گزشتہ روز ایک محفل میں باتوں باتوں میں ایک دوست یہ کہہ گئے کہ بی بی سی اردو سروس کا پروگرام سیربین بند ہونے جا رہا ہے۔ شاید یہ خبر دوستوں کے لیے انہونی نہیں تھی مگر یہ خبر سن کر ذہن کو دھچکا سا لگا۔ بے اختیار زبان سے نکل آیا ”کیا؟ “ دوست میری طرف متوجہ ہوئے ”کیا ہوا بھائی! انتقال کی خبر تھوڑی سنا دی کہ اس پر ملال ہوا جائے۔ “ میرے لیے یہ ملال کی خبر ہو نہ ہو مگر میں جانتا ہوں کہ بلوچستان کے کونے کونے میں بسنے والے ان افراد کے لیے یہ ملال والی بات ضرور ہوگی جن کے لیے خبروں کا واحد وسیلہ تاحال بی بی سی اردو سروس کا پروگرام سیربین ہی ہے۔ انٹرنیٹ کی نعمت سے محروم بلوچستان کے باسی دن بھر کی محنت مشقت سے فراغت پا کر سونے سے پہلے جب ریڈیو سے کان لگاتے ہیں تو انہیں بی بی سی اردو سروس کے پروگرام سیربین کی آواز ضرور سنائی دیتی ہے۔ اب اگر اسی آواز سے ان کے سماعت محروم ہو جائیں تو بھلا کیا ہوگا۔
بلوچستان جو اس وقت انٹرنیٹ جیسی نعمت سے محروم ہے خبری ذرائع کے لیے لوگ آج بھی سیربین کا سہارا لیتے ہیں۔ بی بی سی اردو سروس جو کسی زمانے میں تین ٹائم اردو سروسز کے پروگرام جاری کیا کرتا تھا۔ جن میں سیربین، جہاں نما اور شب نامہ شامل تھے صبح 06 : 30 بجے کا پروگرام جہاں نما اور رات 10 : 00 بجے کا پروگرام شب نامہ یکے بعد دیگرے یہ کہہ کر بند کر دیے گئے کہ سامعین کی ایک بڑی تعداد انٹرنیٹ سے جڑ گئی ہے۔ بی بی سی کا ریڈیو سروس انٹرنیٹ پر منتقل ہو گیا۔
وہ لوگ جو معلومات اور خبروں کے حصول کے لیے ریڈیو سے جڑے ہوئے تھے سامعین سے قارئین بن گئے۔ خبری ذرائع کے لیے ویب سائیٹ کا سہارا لیا جانے لگا۔ گوکہ پوری دنیا انٹرنیٹ سے جڑ گئی مگر بلوچستان کی نوے فیصد آبادی تاحال سیکورٹی کو بنیاد بنا کر انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہے۔ ان کے لیے بی بی سی کے تینوں پروگرام معنویت رکھتے تھے دونوں پروگراموں کی بندش سے وہ لوگ دو وقت کی خبری ذرائع سے محروم ہو گئے۔ دونوں پروگراموں کی بندش سے یوں سمجھ لیں کہ بلوچستان کے وہ باسی جو تین وقت کا کھانا کھانے کے عادی تھے دو وقت کے کھانے سے محروم ہوگئے۔ مگر سیربین کا پروگرام خبروں کا سب سے بڑا وسیلہ بنا رہا موجودہ سال سیربین کا دورانیہ گھٹا کر نصف کر دیا گیا جو اس سے پہلے ایک گھنٹے کا ہوا کرتا تھا۔ خبریں گردش میں ہیں کہ پروگراموں کے دورانیے میں کمی یا ان کو ختم کرنے کو بنیادی جواز بی بی سی کے لائسنس میں کٹ لگنا فراہم کر گیا ہے۔
بی بی سی ریڈیو سروس کا باقاعدہ قیام سن 1927 کو عمل میں لایا گیا۔ نشریات کا آغاز انگریزی زبان میں ہوا بعد میں مختلف زبانوں میں نشریات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ دس منٹ کی بلیٹن ”ہندوستانی سروس“ کا آغاز 1940 کو ہوا جسے ذوالفقار علی بخاری نے پیش کیا۔ تقسیم ہند کے بعد یہ سروس دو حصوں میں تقسیم ہو کر پاکستانی سروس اور انڈین سروس بن گیا۔ 17 سال بعد 1966 کو پاکستانی سروس اردو سروس جبکہ انڈین سیکشن ہندی سروس کہلایا جانے لگا۔
