کرنل (ر) نادر علی کی 1971ء کے بارے میں یاد داشتیں

میں 1962ء سے 1966ء تک مشرقی پاکستان میں تعینات رہا۔ اس وقت حالات پرامن تھے اور ایک جوان میجر کے طور پر میرا تجربہ خاصا خوشگوار رہا۔ میری ڈیوٹی سنٹرل آرڈیننس ڈپو میں تھی لیکن میں 1965ء کی جنگ میں رضاکارانہ طور پر کمانڈو بٹالین جوائن کرکے دو سال تک چٹاگانگ میں رہا۔ اس دوران ہماری کمپنی شمالی بنگال میں تعینات تھی لیکن 1965ء میں ادھر کوئی جنگی کارروائی ہی نہیں ہوئی۔
1967ء کے شروع میں واپس آنے کے بعد میں 1971ء میں چھ مہینے کے لیے دوبارہ مشرقی پاکستان گیا۔
ساٹھ کی دہائی تک ہماری فوجی حکمتِ عملی کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ ’مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا‘ ۔ اسی لیے وہاں صرف علامتی طور پر ایک یا ڈیڑھ بریگیڈ فورس رکھی ہوئی تھی۔ چٹاگانگ میں ایسٹ بنگال رائفلز کا ایک ٹریننگ سنٹر تھا۔ یہ نفری دفاعی طور پر بالکل غیرمو ثر تھی۔ میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ ناکافی دفاعی قوت کے باعث 1965ء میں مشرقی پاکستان میں احساس عدم تحفظ پیدا ہوا۔ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی لہر آنے کی اصل وجہ مشرقی پاکستان کے سیاسی فیصلوں کو نظرانداز کرنا تھا۔
1964ء میں ایوب خان نے مس فاطمہ جناح کے خلاف صدارتی الیکشن لڑا تو میں ڈھاکا کی سب ڈویثرن مانک گنج میں الیکشن ڈیوٹی کر رہا تھا، یہ علاقہ عوامی لیگ کا گڑھ مانا جاتا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ وہاں ایوب خان کے لیے بھی حمایت موجود تھی۔ ان انتخابات میں صرف بنیادی جمہوریتوں کے ارکان ووٹ دے رہے تھے۔ مغربی پاکستان کے برعکس مشرقی پاکستان میں بی ڈی سسٹم خاصا کامیاب رہا تھا کیونکہ عام لوگوں میں سیاسی سوجھ سمجھ کے باعث بی ڈی ارکان کو جو ترقیاتی فنڈ ملتے تھے وہ انہیں خرچ کرنا پڑتے تھے۔
ایک عام تاثر یہ تھا کہ عام فوجی بنگالیوں کو اپنے سے گھٹیا انسان سمجھتے تھے۔ مثلاً یہ کہ ان کا قد چھوٹا ہے اور وہ عام طور پر غریب ہیں۔ آپ کے پاس نوکری ہے اور رہن سہن قدرے بہتر ہے۔ شاید اس وجہ سے فوجی بنگالیوں کو کوئی علیحدہ مخلوق سمجھتے تھے۔ بنگالی ثقافت کو اپنانے یا ان کی زبان سیکھنے کا شوق بھی کم کم ہی تھا۔ کچھ گنے چنے افسروں نے بنگالی عورتوں سے شادیاں کر رکھی تھیں لیکن عام میل جول کی سطح اپنایت کے درجے سے بہت نیچے تھی۔
1968 میں اگرتلہ سازش کیس سامنے آیا۔ اس کیس میں جو باتیں الزامات کے طور پر پیش کی جا رہی تھیں وہ تو فوجی میسوں میں روز مرہ کے مذاق تھے۔ مثلاً میرے ہم مرتبہ فوجی افسروں میں یہ مذاق عام تھا کہ اگر مشرقی پاکستان علیحدہ ہو جائے تو سب کی ترقیاں ہو جائیں گی۔ سو جب شام کو ڈرنک کرنے بیٹھتے تو ایک دوسرے کو ہلکے پھلکے انداز میں ’جنرل‘ یا ’بریگیڈیر‘ کہا جاتا تھا۔ جب اگرتلہ کیس کے بریفنگ افسر جنرل اعوان نے یہ غیر سنجیدہ گفتگو بطور الزام پیش کی تو مجھے بڑی کوفت ہوئی اور میں نے کہا کہ یہ سب تو مذاق تھا اور اسے سازش سمجھنا تو بہت مضحکہ خیز بات ہے۔

شیخ مجیب الرحمٰن کو بھارت نواز ثابت کرنے کے لیے اس پر طرح طرح کے لیبل لگائے جاتے تھے۔ مجیب الرحمٰن ایک عوامی لیڈر تھا۔ اس کی سیاست ہنگامہ آرائی کے گرد گھومتی تھی۔ عوامی لیگ کے رہنما مسٹر سہروردی کی موت کے بعد وہ پارٹی لیڈر بن گیا تھا۔ وہ ایک مقبول لیڈر تھا جو کبھی حکومت کا حصہ نہیں بنا۔ پھر اس نے فروری 1966ء میں چھ نکات پیشکیے جن کے گرد 1970ء کا الیکشن لڑا گیا۔
عوامی لیگ کے خلاف زبردست پراپیگنڈہ جاری تھا۔ بہت کم لوگ یہ سیاسی شعور رکھتے تھے کہ بنگال میں ایکشن نہیں ہونا چاہیے۔ عام آدمی یہی سمجھتا تھا کہ علیحدگی کی لہر ختم ہونی چاہیے، یہ صورت حال ملک کے خلا ف بغاوت اورہندوستانی سازش ہے۔ عام لوگوں میں یہ تاثر تھا کہ بنگال کی بات کرنے والے محب وطن نہیں ہیں۔
یہاں ایک عجیب تضاد شروع ہوا۔ یحیٰی خان نے ایک لیگل فریم ورک آرڈر بنایا جس میں ایسی باتیں تھیں مثلاً ”ملک کے خلاف کوئی بات نہیں کی جائے گی، آئین اور وفاق کے خلاف کچھ نہیں کہا جائے گا، وغیرہ“۔ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات اس کے بالکل الٹ تھے جن کے مطابق کرنسی اور خارجی امور کو چھوڑ کر باقی تمام اختیارات صوبوں کے پاس ہونا تھے اور پاکستان کے دونوں حصوں میں علیحدہ علیحدہ دارالحکومت بننا تھے۔
مجیب کی مقبولیت کو روکنے کے لیے عجیب عجیب اقدامات کیے جا رہے تھے۔ ڈھاکا میں اس وقت دارالحکومت ثانی زیر تعمیر تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ وفاقی حکومت کا کچھ حصہ ڈھاکا منتقل کر دیا جائے۔ لیکن اس انتظام کی تفصیلات پر کبھی کسی نے غور نہیں کیا تھا۔ فوجی ڈکٹیٹر کی حکومت ہو تو ساری طاقت ایک شخص میں مرکوز ہو جاتی ہے۔ وہ شخص مغربی پاکستان میں تھا اور ایک ایسی فوج کا سربراہ تھا جس میں اکثریت مغربی پاکستان والوں کی تھی۔ یہ تضاد تو پہلے دن سے تھا۔ اس کو دارالحکومت ثانی بنا کر کیسے دور کیا جاسکتا تھا؟
فوجی کارروائی۔ پاکستان بچانے کا طرفہ نسخہ
