کتابیں پڑھنا کیوں کم ہوگیا ہے اور بچوں کی کتابوں سے دلچسپی کیوں ختم ہوگئی ہے؟ اس کی وجہیں بہت سی ہیں جیسے بچوں کے پاس بہت سے اور آپشن آ گئے
۔ ہیں، بچوں کے لئے جدید دور کے حساب سے ادب اور کتابوں کی تخلیق کم ہو گئی ہے لیکن اس کا سادہ اور آسان سا جواب یہ ہے کہ بڑوں نے کتابیں پڑھنا اور قصّے کہانیاں سننا اور سنانا چھوڑ دیا ہے۔
بچے شعوری اور لا شعوری طور پہ اپنے اطراف کے بڑوں کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلی انسپیریشن والدین سے آتی ہے عموما گھر میں جو بھی کام والدین کر رہے ہوتے ہیں بچہ کے کورے دماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ یہ کام اسی طریقے سے ایسے ہی کیا جاتا ہے۔ ابتدائی عمر میں لڑکیاں ماؤں کی اور لڑکے باپ کے ہر ہر کام کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچپن میں پہلی بار شوق سے کیا پڑھا تھا یہ تو یاد نہیں لیکن ابتدا اسوقت ہوئی جب اطراف میں سب کو کتابوں میں گم پایا ایسا لگا کے یہ کوئی بہت اہم اور دلچسپ کام ہے۔
اخبار سب ہی پڑھتے تھے، جس وقت پڑھنا نہیں بھی آتا تھا اس وقت بھی اخباروں اور میگزینوں کی رنگ برنگی تصویریں اچھی لگا کرتی تھیں۔ گھر میں ماشا اللہ چار بھائی تھے، لڑکوں کا گھر تھا اس لیے جب چھٹیاں ہوتیں تو خاندان کے باقی لڑکے بھی ہمارے گھر میں جمع ہو جاتے یہ سلسلہ ایک عرصے تک چلا کمپیوٹر اور گیمز کا کوئی سلسلہ نہیں تھا بعد میں ایک بار بنا بھی تو نکال باہر کر دیا گیا کہ یہ ایک لت ہے اس لیے جب سب کرکٹ، بھا گ دوڑ اور کھیل کود کے فارغ ہو جاتے تو کوئی ”ٹارزن کی واپسی“ لے کے کونہ پکڑ لیتا اور کوئی ”امیر حمزہ“ میں کھویا ہوا ملتا اور وہ وقت ہمارے لئے خاصا بورنگ ہو جاتا کیونکے اسوقت پڑھنا نہیں آتا تھا۔
تھوڑی سمجھ آئی تو انہی کتابوں میں سے امی یا فصیح بھائی کوئی کہانی پڑھ کے سنا دیتے تھے۔ ایک رات کو امی نے سعید لخت صاحب کی ”حافظ جی“ پڑھ کے سنائی، بچپن میں ہنسی تو ویسے ہی نہیں رکتی ہنس ہنس کے برا حال ہوگیا، حافظ جی، ملا پلاؤ، نانی ٹخو، سعید اور سیما کی شرارتوں نے بہت ہنسایا۔ اسوقت سے سعید لخت فیورٹ ہوگئے اور یہ کہانیاں بار بار پڑھیں۔ تھوڑی سی خوشحالی آتی تو امی ہمیں لے کے اردو بازار چلی جاتیں، وہاں بہت سی اور دکانوں کے علاوہ شیخ غلام علی اینڈ سنز کی بہت بڑی دکان تھی۔
ہر طرف کتابیں ہی کتابیں بالکل ایلس ان د ونڈرلینڈ والا احساس ہوتا۔ ”ایک“ اور ”دو“ روپے والی کتابوں کے ڈھیر ہوتے جس میں دو روپے والی کہانیاں زیادہ اچھی لگتیں کیونکے ان کا کاغذ اور چھپائی کافی اچھی ہوتی۔ سب اپنی اپنی پسند کی کتابوں سے تھیلے بھر لیتے اور ایک عرصے کا اسٹاک ہو جاتا۔ بچوں کے اردو رسالوں کا معیار بہت اچھا تھا ”نونہال“، ”آنکھ مچولی“، ”تعلیم و تربیت“، ”خزانہ“، ان سب میں تربیت کا بہت سامان تھا۔ نونہال کے خاص نمبر کے ساتھ کوئی چھوٹا سا تحفہ بھی آتا جو عموماً آٹوگراف بک ”ہوتی اور جس پہ حکیم محمّد سعید کے اقوال زریں درج ہوتے۔ یہ بھی ایک قسم کی صحت مند ایکٹیویٹی تھی جس پہ ٹیچروں، بڑوں اور دوستوں سے آٹوگراف لئے جاتے اور اس طرح سے سب کو سوچنے اور لکھنے پڑھنے کا موقع ملتا۔
