شادی ایک بہت ہی خوب صورت بندھن ہے جو زندگی کے نشیب و فراز میں ساتھ نبھانے کا نام ہے مگر اس کے لیے کچھ ایسے معیار بنا دئے گئے ہیں جو نہ صرف غیر فطری ہیں بلکہ معاشرے میں ان معیاروں نے شادی کو بہت بڑا مسئلہ اور پریشانی بنا دیا ہے۔ شادی چاہے لڑکے کی ہو یا لڑکی کی دونوں کے لیے بہت سارے معیاروں کو پورا کرنا ایک کڑا امتحان ہوتا ہے۔ اس پریشانی کی وجہ کچھ ایسے معیار ہیں جو ہم نے خود بنائے ہوئے ہیں اور یہ ہمارے ہی مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ایک بات ابھی تک سمجھ نہیں آرہی کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر ہمارے ہاں ابھی بھی گورا رنگ ہی خوبصورتی کی علامت سمجھ جاتا ہے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ خوبصورت جوانی ایک درد ناک بڑھاپے تک پہنچ جاتی ہے۔ اگرچہ ہمارے خطے خصوصا پنجاب کے لوگوں کا رنگ گورا بالکل بھی نہیں مگر اب تو گورے رنگ نے ایک انڈسٹری کو جنم دیا ہے اور اس کے ملک ارب پتی بن گئے ہیں اور بہت سے لوگوں کو روز گار بھی ملا ہے جن میں جلد کے ڈاکٹر بھی شامل ہے۔ بہرحال شادی میں سب سے پہلے لڑکی کا گورا ہونا ضروری سمجھ جاتا ہے۔
اگرچہ دنیا میں کسی کو بھی زندگی کا ساتھی بنانے کے لیے سوچ کا ایک ہونا ضروری سمجھ جاتا ہے اگر لڑکی خوبصورت ہے تو اس کے لیے کوئی خوبصورت لڑکا تلاش کرنا پہلی شرط ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ خوبصورت جوانی اسی تلاش میں ایک خوف ناک بڑھاپے تک پہنچ جاتی ہے۔ دوسرا ہمارے ہاں ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر لڑکا یا لڑکی اچھا پڑھی لکھی ہے تو ضروری ہے کہ اس کا شریک حیات بھی پڑھا لکھا ہوا ایک پڑھی لکھی لڑکی ایک کم تعلیم یافتہ مگر کاروبار کرنے والے یا ذمہ داری اٹھنے والے لڑکے کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتی اور ایک اچھے پڑھے لکھا لڑکا کم تعلیم یافتہ مگر سمجھ بوجھ والی لڑکی کے ساتھ زندگی کیوں بسر نہیں کرسکتا۔
ہم مسلمان ہیں اور اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ رازق صرف اللہ تعالی کی ذات ہے پھر شادیوں میں ہمیشہ اچھے گھروں اور اپنے سے امیر لوگوں کو ہی رشتہ کے لیے کیوں تلاش کی جاتی ہے اور یہ تلاش اتنی طویل ہوجاتی ہے کہ وقت گزر جاتا ہے۔ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اچھی تعلیم صرف اس لیے حاصل کی جاتی ہے کہ اچھے گھروں میں رشتے مل سکے۔
ذرا سوچئے اگر دونوں انسانوں کا رشتہ ان چیزوں کی بنیاد پر طے ہوگا تو اس کاروبار میں فائدہ اور نقصان دونوں ممکن ہیں کیونکہ کبھی بھی احساس کی بنیاد پر نہیں ہو سکتے اور دونوں اپنی اپنی قیمت لگاتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جوڑے تو آسمان پر بنتے ہیں تعلیم جو کبھی شعور کے لیے ہوتی تھی آج اچھے گھر میں شادی کے لیے زیادہ استعمال ہوتی ہے۔
ایک اور بڑی مشکل برادری ہے کہ ہم کبھی اپنی برادری سے باہر شادی نہیں کرتے بے شک جوڑ بنتا ہو یا نہیں۔ سوچ میں زمین آسمان کا فرق ہو یا پھر ایسا بھی ہوتا کہ لڑکی زیادہ پڑھی لکھی یعنی ڈاکٹر انجینئر ہے، برادری میں رشتہ نہیں اور باہر کرنا نہیں لہذا اس کا علم اس کا ہنر ہی اس کے لیے عذاب بن جاتا ہے اور تنہائی والا بڑھاپا اس کا مقدر بنا دیا جاتا ہے جو کسی جرم سے کم نہیں۔
میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہو جو بچوں کی شادیوں کے لیے اپنے ذاتی گھر چھوڑ کر بڑی سوسائٹی میں کرایے کہ مکان میں رہتے ہیں اس کی وجہ بتائی جاتی ہے کہ کیا کریں شادیوں کے مسائل ہیں، لڑکیوں کے رشتے اچھی جگہ نہیں ہوتے۔ والدین کو اپنی حثیت سے زیادہ کرنا پڑتا ہے جو ان کے لیے بہت سے معاشی مسائل کوجنم دیتا ہے۔ مگر جب وہ اپنے بیٹے کے لیے لڑکی دیکھتے ہیں تو پھر ان کا معیار بھی وہ ہی ہوتا ہے۔ اچھے رشتے کا مطلب یہاں پر بڑا گھر گاڑیاں اور پیسہ ہے۔ اچھی تربیت یا یہ بالکل نہیں کہ یہ سب کیسے بنایا گیا۔ یعنی آپ کبھی بھی ایک چور ڈاکو یا فراڈیے سے اپنی بیٹی کی شادی نہیں کریں گے مگر ایک بڑی سیٹ پر بیٹھے راشی شخص کو فورا پسند کر لیں گے ۔۔۔
اگر ان سب چیزوں پر غور کریں تو دو چیزیں واضح ہیں کہ یہ سب مسائل ہماری ہوس اور لالچ کے پیدا کیے ہوئے ہیں اور دوسری بات ہمارا خدا پر کمزور یقین بھی ہے۔ اب یہی وجہ ہے کہ شادیوں کے لیے عمر گزر جاتی ہے جو بہت سے مسائل کی وجہ بنتی ہیں اورآج معاشرے میں گھریلو مسائل بڑھ رہے ہیں کیونکہ شادی کے لیے یہ معیار ہمارے بنائے ہوے ہیں جن کو ہمیں بدلنا ہو گا۔