یہاں سے میرا اپنا تجربہ شروع ہوتا ہے۔ 25 مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی شروع ہوئی تو میں پی۔ ایم۔ اے میں انسٹرکٹر تھا۔ میری بٹالین مشرقی پاکستان میں تھی۔ میں نے رضاکارانہ طور پر مشرقی پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہاں سے جانے والے ایک میجر کو بتایا گیا کہ اگر تم نہیں جانا چاہتے تو اپنا نام کٹوالو کیونکہ یہ شخص جانا چاہ رہا ہے۔ جب مجھے خبر ملی تو میں بہت خوش ہوا۔ اب یہ میری عاقبت نا اندیشی تھی کہ میں اس فوج کا حصہ بن گیا جو ایک بغاوت کچلنے جا رہی تھی
اصل میں بات حب الوطنی کی نہیں ہوتی۔ فوجیوں کی نفسیات ہی ایسی ہوتی ہے جیسے کسی چور کو چوری کی عادت ہو یا نشئی کو نشے کی۔ فوجیوں کا بھی دل چاہتا ہے کہ اپنے یونٹ کے ساتھ لڑائی میں حصہ لیں۔ چونکہ میں 1965ء میں جنگ میں زیادہ حصہ نہیں لے سکا تھا تو میرے دل میں بھی یہ خواہش تھی۔ لیکن اس وقت میرے لیے ایکشن میں شرکت کے علاوہ ک چھ اور سمجھنا ممکن نہ تھا۔ جس کے لیے مجھے بعد میں احساس جرم بھی ہوا۔
جب میں وہاں پہنچا تو مجھے عام فوجی کے مقابلے میں ایک برتری حاصل تھی کہ میں نے پہلے سے مشرقی پاکستان دیکھا ہوا تھا۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ 1968ء سے ناٹک ہو رہا ہے۔ نہ تو کوئی خفیہ تنظیم تھی اور نہ کوئی سازش۔ سچ تو یہ ہے کہ جون، جولائی، اگست تک جب ہم بغاوت کی اطلاعات پر کہیں جاتے اور فوج ان جگہوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیتی تو اصل میں وہاں ہوتا کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ تو کوئی منظم مزاحمت تھی اور نہ ہی مزاحمت کاروں کا کوئی جامع منصوبہ تھا۔ مزاحمت کرنے والے اصل لوگ بھاگ کر انڈیا چلے گئے تھے۔ انڈیا والے انہیں کچھ تربیت دے دیتے، وہ بارڈر کے تھوڑا اندرآ کر کچھ کارروائی کر کے واپس بھاگ جاتے۔ کافی عرصہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ہوا یوں کہ کچھ مقامات پر مقامی پولیس، انصار اور ای پی آر نے سرکاری دفتروں میں بیٹھ کر آزادی کا اعلان کر دیا۔ فوج نے بغیر کسی مزاحمت کے ایک ایک کر کے کنٹرول ان سے واپس چھین لیا۔

باریسال اور سٹالن گراڈ میں کیا مماثلت نکلی؟
باریسال سب سے آخری ضلع تھا جسے 25 اپریل کے قریب واپس لیا گیا کیونکہ یہ ڈھاکا سے بہت دور تھا اور یہاں سڑک نہیں صرف دریائی راستہ جاتا تھا۔ میں نے اس کارروائی میں 6 پنجاب بٹالین کے ساتھ بطور کمانڈو میجر حصہ لیا۔ اس بٹالین کے کمانڈنگ افسر بریگیڈئیر عاطف تھے۔ ہم باریسال پہنچے تو وہاں بارش ہو گئی۔ میں نے تو کمانڈو ایکشن کے لیے شہرکی دوسری جانب لینڈ کرنا تھا لیکن بارش کی وجہ سے ہیلی کاپٹر اڑا ہی نہیں۔ ہم پچھلی رات میجر نادر پرویز کے ساتھہ اپنی گن بوٹس روانہ کر چکے تھے تاکہ وہ دوسری جانب ساحل پرکچھ علاقہ قبضے میں لے لیں اور بٹالین کے ا ترنے کی جگہ بن جائے۔ بٹالین نے ایم آئی ایٹ ہیلی کاپٹروں میں جانا تھا۔ اب بارش کی وجہ سے پلان میں یہ تبدیلی کی گئی کہ مجھے بٹالین کا گائیڈ بنا دیا گیا۔ اس دوران میجرنادر پرویز شہر کی دوسری جانب پہنچ چکا تھا۔ جب وہاں پہنچا تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے وائرلیس پر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن میں تو بارش کی وجہ سے پہنچ ہی نہیں پایا تھا۔ سو وہ اپنے چالیس فوجیوں کے ساتھ پہلے شہر کی ایک جانب گیا پھر دوسری جانب اور پھر شہر میں داخل ہو گیا اور شہر فتح ہو گیا۔
ہم شام کو بٹالین لے کر دریا پر پہنچے اور باریسال پر حملے کی تیاریاں کرنے لگے۔ عاطف صاحب نے کہا کہ رات کو ناواقف جگہ پر حملہ نہیں کرنا چاہیے، سو ہم نے رات وہیں گزاری۔ اگلی صبح ہم حملہ کرنے گئے۔ ہم مارچ کرتے ہوئے شہر کی طرف جا رہے ہیں تو آگے سے نادر پرویز جیپ میں شہر سے باہر آ رہا ہے۔ ہم نے کہا ’تم کدھر؟ ہم تو ساری رات تمہیں ڈھونڈتے رہے۔ ‘ تو اس نے کہا ’میں نے تو آپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے شہر فتح کر لیا ہے۔ ‘
اب یہ انتہائی مضحکہ خیز ایکشن تھا جس میں ہم نے بٹالین کا حملہ کرنا تھا، دو ہوائی جہازوں نے علاقے پر گولیاں بھی برسائیں تاکہ بٹالین کا راستہ صاف ہو سکے۔ یہ ساری کارروائی ہوئی اور آگے کچھ بھی نہیں تھا۔ شہر میں ہمارے اپنے ہی بندے بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک ہفتے بعد کلکتہ سے ٹائمز آف انڈیا آیا تو اس میں سرخی تھی ”باریسال پر فضایہ، بحریہ اور بّری فوج کا سہ طرفہ حملہ پسپا“۔ اس اخبار کو بنگالی آزادی پسند خبریں فراہم دیتے تھے۔
کچھ اپنا جھوٹ، کچھ ان کا سچ
بظاہر تو یہ کہانی یہاں ختم ہو گئی لیکن وہ بٹالین وہیں رہی اور اس نے بہت زیادتیاں کیں۔ اس ضلع کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ مجھے کسی کا فون آیا کہ فلاں بندہ سونے کی بھری پیٹی مغربی پاکستان لے کر جا رہا ہے، اسے روکو۔ میں نے کہا کئی بندے پیٹیاں لے کر جا رہے ہیں، یہ میرا کام تو نہیں کہ میں لوگوں کا سامان چیک کروں؟ اکثر افسر ایک دوسرے کا نام لگا دیتے تھے کہ فلاں افسر نے یہ زیادتی کی، فلاں نے لوٹ مار کی۔
