نہیں دیا جا رہا تھا۔
”تُو نواز کی ہو گی، تو اِسے چھوڑ دے گی، ناں؟“
”کیوں تنگ کر رہا ہے، مُجھے۔ مَیں نواز سے شادی کروں گی۔“
مایا کے لہجے میں جھُنجلاہٹ نُمایاں تھی۔ شکیل یہ سمجھا، کِہ مایا اُسے صحیح صُورت احوال نہیں بتا رہی۔ اِس کی وجہ رات کی بات کا غُصہ ہو سکتا ہے، کیوں کِہ شکیل نے اُسے بُرا بھلا کہا تھا، تو بدلے میں وہ نہیں چاہتی ہو گی، کِہ اُس سے اپنا غَم بانٹے۔
”مُجھے لگتا ہے، تُجھے اِس سے راحت نہیں ملی۔ تُو مُجھے بِہلا رہی ہے۔ تُجھے برباد کرنے والا مَیں ہوں۔ نہ مَیں تُجھے سعید سے مُلاقات کی اجازت دیتا، نہ تُو اِس وقت اذیت میں ہوتی۔“
”سچ کَہ رہی ہوں؛ تیری قسم! اُس نے مُجھے رَجا دیا ہے۔ مَیں کبھی اِتنی پیٹ بھری نہیں تھی۔“
شکیل کے تَن میں سنسناہٹ ہونے لگی۔ اُسے خطرے کی گھنٹیوں کی آواز، کہیں دُور سے آتی سُنائی دے رہی تھی۔
”کل تُو آئے گی، میری طرف؟“
”شاید مشکل ہو۔“
”کیوں؟“
”دیکھ نا، رات کتنی ہو رہی ہے۔ مُجھے صُبح دفتر بھی جانا ہے۔ سووں گی کب، اُٹھوں گی، کب؟!“
”دفتر سے چھُٹی کر کے آ جانا۔“ شکیل چاہتا تھا، وہ اُس کو سامنے بِٹھا کے سب باتیں پُوچھے۔
”روز روز تھوڑی ہوتا ہے۔ باجی محسُوس کر رہی ہیں، باتوں باتوں میں جِتلا رہی تھیں، کِہ مَیں سب جانتی ہوں، بَس خاموش ہوں۔“
”مَیں کل اِنتِظار کروں گا۔ تُو اَب سو جا۔“ شکیل کب ہار ماننے والا تھا۔
وہ مُسلسل ایک ہی بات سوچ رہا تھا، کِہ مایا نے سعید کا پیچھا نہ چھوڑا، تو نواز سے شادی کا مُعاملہ کھٹائی میں پڑ جائے گا۔ اور سعید کے بارے میں وہ با خبر تھا، کِہ پہلی بیوی کے ہوتے، وہ کسی صُورت دوسری شادی نہیں کرے گا۔ ایسے میں مایا، کہیں نواز کو نہ گنوا دے۔
مایا اگلے روز دفتر نہیں گئی۔ کیوں کِہ اُس کی آنکھ دیر سے کھُلی تھی۔ شکیل نے اصرار کیا، کِہ وہ لنچ اُس کے ساتھ کرے۔ مایا اُس کے یہاں چلی آئی۔
”شکیل! مُجھے سعید سے محبَت ہو گئی ہے۔“ مایا نے آتے ہی اُسے خبر دی۔
شکیل نے مَتانت سے جواب دیا، ”اچھی بات ہے۔ کرو محبَت، مگر شادی تُم نواز سے کر رہی ہو۔“
مایا پُوری تیاری کر کے آئی تھی۔ ”مَیں نواز کو دھوکا نہیں دے سکتی۔ جب میرے دِل میں سعید ہے، تو نواز سے شادی کیوں کروں؟“
”سعید تُم سے شادی نہیں کرے گا۔“
”ہو سکتا ہے، کر لے! تُجھے یاد ہے، شُروع میں نواز بھی شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بعد میں مان گیا۔“ مایا نے شکیل کے دعوے کو جھُٹلانے کے لیے، نواز کی مِثال دی۔
”یہ بعد میں بھی نہیں مانے گا۔ مَیں جانتا ہوں، اِسے۔“
”نہ کرے! لیکن مَیں نواز سے شادی نہیں کر رہی۔“ مایا نے اپنا عزم ظاہر کِیا۔
شکیل جو اَب تک تحمل سے بات کر رہا تھا، جھُنجلا اُٹھا۔ ”تُم پاگل ہو!؟“
”یہی سمجھ لو۔“
شکیل کو اپنا دِل مُٹھی میں جکڑا محسُوس ہوا۔ اُسے مایا کا آنے والا کل عزیز تھا۔ اُس کی نظر میں مایا غلط طرف جا کھڑی ہوئی تھی، جہاں مایا کے لیے لمحاتی راحت کے سِوا کُچھ نہیں تھا۔
”تُم جس مرد کو دیکھتی ہو، یہی کہتی ہو۔“ اُس نے مایا کی عزت نفس پر وار کیا۔
”تُو ٹھیک کہتا ہے، مَیں بہت بُری ہوں۔“ مایا نے دِفاع کرنے کے بَہ جائے، ہتھیار ڈالنا مُناسب سمجھا۔
”مَیں نے یہ کب کہا؟ مَیں ہمیشہ کہتا آیا ہوں، کِہ تُم نیک رُوح ہو۔“
