سقوط ڈھاکہ ہماری قومی تاریخ کا ایسا المیہ ہے کہ جس نے قومی نفسیات پر گہرے نقوش ثبت کیے ہیں اور اس نفسیاتی کیفیت میں یہ تصور بہت مضبوطی سے جڑ پکڑ چکا ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان درحقیقت مغربی پاکستان یا موجودہ پاکستان کی جانب سے مشرقی بازو کے ساتھ روا رکھی جانے والی بے انصافی کا ایک فطری نتیجہ تھا۔ بنگالیوں کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ فوجی اور سول ملازمتوں میں اور اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اداروں میں ان کی موجودگی کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔
پھر وہاں پر فوجی آپریشن کے ذریعے اتنا ظلم روا رکھا گیا کہ بنگالیوں کے پاس سوائے اس طرح جدا ہونے کے اور کوئی راہ موجود ہی نہ تھی۔ اور سارے بنگالی پاکستان کے خلاف ہو چکے تھے یہ مختصر مضمون تفصیل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اختصاراً ان الزامات کی حقیقت کو بیان کرتا چلوں۔ بنگالیوں کے ساتھ کیسا رویہ تھا اس کو سمجھنے کے لئے کرنل شریف الحق دالیم جو بطور میجر پاکستان سے بھاگ کر انڈیا چلے گئے تھے اور واحد شخص تھے کہ جس کی سیاسی پناہ پر اندرا گاندھی نے خود دستخط کیے تھے۔
کرنل دالیم نے بیان کیا ہے کہ جب وہ ان کے ٹرانسفر آرڈر آ چکے تھے اور وہ اس کی ذیل میں فرار کا منصوبہ بنا چکے تو ان کے ساتھی اس بات سے بے خبر کہ یہ انڈیا فرار ہونے والا ہے ان کو ایئر پورٹ تک چھوڑنے آئے اور جہاز تک اپنے کندھوں پر بٹھا کر یہ نعرے مارتے ہوئے چھوڑا کہ For he was a jolly good fellow خیال رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہو چکا تھا۔ مگر فوجی اپنے ایک بنگالی کے لئے ایسے جذبات کا اظہار کر رہے تھے کیا اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد کہیں سے کسی اجتماعی نفرت کی بو محسوس ہوتی ہے؟
یہ میجر صاحب شیخ مجیب سے خاندانی مراسم رکھنے والے تھے اور مشرقی پاکستان کے سانحہ تک پاکستان سے لڑتے رہے مگر پھر جو شیخ مجیب کے دور میں ان کے ساتھ ہوا اس کا مختصراً ذکر ذرا آگے چل کر کرتا ہوں۔ نسل کشی کی حقیقت اس سے لگائی جا سکتی ہے کہ 30 لاکھ بنگالیوں کے قتل کا الزام عائد کیا جاتا ہے جبکہ مشرقی پاکستان کی آبادی اس وقت ساڑھے سات کروڑ تھی۔ اس وقت پاکستان کی 35 ہزار باقاعدہ فوج جبکہ پولیس اورنیم فوجی دستوں کے 10 ہزار جوان وہاں موجود تھے۔
اگر ان قتل کی اعداد و شمار کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ روزانہ 11,111 افراد قتل کیے۔ یعنی اگر کسی محلے میں ایک ہزار افراد موجود تھے تو 40 افراد مار ڈالے گئے۔ اگر ایک محلہ بھی اس قتل و غارت گلی سے محفوظ رہا تو ایسی صورت میں اگلے محلے میں 80 افراد قتل ہوئے۔ اس حساب سے تو ادھر محلے کے محلے اور گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ جانے چاہیے تھے۔ مگر کیا ایسی تباہی کے کوئی آثاراس وقت سے آج تک ”دریافت“ ہوئے جواب نفی میں آئے گا۔
اگر فوج نیم فوج اور پولیس کے جوان یہی کر رہے تھے تو پھر بھارت کے ساتھ طویل سرحدوں کی حفاظت اور امن و امان پر کون کام کر رہا تھا۔ انہیں حقائق پر ذرا عصمت دری کے الزامات کو پرکھیئے صاف محسوس ہو گا کہ سوائے جھوٹ اور پروپیگنڈے کے ان الزامات میں کوئی حقیقت نہیں۔ فوج میں 1947ء میں ایک فیصد بنگالی تھے مگر سنہ 1965 تک یہ معاملات اتنے بہتر ہو چکے تھے کہ فضائیہ میں 16 فیصد، بحریہ میں 15 فیصد جبکہ بری فوج میں 6 فیصد ہو چکی تھی۔