میں باریسال آپریشن میں اپنے ساتھ شریک ایک ممتاز فوجی افسر سے ملا۔ میں نے اسے بتایا کہ ایک بھارتی تاریخ دان سے بنگلہ دیش کے بارے میں بات ہوئی تو میں نے اسے کہا کہ میں نے تو کوئی بنگالی نہیں مارا اور اگر کسی نے مارنے کی کوشش کی تومیں نے اس کو روکا۔ میری طرح اور بھی پاکستانی افسر ہوں گے۔ کیونکہ مرنے والوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر بھی پیش کیا جاتا رہا ہے۔ میری بات سن کر وہ ساتھی افسر بولا ’میں نے تو بہت مارے تھے‘ ۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ اس شخص کو میں شریف آدمی سمجھتا تھا۔ اسے قتل و غارت کی کوئی ضرورت تھی بھی نہیں کیونکہ باریسال آپریشن میں تو کوئی مزاحمت ہی نہیں تھی۔ بعد ازاں یہ شخص پاکستانی حکو مت میں وزیر بھی رہا۔
بنگالیوں میں مزاحمت کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا تھا۔ مثلا یہ کہ کچھہ لوگ رات کو بتیوں سے اشارے کرکے ہندوستانی ہوائی جہازوں کو گائیڈ کرتے ہیں۔ حالانکہ نہ وہاں ہندوستان کا جہاز آتا تھا اور نہ کوئی کسی کو گائیڈ کرتا تھا۔ یہ سلسلہ 1965ء سے چلا آرہا تھا جب ہم ساری رات پرچھائیوں کے پیچھے بھاگتے رہتے تھے۔
میجر صاحب ہیرو کیسے بنے؟
فوجی آپریشن 25 مارچ کو شروع ہوا اور میں 10 اپریل کو ڈھاکا پہنچا۔ ڈھاکا کے دونوں طرف میگھنا اور بوڑھی گنگا نامی دو دریا ہیں۔ میگھنا کے اوپر ایک بڑا پل تھا جو کمانڈوز نے مزاحمت کاروں سے کچھ ہی روز پہلے چھینا تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو جوش و خروش کا عالم تھا۔ ایک پرجوش شخص مجھ سے کہنے لگا کہ کمانڈوز نے تو کمال کر دیا۔ تم خوش قسمت ہو کہ اسی بٹالین میں جا رہے ہو۔ یہ سنتے ہی میں ایک اور دنیا میں داخل ہو گیا اور حقیقت سے میرا رشتہ کٹ گیا۔
جب بھی کوئی فوجی مشرقی پاکستان پہنچتا، اس کو مکتی باہنی کے مظالم کی تصویروں پر مشتمل ایک فوٹو البم دکھائی جاتی۔ مثلا ایک تصویر مغربی پاکستانیوں کی مسخ شدہ لاشوں کی تھی۔ یہ واقعات چٹاگانگ میں آرمی کے پہنچنے سے پہلے ہوئے۔ مجھے بھی یہ البم دکھائی گئی مگر میری ذہنی حالت ایسی نہ ہوئی کہ میں اندھا دھند بندے مارنے شروع کر دوں۔ میں نے سوچا ٹھیک ہے، ان کو پرانا غصہ تھا، جو اب باہر آیا ہے۔
یہاں سے کہانی 1947 کی طرح ہو جاتی ہے۔ جس وقت سارے ضبط ٹوٹ جاتے ہیں۔ بندے کے اندر دبے ہوئے پرانے تعصبات باہر آ جاتے ہیں۔ کسی کے اندر جہاد کا جذبہ، کسی میں بغاوت کا، کسی میں کافروں کو مارنے کاجوش۔ انسان نے تہذیبی طور پر صدیوں میں جو سیکھا ہوتا ہے، اسے بھول جاتا ہے۔ اس کی سماجی اور ثقافتی جڑیں اکھڑ جاتی ہیں۔ وہ انسان سے پھر حیوان بن جاتا ہے اور بغیر کسی خلش کے تمام ظالمانہ حرکتیں کر بیٹھتا ہے۔
کسی فعل میں مل کر شریک ہونا بنگالیوں کی نفسیات کا حصہ ہے۔ کسی بھی واقعہ پر مشتعل ہو کر وہ ایک دم گروہ بنا لیتے ہیں۔ ان کی یہ خصوصیت بھی کچھ حد تک پرتشدد واقعات کی وجہ بنی۔ میں ساٹھ کے عشرے میں ڈھاکا میں تھا۔ ایک دفعہ بازار گیا تو دیکھا کہ ایک ہجوم جمع ہے۔ نزدیک جانے پر معلوم ہوا کہ ہجوم ایک ڈرائیور کی پٹائی کر رہا ہے جس کی بس کے نیچے آ کر ایک بندہ مر گیا ہے۔ میں وہاں کھڑا تھا تو ایک بندے نے بے دھیانی میں مجھے اپنی ٹوکری پکڑائی اور جا کر ڈرائیور کو دو چار ٹھوکریں لگائیں۔ واپس آیا اور اپنی ٹوکری لے کر چلا گیا۔
چھ جون کو میں چٹاگانگ کے شمال میں بلونیہ پہنچا۔ یہاں زمین کی ایک تکون اٹھارہ میل تک انڈین بارڈر کے اندر چلی گئی ہے۔ یہاں ایسٹ پاکستان رجمنٹ کے باغی فوجیوں نے مورچہ لگا رکھا تھا۔ پاکستان فوج نے حملہ کیا تو آس پاس کے پہاڑوں سے انڈین آرٹلری نے ہمارے پچیس تیس فوجی مار ڈالے۔
جب مجھے بلایا گیا تو بلونیہ پر تین بٹالین کے ساتھ حملے کا منصوبہ تھا۔ میں نے کہا آپ مجھے رات ہی کو بھیج دیں تاکہ میں تاریکی کا فائدہ اٹھا سکوں۔ رات کو ہم ادھر ادھر فائرکرتے رہے، ہم پر بھی فائر ہوا۔ اس افراتفری میں باغی فوجی بھاگ نکلے۔ صبح جب ہماری فوج کا حملہ ہو ¿ا تو سارا علاقہ خالی تھا اور میں اپنے چالیس فوجیوں کے ساتھ ایک خراش بھی لگے بغیر واپس آ گیا۔
میرا کمانڈنگ افسر یہ ایکشن کرنے سے انکار کر چکا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ جہاں اتنے بندے مرے ہیں وہاں اور بندے بھیجنا خود کشی کے مترادف ہے۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ اگر میں دشمن کے پیچھے پہنچ جاو ¿ں تو وہ لوگ اپنے ہی عقب میں تو فائر نہیں کریں گے۔ میرا منصوبہ تھا کہ ان کے بیچ پہنچ کر کنفیوزن پھیلاو ¿ں اور راتوں رات واپس نکل آو ¿ں۔ میرا ایکشن کامیاب ہوا اور میرے سی او کو ایکشن سے انکار کرنے پر معطل کر دیا گیا۔ میں ہیرو بن گیا۔ مجھے اطلاع دی گئی کہ آج سے میں بٹالین کمانڈ کروں گا۔
یہ بہت بڑی بات تھی کہ ایک میجر بٹالین کمانڈ کر رہا ہے۔ اب میں براہ راست نیازی صاحب سے آرڈر لیتا اور روز ڈھاکا میں جرنیلوں سے ملاقات کرتا تھا۔ زیادہ آپریشن میرے علاقے میں ہوئے اور میں اکثر جنرل قاضی کے ساتھ ہوائی جہاز میں سفر کرتا۔ ایک نوجوان میجر ہوتے ہوئے مجھے بہت زیادہ اہمیت مل رہی تھی۔