مایا اپنے لیے ایسا کہے، تو شکیل کو دُکھ ہوتا تھا۔ و ہ نہیں چاہتا تھا، مایا خُود ترسی میں مُبتلا ہو۔ مایا نے گلو گیر لہجے میں کہا، ”مَیں ہر ایک کے دِل سے کھیلتی ہوں۔ بہت بُری ہوں۔ کیچڑ ہوں، مَیں۔“
”کیچڑ نہیں، تُم سونا ہو۔ نواز کو مت ٹھُکراو۔“ شکیل نے بڑی چاہت سے کہا۔
”کیا نواز مُجھے چاہتا ہے؟“ مایا نے یوں چونک کے پُوچھا، جیسے اندھا کوئی چاپ سُن کے ٹھِٹھَکے۔
”ہاں!“ شکیل نے تیقن سے کہا، اگر چہ اُس کو اِتنا یقین نہیں تھا۔
”تُجھے یقین ہے؟ دیکھ میرے لیے تیری بات حرفِ آخر ہے۔ سچ سچ بتا، کیا نواز مُجھ سے محبَت کرتا ہے؟“
”ہاں! کرتا ہے۔“
”اور سعید؟“
”نہیں کرتا۔“ شکیل نے تُرنت جواب دیا۔
”زَرا سی بھی نہیں کرتا؟“ مایا نے شکستہ دِلی سے پُوچھا۔
شکیل ہنس پڑا۔ اُسے مایا کی یہ ادائیں بھاتی تھیں۔ ”زَرا سی تو کرتا ہے۔“
”اچھا یہ بتا، مُجھ سے اِن دونوں میں سے کون زیادہ محبَت کرتا ہے؟ نواز؟ یا سعید؟“ مایا یک دَم خُوش دکھائی دینے لگی۔
”مَیں!“ شکیل نے اُداسی سے مُسکراتے کہا۔
”تُو تو کرتا ہی ہے۔ پَر مُجھے تُجھ سے شادی نہیں کرنی۔۔۔ نواز؟ یا سعید؟“
شکیل کو بے بسی محسُوس ہو رہی تھی۔ وہ جانتا تھا، کِہ مایا اپنی منوا کے رہے گی۔ ”لیکن سعید تُم سے شادی نہیں کرے گا۔“
”مُجھے اِس بات کی پَروا نہیں ہے۔“

شکیل کا جِی چاہا، کِہ مایا کے کندھے پکڑ کے اُسے جھَنجوڑ دے، تا کِہ اُس کا خواب ٹُوٹے۔
”تُمھارا دماغ خراب ہے۔ تُمھیں نواز سے محبَت تھی، تو تُم نے سعید سے دوستی کیوں کی؟ منع کرتا رہا مَیں تُمھیں، لیکن تُم باز نہیں آئیں۔ اَب کہتی ہو، سعید سے محبَت ہو گئی ہے۔ تُم کہیں ایک جگہ ٹِکو گی بھی؟“
مایا روہانسو ہو گئی۔ ”تُو بتا میں کیا کروں؟“
”نواز سے شادی کرو، اور چالاکی سیکھ سکو، تو سعید سے ملتی رہنا۔“ شکیل نے بے رحمی سے مشورہ دیا۔
”نہیں! مَیں اُسے دھوکا نہیں دینا چاہتی۔ مَیں ایک جگہ ٹِکنا چاہتی ہوں۔ کسی ایک کی بن کے رہوں گی۔ تُو ہی کہتا ہے ناں، مَیں ایک مرد پہ ٹِکتی نہیں ہوں۔“
شکیل اِس بحث سے تنگ آ چکا تھا۔ ”تُم بتاو، آخر تُمھیں محبَت کِس سے ہے؟۔۔ نواز سے؟“
”ہاں!“ مایا نے زَرا تامل کیے بَہ غَیر کہا۔
”اگر نواز سے محبَت ہے، تو سعید سے کیا ہے؟“ شکیل کا یہ سوال فِطری تھا۔
”محبَت۔ سعید سے بہت زیادہ محبَت ہے۔ اُس نے مُجھے سَر شار کیا ہے۔“
شکیل، مایا کو خُوب سمجھتا تھا، کِہ وہ سچ بیانی کر رہی ہے۔ مایا ایسی ہی تھی، کِہ جسے ایک بار دِل میں بسا لے، اُسے نِکال نہیں سکتی تھی۔ پھِر بھی شکیل نے تسلی کر لینا چاہی۔
”اور مُجھ سے؟۔۔ مُجھ سے کیا ہے؟۔۔ محبَت؟“
مایا نے سَر شاری سے آنکھیں مِیچ لیں۔ ”بے حد۔“ مایا نے آنکھیں کھول کے شکیل کی طرف دیکھا، جو فاتح کی طرح اُسے دیکھ رہا تھا۔ ”محبَت ہے، مُجھے۔۔۔ سب سے زیادہ تُجھ سے۔۔۔ تُو تو میرا شہزادہ ہے۔“
مایا کے ہونٹ شدِت جذبات سے کپکپا رہے تھے۔ وہ والہانہ وار آگے بڑھ کے شکیل سے بغل گیر ہو گئی، اور اپنے ہونٹ شکیل کے لَبوں میں پیوَست کر دیے۔ شکیل، مایا کے والہانہ پن کا شَیدا تو تھا ہی، مُزاحمت کیوں کر کرتا۔ بعد میں شکیل نے اِس بوسے اور مِلاپ پر کوئی نظم لکھی یا نہیں، کامِل یقین کے ساتھ کُچھ کہنا مشکل ہے۔

یہ کہانی ظفر عمران کے افسانوی مجموعے ’’آئنہ نما‘‘ سے لی گئی ہے۔
ناشر: کستوری پبلشنگ ہاوس، راول پنڈی
قیمت: 399 روپے
گھر بیٹھے منگوانے کے لیے رابطہ کیجیے
وٹس ایپ: 03009446803