کسی بھی ادارے میں ایک نظم سے ہی تعداد بڑھائی جا سکتی ہے جو بڑھائی جا رہی تھی۔ سنہ 1971 کی جنگ تک یہ حالت تھی کہ اس سے قبل لیفٹیننٹ جنرل واسع الدین لاہور اور ملتان کے کور کمانڈر رہے۔ جنگ کے دوران وہ جی ایچ کیو میں ماسٹر جنرل آرڈیننس کے عہدے پر فائز رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل واسیع الدین قائد اعظم کے بعد بننے والے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین جو لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزیر اعظم کے منصب پر آ گئے تھے کہ سگے بھتیجے اور سابق صوبہ سرحد حال خیبر پختونخواہ کے پاکستان بننے کے بعد بنگالی گورنر خواجہ شہاب الدین کے صاحبزادے تھے۔
یہ نواب آف ڈھاکہ کا خاندان تھا۔ برسبیل تذکرہ بیان کرتا چلوں کہ پاکستان بننے کے بعد بنگالی اشفاق الماجد کو میجر جنرل کے عہدے پر فوری ترقی دے دی گئی تھی اور وہ مقامی افسران میں سب سے سینئر افسر تھے۔ خواجہ ناظم الدین کی وزارت عظمیٰ سے علیحدہ کیے جانے کے بعد بنگال ہی کے نواب آف بوگرہ کے خاندان کے محمد علی بوگرہ وزیر اعظم پاکستان کے منصب پر فائز ہوئے۔ جبکہ اسی دوران نواب آف بنگال جو بعد میں نواب آف مرشد آباد کہلاتے تھے کے خاندان کے چشم و چراغ سکندر مرزا، گورنر جنرل اور صدر کے مناصب پر فائز رہے۔
بنگالی حسین شہید سہروردی بھی وزیر اعظم کے منصب تک پہنچ گئے تھے۔ یاد رہے یہ بنگالی مکمل با اختیار، اقتدار کے مالک تھے بلکہ سکندر مرزا تو پورے پاکستان میں پیادے آگے پیچھے کرنے میں آج تک معروف ہے۔ عدالت سول اور پولیس میں بھی بنگالی ہر جگہ موجود تھے بلکہ سنہ 1971 کے وقت تو چیف جسٹس پاکستان جسٹس حمود الرحمن بنگالی ہی تھے۔ جو سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بھی اسی منصب پر فائز رہے۔ اب سانحہ ہو گیا مشرقی بازو ہم سے جدا ہو گیا۔
پھر شیخ مجیب نے ”اپنے لوگوں“ کے ساتھ کتنی جمہوریت دکھائی اس کی جھلکیاں بھی بیان کرتا چلوں۔ شیخ مجیب جب بنگلا دیش میں اقتدار میں آ گئے تو انہوں نے ناصرف کے ان لوگوں کو قتل کروانا شروع کر دیا جو پاکستان کے حامی تھے بلکہ پاکستان سے لڑنے والے ان بنگالیوں کو بھی دوسرے جہاں پہنچانا شروع کر دیا جو ان سے اختلاف کی جرات کر رہے تھے۔ سراج شیکدار ایک لیفٹسٹ رہنما تھے جنہوں نے پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد میں بھر پور حصہ لیا تھا۔
بعد میں انہوں نے اپنی ایک علیحدہ جماعت قائم کر لی اور اپنے نظریات کا پرچار شروع کر دیا۔ تیزی سے مقبولیت لینے لگے۔ نتیجتاً ایک دن شیخ مجیب نے جے آر بی (جاتیو راکھی باہنی) سے اسے اٹھوایا۔ اپنے ساتھ تشدد کروایا اور پھر رات گیارہ بجے مقابلے میں ہلاک کروا دیا۔ اور پھر پارلیمنٹ میں اقتدار کے نشے میں چور ہو کر کہا ”سراج شیکدار اب کہاں ہیں“ یہ صرف ایک تنہا واقعہ نہیں بلکہ ہزاروں ایسے واقعات جہانگیر خان سٹی سٹوڈنٹس یونین کا جنرل سیکرٹری اور ان گنت واقعات، کرنل شریف الحق کا ابتداء میں ذکر کیا۔