بین الاقوامی سرحد ایک لکیر ہی تو ہے؟
کسی نے مشورہ دیا کہ انڈین بارڈر کے پار آپریشن کروائے جائیں تو میں نے سویلین رضا کار بھیجنا شروع کر دیے۔ آپ اسے کارنامہ سمجھیں یا بیوقوفی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پوری جنگ میں صرف میں نے ہی بارڈر پار ایکشن منظم کیے۔ یہ بڑا آسان کام تھا۔ آپ دو تین بندوں سے کہتے تھے ادھر جا کر اس طرح ریلوے لائن پر چارج لگا دو اور سوئچ کھینچ کر واپس آ جاو ¿۔ باقی کام خود ہی ہو جائے گا۔
میں ایک دن سلہٹ گیا۔ وہاں قریب ہی بارڈر کے اس طرف کشن گنج کی ریلوے لائن گزرتی ہے۔ میں نے دو تین رضاکار تیار کیے جنہوں نے دھوتیاں پہن رکھی تھیں۔ ان کو بتایا کہ ٹرین کے پہیوں میں بیس فٹ کا فاصلہ ہوتا ہے، اگر پٹڑی پر دو چارج اتنے وقفے سے لگائے جائیں، تو پہیہ گزرنے سے 20 فٹ کا ٹکڑا اڑ جائے گا اور انجن پٹڑی سے اتر جائے گا۔ میں ان کو یہ سبق پڑھا کر ڈھاکا آ گیا۔ رات کو گیارہ بجے بی بی سی پر خبریں سنیں کہ پاکستانی کمانڈوز نے کشن گنج میں ایکشن کیا ہے جس میں 56 بندے ہلاک ہو گئے۔
رات کو مجھے گورنر ہاو ¿س بلایا گیا کہ تم نے تو کمال کر دیا ہے، انڈین سرحد کے اندر اتنی بڑی سبوتاژ کی ہے۔ ہمارے مخالف تو اپنی خبریں لگواتے رہتے ہیں اور ہم کچھ کرتے ہی نہیں۔ اس کے بعد میجر صدیق سالک کو میری ساتھ اٹیچ کر دیا گیا تاکہ ہماری کارروائیوں کی رپورٹ اخبار میں چھپے اور لوگوں کے حوصلے برقرار رہیں۔ اس سلسلے نے میرا نشہ اور بڑھا دیا۔ اب میں روزانہ بریفنگ دیتا تھا۔ اس کے علاوہ کسی کو مشرقی پاکستان کی جغرافیائی، موسمی یا علاقائی معلومات درکار ہوتیں تو میں ان کو بھی مشورہ دیتا۔
میں ہفتے میں کم از کم دو دفعہ بنگال میں کہیں نہ کہیں جاتا تھا۔ اپریل یا مئی میں سنت ہرنام جگہ پر گیا۔ اطلاع تھی کہ یہاں بنگالیوں نے ریلوے کالونی پر حملہ کر کے تمام بہاریوں کو قتل کر دیا ہے۔ اب اس طرح کا واقعہ ہو تو کوئی آثار تو نظر آئیں لیکن مجھے تو کوئی نام و نشان تک نظر نہیں آیا۔ سو یہ بھی تھا کہ رپورٹیں مل رہی تھیں لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے کچھ نہیں دیکھا تھا۔ ایک طرح سے یہ بھی احمقوں کی جنت میں رہنا تھا۔

ہندو ختم کر دو، مسئلہ ختم ہو جائے گا
ہرروز صبح میرا کمانڈنگ افسر بریفنگ لینے ہیڈکوارٹر جاتا تھا، میں سیکنڈ ان کمانڈ تھا۔ وہ بریفنگ لے کر آتا کہ ہم نے فلاں جگہ فورس بھیجنی ہے، وہاں بہت مزاحمت ہو رہی ہے۔ 18 اپریل کو میرا پہلا ایکشن طے ہوا فرید پور میں۔ جانے سے پہلے کمانڈنگ افسر نے ہدایات دیں کہ تم جاؤ اور ایک دفعہ ان کو ’تاونی چڑھاوژ ۔ اس کے لہجے سے مجھے لگا کہ وہ چاہ رہا ہے کہ میں جا کر بندے ماروں۔ میں نے کہا سر ”تاونی“ کس طرح چڑھاوں؟ اگر کسی نے مجھ پر حملہ کیا تو میں جوابی گولی چلاو ں گا، لیکن ایسے ہی بلا وجہ بندوں کو مارنا مجھ سے نہیں ہو گا۔
بریفنگ افسر بولا ’س نو نادر، ہم نے اس مسئلے کی جڑ ڈھونڈ لی ہے اور وہ ہے ہندو‘ ۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہندوؤں کو مارا جائے۔ ہندو ختم کر دیے گئے تو یہ پرابلم ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔
میں نے کہا ’سر، میں کسی نہتے سویلین کو نہیں مارو ں گا چاہے وہ ہندو ہو، سکھ ہو یا عیسائی۔ سب لوگ ملک کے برابر شہری ہیں۔ ‘

اس نے کہا ’بات سنو، تم مغربی پاکستان سے آئے ہو، میں تمہارے خیالات سمجھتا ہوں لیکن حقیقت اس طرح نہیں۔ ان لوگوں نے ہماری چھاؤنیوں کو گھیرا ڈالا، ہمارا پانی بند کیا۔ اس مسئلے کو ختم کرنے کے لیے ہمیں سختی کرنا ہوگی۔ ڈنڈا چلانا ہو گا۔ فیصلہ ہوا ہے کہ ہم ہندوؤں کو ماریں گے۔ میں نے کہا‘ سر، مجھ سے ایسی کوئی توقع نہ رکھیں۔ مجھے جہاں کہیں گے، چلا جاوں گا، جہاں پھینکیں گے، بیٹھ جاوں گا لیکن مجھ سے ظلم نہیں ہو گا۔ ’
ہندوو ¿ں کو مارنے کے دور رس نتائج برآمد ہوئے۔ کچھ مارے گئے، کچھ کے گھر لوٹے گئے لیکن تقریبا ایک کروڑ ہندو ہجرت کر کے انڈیا چلے گئے اور انہی کی بنیاد پر انڈیا کوعالمی سطح پر بنگلہ دیش کا مقدمہ بنانے کا موقع مل گیا۔ حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ میں بھی لکھا ہے کہ ہندوؤں کو مارنے کی سرکاری پالیسی بنائی گئی تھی۔ یہ فیصلہ کس سطح پر ہوا، اس بارے میں کچھ پتہ نہیں۔
90 کی دہائی میں حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ آنے سے پہلے کی بات ہے، میں نے ایک جرنیل سے کہا کہ ہندووں کو مارنے کا فیصلہ بہت غلط تھا۔ تو وہ کہنے لگا کہ ایسا تو کوئی آرڈر نہیں دیا گیا۔ میں نے کہا سر آپ معائنے کے لیے بنگال آئے تھے۔ میں بھی وہاں کھڑا تھا۔ آپ نے فوجیوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے ایک سپاہی سے پوچھا تھا ’کتنا ہندو مارا ہے؟ ‘ یہ مجھ گناہ گار نے خود سنا ہے۔ لیکن وہ نہیں مانا۔