اور 1968 میں بی بی سی اردو سروس کا مقبول نیوز اینڈ کرنٹ افیئر پروگرام ”سیربین“ کا آغاز ہوا۔ اس پروگرام کے ذریعے نہ صرف خبریں اور حالات حاضرہ کے پروگرام ہونے لگے بلکہ تفریحی اور معلوماتی پروگراموں کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ مشہور پروگراموں میں سدھو بھائی کا شاہین کلب، رضا علی عابدی کا جرنیلی سڑک، سامعین کے خطوط اور دیگر پروگراموں نے سامعین کو اپنی جانب راغب کیا۔ معیشت، سائنس، کھیل، موسم کی جانکاری انہی پروگراموں کے ذریعے ہونے لگا۔
ادریس بختیار، عارف وقار، رضا علی عابدی، نعیمہ احمد مہجور، شفیع نقی جامعی، مہ پارہ صفدر اور نہ جانے کتنے نام سماعتوں میں محفوظ رہے جو آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ پروگراموں کے معیار اور گراف کے حوالے سے سروے منعقد کیے گئے یا خطوط کے ذریعے پروگراموں میں بہتری آنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے بی بی سی اردو سروس کے یہ پروگرام گھر گھر کی ضرورت بن گئے۔
بنیادی سامعین کی ایک بڑی تعداد جو اس وقت دنیا میں نہیں رہے اور وہ جو کمپیئر تھے یا تو گزر گئے یا ریٹائر ہو کر ان کی آوازسماعتوں سے دور چلی گئی۔ مگر پروگرام نہیں مرتے۔ اب جبکہ یہ خبریں کہ بی بی سی اردو سروس کا پروگرام سیربین اپنی میعاد مکمل کر رہا ہے یہ اچھی خبر نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ مالی مسائل کو قرار دے رہے ہیں۔ بی بی سی ورلڈ سروس نے گزشتہ سال فنڈز میں کٹوتی کو بنیاد بنا کر اپنے مقبول پروگرام بند کیے تھے۔
بی بی سی اردو کا ریڈیو سروس جسے محدود کرکے آدھا گھنٹہ کر دیا گیا تھا اب اسی آدھے گھنٹے کو ختم کرنا سامعین سے ریڈیو چھیننے کے مترادف ہے۔ وہ بی بی سی جو کسی زمانے میں پروگراموں یا ریڈیو سروس کی ریٹنگ کے لیے سامعین کی آرا کو ضروری سمجھتا تھا نہ جانے ایسے کیا ہوا کہ سامعین کی آرا کو غیر ضروری سمجھ کر پروڈکشن ہاؤسز کے اندر ہی اندر فیصلے کیے جارہے ہیں۔ حالانکہ بلوچستان کی زمینی حالات اور ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی لوگوں کو اب بھی ریڈیو سے وابستہ کیے ہوئے ہے۔ اور بی بی سی اردو سروس کے ساتھ یہ جڑت ماضی کی طرح مضبوط ہے۔ سامعین کا یہ حلقہ سیربین کو واپس ایک گھنٹے کی شکل میں دیکھنے کا خواہاں ہے۔
اب اگر واقعی ایسی خبریں موجود ہیں اور ان خبروں میں صداقت ہے کہ بی بی سی ریڈیو اپنا اردو سروس ختم کر رہا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بلوچستان کے ایک وسیع حلقے اور سامعین کے ساتھ زیادتی ہوگی اور انہیں جان بوجھ کر خبروں سے محروم رکھے جانے کی ایک واردات ہوگی۔ بی بی سی انتظامیہ کو چاہیے کہ نہ صرف وہ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے جو وہ بی بی سی اردو سروس کی مقبول پروگرام سیربین کی بندش کے حوالے سے کر رہا ہے بلکہ اس حوالے سے بلوچستان بھر میں ایک سروے کا انعقاد کرکے سامعین کی آرا کو مد نظر ضرور رکھے تاکہ اسے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