غازی جو شیخ مجیب کا قریبی ساتھی اور اعلیٰ عہدے پر تھا اس نے بھری تقریب سے کرنل شریف الحق اور ان کی اہلیہ کو اٹھا لیا۔ جب فوج کے علم میں یہ بات آئی تو وہ ڈھاکہ میں نکل کھڑی ہوئی پھر شیخ مجیب نے مداخلت کی اور وزیر اعظم ہاؤس بلا کر معاملے کو ٹھنڈا کیا۔ 11 نومبر 1973ء کو شیخ مجیب نے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جو رات کے اندھیرے میں عام معصوم لوگوں کو قتل، سیاسی کارکنوں اور لوگوں کو قتل کر رہے ہیں ان میں اور ڈاکوؤں میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔
اگر یہ معصوم افراد کو قتل کر سکتے ہیں تو پھر ہمیں بھی ان کو مار ڈالنے کا حق ہے۔ اسی دن اس کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین نیشنل عوامی پارٹی مولانا بھاشانی نے کہا کہ جس طریقے سے حکومت مخالف جماعتوں کے کارکنوں کو جسمانی طور پر ختم کر رہی ہے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ملک میں آئینی سیاست کا عمل بہت جلد اختتام کو پہنچنے والا ہے۔ سپیشل پاورز ایکٹ کے تحت سینکڑوں صحافیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اخبارات کو قومیا لیا گیا جب اس پر بھی دال نہ گلی تو فروری 1975 میں تمام اخبارات کو بند کر دیا گیا۔
فروری سنہ 1975 میں ہی شیخ مجیب نے یک جماعتی نظام حکومت قائم کر دیا۔ جماعت کا نام بکسال رکھا۔ جس کے سربراہ وہ خود تھے۔ باقی تمام جماعتیں کالعدم قرار دے دیں۔ عدلیہ میں تمام ججوں کی تعیناتی اور برخاستگی کے اختیارات سنبھال لیے۔ لہٰذا پارلیمانی، صحافتی، عدالتی اور سیاسی آزادیاں مکمل طور پر ختم کر دی اور پھر اپنے آپ کو بنگلا دیش کا تاحیات صدر مقرر کرنے کی تیاریاں کرنے لگے۔ یعنی بادشاہ مگر تنگ آئے بنگالیوں نے ان کا باب حیات ہی بند کر ڈالا۔
اب آخری سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا تمام بنگالی پاکستان کے خلاف ہو چکے تھے۔ اس کا جواب شیخ مجیب کے بعد کرائے کے پہلے انتخابات سنہ 1979 میں مل جاتا ہے۔ شاہ عزیز الرحمن بنگلا دیش کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ وہی شاہ عزیز الرحمن جو نومبر سنہ 1971 میں اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کر رہے تھے اور ثابت کر رہے تھے کہ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے دوران قتل عام کی کہانیاں صرف جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد سنہ 1973 تک گرفتار رہے۔
سنہ 1976 میں جب بنگلا دیش میں جب مسلم لیگ پر پابندی ختم ہوئی تو اس میں شامل ہو گئے۔ اور بعد میں بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کی طرف سے جنرل ارشاد کی فوجی بغاوت تک بنگلادیش کے وزیر اعظم رہے۔ ایک ایسا شخص جو سقوط مشرقی پاکستان تک پاکستان کا حامی رہا۔ پھر اسی جرم میں بعد میں قید ہوا۔ اور جنرل ایمنسٹی کے نتیجے میں رہا ہوا۔ صرف چند سالوں میں بنگلادیش کا وزیر اعظم بن گیا۔ اگر مشرقی پاکستان میں پاکستان کی ویسی مخالفت تھی تو ایک ایسا شخص صرف چند سالوں میں وزیر اعظم کے منصب تک کیسے پہنچ گیا۔
حقائق روشن ہوتے ہیں لیکن وہ نہیں دیکھ سکتے جو اندھے ہوں۔ آخری بات جب یہ کچھ ایسا ہی تھا تو اتنا بڑا سانحہ کیونکر رونما ہو گیا۔ جواب آمریت، آمریت اور آمریت۔ چاہے وہ کھلی ہو۔ یا پردے میں قیمت قوم اور فوج دونوں کو چکانا پڑتی ہے۔ ورنہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاستدان سنہ 1956 کے آئین پر متفق ہو کر اس کو بنا چکے تھے۔ مگر آمریت آ گئی۔