تیسری کلاس میں پہلا ناول ”چھنگلو میاں کے کارنامے“ پڑھا، چھنگلو میاں دراصل چھنگلی یعنی چھوٹی انگلی کے برابر ایک کردار تھے جو اپنے دوست اور مالک کے ساتھ مل کر کرتب دکھایا کرتے تھے۔ کتاب اٹک اٹک کے پڑھی اور کافی دن میں ختم ہوئی لیک آہستہ آہستہ روانی آگئی پھر ایک سلسلہ چل نکلا۔ ”داستان امیر حمزہ اور دوسری کتابوں نے کئی دن سحر زدہ رکھا۔ مقبول جہانگیر اورسلیم احمد صدیقی کی“ تین ننھے سراغ رساں ”کی سیریز جس میں تین دوست عنبر، نسیم اور عاقب مختلف گتھیاں سلجھاتے تھے بڑا مزہ دیتی تھیں۔
” ننھے شیطان کی ڈائری“ سے ڈائری لکھنے کی انسپراشن ملی اور لکھنے کا آ غاز ہوگیا۔ غالبا چار پانچ سال کی عمر میں پہلا شعر یاد کیا تھا ”یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا، کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا“ اس کے بعد امی نے بہت سارے اشعار یاد کروا دیے، اب یہ نیا کیسٹ چل نکلا جہاں جاتے شاعری سنانے کی فرمائش ہوتی، شاید جب سے ہی خوبصورت جملوں سے لگاؤ اور شاعری کا شوق اندر کہیں رچ بس گیا۔
اردو اور کہانیوں میں دلچسپی میں ایک بڑا کردار فرید احمد کی کیسٹ کہانیوں کا بھی ہے۔ ای ایم آئی والوں کی فرید احمد کی پروڈیوس کی ہوئی کیسٹ کہانیوں میں بیگم خورشید مرزا، نور میاں، قاضی واجد اور دیگر صداکاروں کی آوازیں، سلیس اردو، متوازن اور سبق آموز کہانیاں اور لہجے کے زیرو بم بچوں اور بڑوں کو سحر زدہ کر دیتے تھے اور سب اپنی اپنی دنیا میں کہانی تخلیق کر کے کھو جاتے تھے۔ ساتھ میں ارشد محمود کی کمپوسنگ میں مزے مزے کے گانے ایک ٹریٹ کی طرح ہوتے تھے جو آج بھی اسوقت کے بچوں کو یاد ہیں۔
مجھے وہ کہانیاں تمام ڈائلاگ سمیت حفظ ہو گیئں تھیں۔ اماں کے گھر کے سامنے زیدی صاحب کا گھرانہ تھا ان کے ماشا اللہ بہت سارے بچے تھے، وہ بہت شوق سے اپنے گھر بلاتے اور ان کے بچوں کو کہانیاں سننے کا لالچ ہوتا یوں بغیر ٹیپ ریکارڈر اور کیسٹ کے خرچے کے پوری پوری ”شہزادی گلفام“ اور دوسری کہانیاں فری میں ان تک پہنچ جاتیں۔ اسیطرح میری بچپن کی دوست شائستہ کے ابّو اور ہمارے خالو جنہیں سب عاقل بھائی کہتے ہیں بہت محبّت سے جب اپنے گھر بلاتے تو جب رات کو ان کے بڑے سارے صحن میں کھلے آسمان کے نیچے پلنگوں پہ لیٹنے کے بعد خاموشی چھا جاتی تو ان کی فرمائش پہ پھر ہمارا ٹیپ ریکارڈر آن ہو جاتا بعد میں جب ان کا گھر بنا تو گھر بڑا ہوگیا اورکھلا کھلا صحن ہمارے بچپن کی بہت سی یادیں لے کر گھر میں شامل ہوگیا۔
یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ویڈیوز کی شکل میں کہانی دیکھنے کے بجاے اس پڑھنا یا سننا آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتا ہے مثلا الہ دین کی کہانی ایک ہی ہے لیکن جب وہ پڑھی یا سنی جاے گی تو ہر دماغ اپنی سوچ، مزاج، پسند اور صلاحیت کے مطابق الہ دین، جن، چراغ، شہزادی، بادشاہ کے کردار اور ماحول تخلیق کرے گا لیکن جب وہی کہانی فلم کی شکل میں پیش کر دی جاے گی تو سب دیکھنے والے اسے فقط ایک آدمی یعنی ڈائریکٹر کی نظر سے دیکھیں گے یہی وجہ ہے کہ جب کسی ناول کی ڈرامائی تشکیل کی جاتی ہے یا کسی کہانی پہ فلم بنائی جاتی ہے تو جو اس کتاب کو پڑھ چکے ہوتے ہیں وہ کبھی کبھی خوش لیکن اکثر مایوس ہوتے ہیں کیونکے ان کے تصوراتی کردار فلم یا ڈرامے سے مماثلت نہیں رکھتے۔