جب 90 لاکھ ہندو بھاگ کر گئے تو وہ بڑی بڑی گاڑیاں دریا کے اس پار ہی لاوارث چھوڑ گئے۔ میں پرانی ٹیوٹا چلاتا تھا۔ ہم فیری سائیڈ سے کوئی چار پانچ میل دور شہر جا رہے تھے۔ میرے ڈرائیور نے کہا سر آپ کمانڈو ہیں، کوئی مرسیڈیز وغیرہ لے لیں۔ میں نے کہا نہیں میرے لیے یہی گاڑی ٹھیک ہے۔ ایک دفعہ سڑک پر میرے ڈرائیور نے ایک غریب آدمی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’سر وہ ہندو جا رہا ہے‘ ۔ جیسے مجھے شکار کے لیے نایاب پرندہ دکھا رہا ہو۔

فوج میں تربیتی مشقوں کے دوران مورچوں میں چند فوجی بہروپیے ہندوؤں اور سکھوں کا میک اپ کر کے بٹھا دیے جاتے ہیں۔ پاکستانی فوجی اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے ان مورچوں پر دھاوا بولتے ہیں تو یہ اداکار ست سری اکال اور ہائے رام چلاتے ہوئے اپنی دھوتیاں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک جرنیل نے غلطی سے کہہ دیا کہ یہ روایت اب بند کر دینی چاہیے کیونکہ ہم نے دو جنگوں میں دیکھ لیا ہے کہ ہندو بھی اتنا ہی اچھا لڑتے ہیں جیسا ہم۔ اس جرنیل کی ترقی روک دی گئی۔
ایک دفعہ ایک بریگیڈیئر نے مجھ سے کہا کہ ہندوؤں سے ہاتھ نہیں ملانا چاہیے۔ ان سے تو بو آتی ہے۔ میں نے کہا کہ نہانا تو ان کی عبادت کا حصہ ہے، وہ تو شاید ہم سے بھی زیادہ نہاتے ہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم کبھی کسی ہندو سے ملے ہو تو بولا ’نہیں‘۔
ہیرو بننے سے پاگل پن کی دہلیز پر
ڈھاکا میں سوشل لائف کیا تھی۔ دن کو کسی دوسرے شہر جا کر کوئی مشورہ وغیرہ دینا اور شام کو لوٹ آنا۔ شام کو پی اے ایف میس چلے گئے۔ پی آئی اے میس یا ڈھاکا کلب چلے گئے۔ وہاں بنگالیوں کے ساتھ ڈرنک کرنا۔ ہم ڈھاکا انٹرکانٹی نینٹل جاتے تھے تو بال روم ڈانسنگ روک کر اعلان کیا جاتا ’گڈ ایوننگ میجر نادر‘ اور پھر میوزک شروع ہو جاتا۔ رات کو چائنیز کھانا کھایا اور سو گئے۔ زندگی اسی طرح چل رہی تھی کہ آپ کو کوئی پرواہ نہیں کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ میں ایک سن حالت میں تھا۔ بظاہر میں ایک اہم شخصیت بن گیا تھا لیکن حقیقت سے میرا رشتہ کٹ چکا تھا۔ ایک جوان میجر جو بنگال جانے سے پہلے کچھ کچھ اندھا تھا اب مکمل طور پر اندھا ہو چکا تھا۔ اس طرح میری احمقوں کی جنت کی بنیاد پڑی اور ساتھ ساتھ میرے پاگل پن کی بھی۔
اس دوران مجھ سے کہا گیا کہ میں واپس مغربی پاکستان جاو ¿ں تاکہ میری کرنل کے عہدے پر ترقی ہو سکے۔ میں واپس نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ میں ڈھاکا میں انتہائی اہم شخص بن چکا تھا اور اپنے اس ہیرو جیسے کردار کو انجوائے کر رہا تھا اور مزے کی بات یہ ہے کہ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اصل میں اتنی مزاحمت یا خطرہ نہیں ہے جتنا بڑھا چڑھا کر بیا ن کیا جا رہا ہے۔ بعد میں جو میرا بریک ڈاؤن ہوا اس کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ میرے جیسے غریب بندے کو ایک دم اتنی لفٹ مل جائے تو یہ کسی بھی انسان کو پاگل کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
جنگ کیسے لڑی گئی؟
سوال یہ ہے کہ کیا مشرقی پاکستان کو بچایا جا سکتا تھا؟ بالکل بچایا جا سکتا تھا۔ اگر سارا ایکشن اپریل میں بند کر دیا جاتا تو ایک موقع تھا۔ عوامی لیگ کے ابھی بھی بہت سے ایم این اے تھے جن کو منایا جاسکتا تھا۔ لیکن یہ صورتحال تو بدستور چلتی ہی گئی حتیٰ کہ دسمبر آگیا۔
جب کسی فوج کا یہ کردار بن جائے کہ لوگوں کی زندگی اور موت اس کے اختیار میں ہو اور اسے من مانی کرنے کی آزادی ہو تو وہ فوج آہستہ آہستہ اخلاقی طور پر تباہ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ہمیں اس وقت ہی نظر آرہا تھا کہ جنگ ہوئی تو یہ لوگ لڑ نہیں سکیں گے۔
فوج پورے علاقے میں چھوٹے چھوٹے دستوں میں بٹی ہوئی تھی۔ عام خیال یہ تھا کہ کسی ایک جگہ پر قبضہ کرکے اعلان کر دیا جائے کہ یہ بنگلہ دیش ہے اور متوازی حکومت بنائی جائے گی۔ یہ امکان تو کسی کے خیال میں بھی نہیں تھا کہ اگر حملہ ہوا تو کیا کریں گے۔
نیازی صاحب نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ حالانکہ ادھر اتنے دریا ہیں کہ اگر کوئی کسی کو روکنا چاہے تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ لیکن آپ دیکھیں کہ وہاں ہمارے کسی بندے نے مزاحمت نہیں کی اور نہ ہی بھاگنے کی کوشش کی۔ سوائے دو ہیلی کاپٹروں کے جو اڑ کر برما پہنچ گئے اور پھر مغربی پاکستان واپس آئے۔ ان ہیلی کاپٹروں میں کچھ زخمی، کچھ نرسیں اور ایک جرنیل صاحب بھی شامل تھے جو بظاہر زخمی تھے۔ لوگوں نے ان پر بہت لعن طعن بھی کی۔ کیونکہ یہ بات پھیل گئی کہ کسی شخص کو ہیلی کاپٹر سے اتار کر جرنیل صاحب کو سوار کیا گیا تھا۔
ہندوستان آرمی ہماری ایک پوری ڈویثرن بائی پاس کرگئی۔ ان جرنیل صاحب کے پاس تین بٹالین تھیں لیکن انہوں نے انہوں نے کسی ایکشن میں حصہ نہیں لیا۔ اس لیے ان کو خراش تک نہیں آئی۔ ڈھاکا پر انڈین آرمی کا قبضہ ہونے کے ایک دو دن بعد تک یہ ڈویثرن وہیں بیٹھی رہی۔ نہ تو انہوں نے کسی طرف نکلنے کی کوشش کی اور نہ ہی ہندوستان آرمی پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ اس جرنیل نے ڈھاکا فون کر کے پوچھا۔ ”ہم نے کس کے پاس ہتھیار ڈالنے ہیں“۔ جیسے کوئی جائیداد منتقل کی جا رہی ہو کہ بھائی ہم نے کس کو ہینڈ اوور کرنا ہے۔
لیکن یہ بھی ہے کہ میجر اکرم جیسے فوجیوں نے مزاحمت بھی کی۔ ان کی بٹالین بوگرہ میں بہت دلیری سے لڑی اور میجر اکرم کو نشان حیدر ملا۔ ان کی تعریف انڈین آرمی نے بھی کی۔ لیکن یہ اکادکا واقعات ہیں ورنہ نیازی صاحب نے نہ تو دفاع کا کوئی انتظام کیا تھا اور نہ ہی کوئی پلاننگ۔
بنگال فتح نہ ہو، بنگالن تو فتح ہو سکتی ہے؟
آسام سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ڈاکٹر یاسمین سیکھیا امریکہ میں ہندوستان کی تاریخ پڑھا رہی ہیں۔ حال ہی میں اس نے 71 کی جنگ کے دوران صرف عورتوں کے تجربات پر ریسرچ کی ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ 71 میں دس لاکھ عورتوں کو ریپ کیا گیا۔ لیکن بہت کوشش کے باوجود اس کو ایسی کوئی عورت نہ مل سکی۔ آخر وہ ہائی کورٹ کے اس جج سے ملی جسے ان عورتوں کی بحالی کا انچارج بنایا گیا تھا۔ اس نے کہا کہ ہم پالیسی کے طور پر کسی کا نام نہیں بتاتے تا کہ ان خواتین کے لیے مشکلات پیدا نہ ہوں۔
ڈاکٹر یاسمین نے کہا یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ایسا بین الا اقوامی سانحہ ہوا ہو اور اس کے بارے میں بات کرنے والا کوئی بھی نہ ہو؟ آخر اس نے ایک عورت کو ڈھونڈ ہی لیا۔ اس نے کہا ’ہاں، میری عزت لوٹی گئی تھی‘ ۔ پھر ڈاکٹر یاسمین نے زور دے کر پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ کوئی اس واقعہ کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تواس نے کہا ’کوئی بات کس طرح کرے۔ آج کل یہاں جو ایم این اے ہے وہی تو ان فوجیوں کو اپنے ساتھ لایا تھا جنہوں نے میرے ساتھ یہ حرکت کی تھی‘ ۔
خالدہ ضیا جب پاکستان آئیں تو ان کے ساتھ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیر آئے ہوئے تھے۔ یہاں لاہور میں ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے کہا کہ سنا ہے بنگلہ دیش میں ہندوستان کے خلاًف شدید جذبات کی وجہ سے فوج میں بھی پاکستان کی حمایت بڑھ گئی ہے۔ کچھ وقفے کے بعد وہ بولے لیکن میں کس طرح پاکستان کا حامی ہو سکتا ہوں۔ میری کہانی تو تمھیں یاد ہو گی۔ اس بریگیڈیر کی بہن پاکستان آرمی کی واحد بنگالی لیڈی ڈاکٹر تھی۔ مغربی پاکستان کے فوجیوں نے اس کو جیسور میں ریپ کیا اور پھر قتل کردیا۔ وہ بریگیڈیر کہنے لگا ”اس زخم کی یاد تو دن رات ہمارے خاندان کے ساتھ ہوتی ہے۔ ہمارے لیے تو جنگ ابھی تک جاری ہے۔ 
مجیب الرحمٰن کو کیسے گرفتار کیا گیا؟
اب مجیب الرحمٰن کی کہانی سن لیں۔ 25 مارچ کی رات میری ہی بٹالین کے بندے مجیب الرحمٰن کو گرفتار کرنے گئے۔ میں اس وقت مغربی پاکستان ہی میں تھا۔ بٹالین کے کمانڈنگ افسر کرنل زیڈ اے خان تھے۔ ’بانگلہ بندھو‘ کا گھر مزاحمت کاروں کی حفاظت میں تھا۔ جب اتنی طاقتور فورس مشین گن کا فائر کرتے ہوئے وہاں پہنچی تو تمام گارڈ اور مزاحمت کار بھاگ گئے۔ زیڈ اے خان نے مجھے بتایا کہ میں نے مجیب الرحمٰن کو سیلوٹ کیا اور کہا ’سر مجھے آپ کی گرفتاری کے آرڈر ہیں‘ ۔ مجیب الرحمٰن نے کچھ مہلت مانگی اور اپنا بکس وغیرہ پیک کیا۔ پھر سب لوگ جب سیڑھیاں اتر رہے تھے تو کرنل زیڈ اے خان آگے تھے، ان کے پیچھے مجیب الرحمٰن اور سب سے پیچھے دو سپاہی تھے۔ ان میں سے ایک سپاہی نے مجیب الرحمٰن کو تھپڑ دے مارا۔
کرنل زیڈ اے خان نے مجیب الرحمٰن کووہ پروٹوکول دیا جو ایک پڑھا لکھا مہذب انسان پاکستان کی قومی اسمبلی کے ایک رکن کو گرفتار کرتے وقت دے گا۔ لیکن وہ سپاہی ایک اور سطح پر تھا۔ اسے اس آدمی پر بہت غصہ تھا جو اس کے خیال میں ساری شرارت کی جڑ تھا۔
کرنل زیڈ اے خان نے بتایا کہ شام تک مجیب الرحمٰن ہمارے پاس رہا پھر ہم نے اسے ہینڈ اوور کر دیا اور اسی رات اسے مغربی پاکستان بھیج دیا گیا۔ لیکن اس وقت تک وہ اتنا خوف زدہ ہو چکا تھا کہ اس سے کوئی بھی بات کرتا تو وہ چونک کر اپنے چہرے کے آگے ہاتھ کر لیتا۔
بہت سال بیت گئے۔ کرنل زیڈ اے خان بریگیڈئیر بنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد 71 کی جنگ پر کتاب بھی لکھی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک سینئر جنرل نے ان سے پوچھا ’تم نے اس کو مارا کیوں نہیں؟ ‘ تو میں نے جواب دیا ’سر مجھے ایسا کوئی آرڈر نہیں دیا گیا اور نہ ہی آپ ایسی کوئی توقع رکھیں کہ میں ایسا آرڈر پورا کرتا‘ ۔ اس پر جنرل بولا ’تم عجیب بیوقوف ہو۔ کیا ہم اس کو اس وقت مار سکتے تھے جب ساری د نیا کو پتہ چل چکا تھا کہ ہم نے اس کو حراست میں لے لیا ہے؟ تمھارے پاس اس حرامزادے کو مارنے کا س نہری موقع تھا‘ ۔ زیڈ اے خان کہنے لگے کہ میں اپنے سپاہی کو ب را بھلا کہ رہا تھا کہ اس نے تھپڑ کیوں مارا اور ادھر یہ حال ہے۔
ایک گولی کتنے بنگالیوں میں سے گزرتی ہے؟