کتاب پڑھنے کی صورت ذہن کو جو کام مل رہا ہوتا ہے ویڈیوز دیکھنے سے وہ آدھا ہو جاتا ہے کیونکے دماغ کو جب ایک بنی بنائی چیز مل رہی ہوتی ہے تو وہ سست ہو کے تخلیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اس کی ایک فی زمانہ مثال بچوں کا کسی مشینی روبوٹ کی طرح مستقل ٹیبلٹ یا آئی پیڈ کا استعمال ہے جس کی وجہ سے دماغ کی سست روی، اسپیچ ڈیلے اور ADHD قسم کی بیماریاں عام ہوتی جا رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ ایک پکی پکائی روٹی کھا رہے ہوتے ہیں تو آپ کو آٹا گوندھنے، اس کی سختی نرمی جانچنے، اس کو شکل دینے اور پھر پکا کے سینکنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتی اور آپ بہت سے کام سیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں اس لیے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ خاص کر جب کہیں باہر نکلیں تو بجاے اسکرینیوں پہ روبوٹ کی طرح آنکھیں لگانے کے بجاے کوئی کہانی، نغمہ یا پوڈ کاسٹ گاڑی میں لگا دیا جائے تاکہ سب اپنے اپنے رنگوں سے اپنے ذہن کے کینوس پہ اپنی تصویریں تخلیق کر سکیں۔
پچھلے سال امی کینڈا آییں تو ہم نے بڑے شوق سے بچوں کے کچھ رسالے اور کتابیں منگوایں کہ انھیں کہانیاں پڑھ کے سنایں گے۔ غالبا کوئی نیا رسالہ تھا۔ کہانی سنانا شروع کی تو کچھ دیر بعد میاں صاحب کہنے لگے یہ کیا پڑھ رہی ہو؟ بچے بھی عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے اور خود بھی احساس ہوا کے یہ ہم بچوں کو کیا سنا رہے ہیں۔ کہانی کچھ یوں تھی کہ تین چار بہن بھائی شادی میں شرکت کرنے اپنے رشتے داروں کے ہا دوسرے شہر جاتے ہیں، جو کے بہت کنجوس ہیں۔
وہ بچوں کی کہانی کم اور کسی تھرڈ کلاس چینل کا پھکڑ قسم کا سٹ کام زیادہ لگ رہا تھا۔ اس رسالے کو رکھ کے کہانیوں ک کتاب اٹھائی، بادشاہوں اور پریوں کی کہانیوں کے بعد ایک کہانی کچھ سمجھ میں آئی وہ سنانی شروع کی۔ یہ کہانی ایک دیہاتی کے متعلق تھی جس کی بیٹی کی شادی کا وقت آتا ہے تو وہ جہیز خریدنے شہر جاتا ہے جہاں لوگ اسے طرح طرح لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں، پھر جھلاہٹ ہونے لگی، بیٹی نے سوال کیا ”جہیز کیا ہوتا ہے“ ہم سوچ میں پڑ گئے ایک طرف جہیز کے خلاف مہمیں چلائی جا رہی ہیں اور دنیا خواتین کی ترقی کی باتیں کر رہی ہے اور ہماری کہانیاں جہیز اور شادیوں تک محدود ہیں۔
اندازہ یہ ہوا کے پورے معاشرے کو پھپو کے لطیفوں اور اسٹار پلس کے ڈراموں کی رشتے داروں کی سیاست والی ذہنیت نے لپیٹ میں لے لیا ہے اور لکھنے والوں کا مطالعہ بھی سطحی سا ہے جس کے نتیجے میں بچوں کے لئے بھی ایسا ادب بے ادبی کے ساتھ تخلیق کیا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کھلی ذہنیت رکھنے والے اور تربیت یافتہ لوگ بچوں کا ادب تخلیق کرنے میں اپنا حصّہ ڈالیں۔ اس کے بعد سے ہم نے وہ کتابیں رکھ کے اپنی کہانیاں گڑ کے بچوں کو سنانی شروع کر دیں۔
مُطالعے کے کلچر کو فروغ دینا صحت مند معاشرے کی تشکیل اور ترقی کے لئے بے حد ضروری ہے اور اس کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں میں کتاب کی محبّت جگای جائے۔ انھیں وقت نکال کے ان کی دلچسپی کے مطابق کہانیاں سنائی جایں۔ ان کے سامنے کتاب پڑھی جائے تاکہ انھیں یہ کام اہم محسوس ہو، ان کے ساتھ ان کی پسند ک معیاری اردو اور انگلش کتابیں پڑھی جایں اور ان کے بارے میں دلچسپی کے ساتھ تبصر کیا جائے۔ ان کو رنگ برنگی کتابوں کی شاپنگ پہ لے جایا جائے یا لائبریری کی سہولت ہو تو اسے روٹین میں لایا جائے اور سب سے بڑھ کر کتاب کے لئے اپنی مصروف بھاگتی دوڑتی اسکرین کے نشے میں چور زندگیوں سے وقت نکالا جائے۔Happy Reading
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