کومیلا میں اے پی پی کانمائندہ ٹونی میسکیریناس تھا۔ کومیلا ہمارا ڈویڑنل ہیڈکوارٹر تھا جہاں جنرل شوکت رضا تعینات تھے۔ جنرل شوکت رضا واحد آدمی تھے جو پورے ایکشن سے الگ تھلگ رہے۔ جنرل شوکت رضا میرے پرانے انسٹرکٹر تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ یہ جو بھی ہو رہا ہے ان لوگوں کو کوئی سمجھ نہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ کرنل بیگ ان کاسٹاف افسرتھا۔ کرنل بیگ سے بات چیت ہوئی تو اس نے کہا میں نے تو گلاب کے پھول لگائے ہوئے ہیں۔ بس ان کو دیکھتا رہتا ہوں۔ ٹونی میسکیریناس بھی وہیں کہیں ان کے پاس تھا۔ وہ ادھر سے بھاگ کر براستہ کلکتہ، لندن پہنچ گیا۔ وہاں جا کر اس نے اپنی کہانی ٹائمز آف لندن کو بیچی۔ اس میں کہا گیا کہ کرنل بیگ لوگوں کو اپنے پھول وغیرہ دکھاتا ہے لیکن اس کا سگنل افسر روایت کرتا ہے کہ ’میں تجربہ کر رہا تھا کہ اگر بنگالی ایک قطار میں کھڑے کیے جائیں توکتنے بنگالیوں میں سے گولی گزرتی ہے۔ میں نے آٹھ بندے ایک لائن میں کھڑے کروا کر ایم ون بندوق سے فائر کیا تو گولی آٹھوں میں سے گزرگئی‘ ۔ ہم سب کو ٹونی میسکیریناس کی کہانی کی فوٹو کاپی بانٹی گئی اور ساتھ میں آرڈر آیا کہ صحافیوں سے غیر ضروری باتیں نہ کی جائیں
محب وطن حلقوں کے تعاون کی حقیقت
وہاں ہندوؤں کی جتنی جائیداد تھی، لوٹ لی گئی۔ پھر یہ سلسلہ شروع ہوا کہ مقامی مسلم لیگ یا جماعت اسلامی والے ہمارے پاس آ کر کہتے کہ فلاں پراپرٹی ہمیں الاٹ کر دو۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب فوج کا کسی جگہ پر قبضہ ہو جائے خاص طور پر اگرکوئی خاص مزاحمت بھی نہ ہو تو اس کے حمایتی بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً جماعت اسلامی والے میرے پاس آتے تھے پروفیسر غلام اعظم وغیرہ۔ وہ مجھے سویلین رضاکار دیتے تھے جن سے میں نے انڈین بارڈر کے پار کئی سبوتاژ آپریشن کروائے۔ لیکن رضاکار دینے کے بعد ان کی کوئی نہ کوئی سفارش بھی ہوتی تھی کہ فلاں بندے کی دوکان ہمیں دے دی جائے یا ہمارے فلاں بندے کا خیال رکھا جائے۔
ایسے مقبول عوامی لیڈر بھی تھے مثلاً فضل القادر چوہدری یا مولانا فرید احمد وغیرہ۔ یہ لوگ ہمارے پاس آ کر کہتے تھے کہ فلاں بندے کو مار دو یا فلاں بندے کے ساتھ یہ کر دو۔
تصویر کے دونوں رخ یکساں سیاہ ہیں
ہماری بٹالین کا ہیڈ کوارٹر ڈھاکا میں تھا۔ اس کے علاوہ کچھ حصے کومیلا اور رنگا متی میں بھی تھے جہاں کا میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھا۔ اس کے علاوہ مختلف نوعیت کے مشن ہوتے تھے۔ کہیں سرحد پار ایکشن کی پلاننگ کرنی ہوتی تھی تو کہیں پر کمانڈوز کی ضرورت ہوتی تھی۔ میرے اپنے ہاتھوں سے کسی بے گناہ کو تکلیف نہیں پہنچی لیکن میں جہاں جاتا، وہاں کسی نہ کسی سانحہ کی کہانی آپ کے لیے تیار کھڑی ہوتی۔ جیسے میں سنتہار پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ آپ کے آنے سے پہلے اس شہر کے ہر آدمی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ خیر اس طرح کی کہانیوں نے مجھ میں احساس جرم شدید کر دیا۔ میں کسی گاو ¿ں وغیرہ جاتا تو وہاں کے انتہائی غریب لوگ فوج سے دب کر بیٹھے ہوتے۔
جب میں شمالی بنگال پہنچا تو مجھے ٹھاکر گنج کے مختلف واقعات سنائے گئے۔ یہ ایسٹ پاکستان رائفلز کا علاقہ تھا۔ جب رات کو میرے لیے کھانا لایا گیا تو معلوم ہوا کہ اس گھر میں مغربی پاکستانی میجر محمد حسین رہتے تھے۔ میجر محمدحسین اور ان کے اہل خانہ کو بنگالی سپاہیوں نے مار دیا تھا۔ ان کے خاندان کی صرف ایک بچی زندہ بچ سکی تھی۔ اور میں اس بچی سے ڈھاکا میں ملا۔ وہ بچی بول نہیں سکتی تھی۔ جب مجھے یہ کہانی سنائی گئی تو مجھے جگہ جگہ اس واقعے کے آثار دکھائی دینے لگے۔ گھر میں کئی جگہ خون کے دھبے تھے۔ باتھ روم میں گیا تو وہاں کھڑکیوں میں گولیوں سے بچاو ¿ کے لیے تکیے ٹھنسے تھے۔ بچوں کی کتابیں، کھلونے اور جوتیاں ہر جگہ بکھری ہوئی تھیں۔ سارا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھومنا شروع ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے احساس جرم بھی تھا کہ میں یہاں آیا کیوں؟ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ جس وقت میں بطور ہیرو اپنی پرستش سے لطف اندوز ہو رہا تھا، اس وقت میرے آس پاس لوگ مارے جارہے تھے۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی لگتا تھا کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔ میری توجہ محدود ہوکر بس سرحد پار ایکشن تک ہی رہ گئی تھی۔ کسی قسم کے حملے یا جنرل نیازی کے منصوبوں کے بارے میں تو کبھی سوچا نہ تھا۔

ب لوٹ کے آئے ہو تو گھر کیسا لگا ہے؟
اب میں بٹالین سے فارغ ہوا تو میرے الوداعی ڈنر شروع ہو گئے۔ مجھے جنرل نیازی نے بھی گھر بلایا۔ اس دوران میں نے بہت زیادہ شراب پینا شروع کردی اور آہستہ آہستہ مجھ پر اجاگر ہونا شروع ہوا کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے؟
اس دوران مجھے مغربی پاکستان سے ایک فوجی دوست کا خط ملا جس میں اس نے مشرقی پاکستان میں کسی بائیں بازو کی جماعت سے رابطہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اگلی صبح میری فلاًئیٹ تھی تو انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں ڈرنک کرنے کے بعد مجھے ایک پیغام موصول ہوا کہ فلاًں نمبر کمرے میں آپ کو کوئی ملنا چاہتا ہے۔ تو مجھے لگا کہ شاید یہ بائیں بازو کی جماعت کی طرف سے کوئی پیغام ہے۔ مجھے اپنا دماغ حقیقت سے کٹا ہوا محسوس ہونا شروع ہوگیا۔ اگلی صبح جہاز میں بھی میں اس کیفیت میں ڈوبتا ابھرتا رہا۔ میرے ذہن میں ایک ایسی کہانی نے جنم لینا شروع کیا جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں تھا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ میں عام انسانوں کا مسیحا ہوں۔ ان کو ظلم سے نجات دلانے والا ہوں اور میرے خلاف کچھ لوگ سازش کر رہے ہیں۔ جب میں کراچی لینڈ کیا تو کچھ لمحوں کے لیے میں اس کیفیت سے نکل آیا اور میں نے اپنے آپ کو کہا کہ تم یہ کیا بکواس سوچ رہے تھے۔ لیکن لاہور پہنچتے تک میں واپس اسی خیالی د نیا میں جا چکا تھا۔ یہاں ایک اور بات کہنی ضروری ہے کہ میرے اس ذ ہنی کیفیت میں واپس جانے کی وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان میں کسی کو خبر تک نہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں کیا ظلم اور بربادی ہو رہی ہے۔ کراچی شہر ویسے ہی رواں دواں تھا۔ لا ہور میں ہم جم خانہ جا کر ڈرنک کرتے تھے اور وہاں سلہری صاحب قائداعظم اور نظریہ پاکستان کے کسی باریک نکتے پر لیکچر دے رہے ہوتے۔ پورا ملک اصل حقیقت سے بے خبر روزمرہ کے معمول پر چل رہا تھا۔ یہاں مجھے ایک انکوئری پر بٹھا دیا گیا جس میں ڈیڑھ کروڑ کا گھٹیا صابن خریدے جانے کی تفتیش کرنی تھی۔ اب آپ خود سوچیں کہ میں ایک جنگی کیفیت میں سے اٹھ کر ایک ایسی جگہ پر آ گیا ہوں جہاں پر لوگ اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہیں اور ان سے اگر مشرقی پاکستان کی بات کرو تو وہ کہتے ہیں کہ چھوڑیں جی کوئی اور بات کریں۔ اب میں نے اور زیادہ شراب پینا شروع کر دی۔
فرزانہ وہی ٹھہرا جو پاگل ہو گیا
میں دن میں کم از کم ایک بوتل پی جاتا۔ میں نے کھانا بھی چھوڑ دیا۔ اب میری حالت اور بدتر ہونا شروع ہو گئی اور میں آہستہ آہستہ دیوانگی کی حدود میں داخل ہوگیا۔ مجھے لگتا تھا کہ میں ہی دنیا کا اہم ترین انسان ہوں جس نے پوری دنیا کو بچانا ہے۔ میں اپنی خیالی دنیا ہی میں رہتا تھا۔ میری جو دفتری خط و کتابت ہوتی تھی اس میں مجھے خفیہ پیغام نظر آنا شروع ہو گئے۔ مجھے لگتا تھا کہ ٹی وی اور ریڈیو مجھ سے مخاطب ہیں۔ پوری دنیا مجھ سے مخاطب ہے۔ تو اس طرح میں نے دو سال دنیا پر حکومت کرکے دیکھا۔ یہ میری بیوی اور بچوں کے لیے انتہا ئی تکلیف دہ وقت تھا۔ لیکن کیونکہ میں فطرتا تشدد کو پسند نہیں کرتا تھا اس لیے میری یہ کیفیت لوگوں پر ظاہر نہ ہوئی۔ بچوں کے ساتھ میں با لکل ٹھیک تھا اور پیار کرتا تھا لیکن آہستہ آہستہ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا گیا کیونکہ مجھے اپنے خیالی ساتھیوں سے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا جب کہ میرے خیال میں آدھی دنیا میرے ساتھ تھی۔ میں اپنی ٹو ٹو رائفل لے کر روسی سفارتخا نے کے باہر چلاً گیا جہاں باہر بیٹھے ایک کوے کو میں نے فائر کرکے مار دیا۔ یہ میرا خفیہ سگنل تھا کہ چلو باہر نکلو اور پیپلز ری پبلک کا اعلان کرو۔ لیکن انھوں نے بھی اس پاگل پر کوئی توجہ نہیں دی۔ بالآخر مجھے ہسپتال لے جایا گیا۔ میں ہسپتال میں تقریبا چار مہینے رہا۔ اس طرح کے حالات میں آپ کا عہدہ واپس لے لیا جاتا ہے لیکن انہوں نے اس طرح نہیں کیا اور میں کرنل ہی رہا۔ پھر جب ہوش آیا تو یاد آیا کہ میں نے کس طرح خیالی چیزوں کا تصور کرنا شروع کیا تھا۔ پھر مجھے وہ خط بھی یاد آیا جو مجھے ڈھاکا کے انٹر کا نٹی نینٹل میں مجھے ملا تھا۔ وہ کال اور مایا کا جو گھیرا تھا وہ مجھے نظر آنا شروع ہوگیا۔ ڈاکٹر کو میں نے کہانی سنائی تو اس نے کہا کہ میں نے کبھی ایسا مریض نہیں دیکھا جس کو کہانی کا پتہ بھی ہے اور پھر بھی وہ پاگل ہو گیا۔ میں نے کہا کہ مجھے وہ کہانی تو اب یاد آئی ہے۔
گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے
اس دوران میرے ساتھ ایک سانحہ یہ ہوا کہ میرے والد مجھے دیکھنے ہسپتال آئے تو میری حالت بہت خراب تھی۔ میں اپنی یادداشت کھو چکا تھا اور میرا منہ کھلا رہتا تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ گاؤں گئے۔ رات کو سونے لیٹے اور پھر کبھی نہ اٹھے۔ مجھے ڈاکٹر نے کہا کہ تم اپنی ایک نئی سویلین زندگی شروع کرو۔ فوج میں تو کوئی تمھیں ترقی نہیں دے گا۔ سو میں نے ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس کے بعد بھی میں کافی عرصے تک دیوانگی کی سرحد کے آس پاس ہی رہتا تھا لیکن کچھ اچھے لوگوں کا ساتھ مل گیا جن کی وجہ سے میں بچا رہا۔ میں نے اپنے ذہنی انتشار کے بارے میں بہت سوچا اور مجھے یہی سمجھ آیا کہ یہ کسی احساس جرم کا نتیجہ تھا۔ اب میں پنجابی میں کہانیاں اور نظمیں لکھتا ہوں جن میں غیر شعوری طور پر بنگال کے تجربات اور واقعات کا ذکر ہوتا ہے۔ واپس بنگلہ دیش جانے کا بھی سوچتا ہوں۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے؟