’عورت کی جات (ذات) الگ ہووت (ہوتی) ہے۔‘
فلم ’سونچڑیا‘ میں یہ جملہ ایک خاتون ڈاکو پھولیا اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والی اندومتی (بھومی پدنیکر) سے تب کہتی ہے جب وہ ریپ کا شکار دلت بچی کو بچانے کی کوشش میں چنبل کے ڈاکوؤں کے درمیان بھاگ رہی ہوتی ہیں۔
اندومتی ڈاکوؤں کے دو ایسے گروہوں کے درمیان پھنسی ہوتی ہیں جن کا تعلق مختلف ذاتوں سے ہوتا ہے۔
ڈاکوؤں کے درمیان پھنسی بےبس پھولیا جیسے بتانا چاہ رہی ہوں کہ وہ ذات پات کی بنیاد پر منقسم معاشرے میں بھی خواتین کی سب سے نچلی سطح پر ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
تصاویر: آئیفا میں کس نے کیا لوٹا؟
راج کپور کی وہ روسی ہیروئن اب کہاں ہے؟
شاہ رخ اور عامر خان نریندر مودی کے ساتھ کیوں؟
سنہ 2019 میں متعدد ایسی فلمیں ریلیز ہوئی ہیں جو خواتین کے نظریات کی عکاسی کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایسی ہی کئی فلموں نے پریشان کن سوالات کو جنم دیا ہے۔
کبیر سنگھ
سنہ 2019 میں منظرِ عام پر آنے والی فلم ’کبیر سنگھ‘ کو پریشان کر دینے والی فلم کہا جا سکتا ہے۔
فلم کو خوب ستائش حاصل ہوئی لیکن یہ بات بھی کہی گئی کہ یہ فلم خواتین کو نیچا دکھانے والی فلم تھی۔
مثال کے طور پر فلم میں ایک منظر ہے جہاں محبت میں ناکام رہنے والا فلم کا مرکزی کردار کبیر سنگھ (شاہد کپور) ایک لڑکی سے چاقو کی نوک پر کپڑے اتارنے کے لیے کہتا ہے اور لڑکی کی مرضی نہ ہونا یا احتجاج کرنے کا اس (کبیر سنگھ) کے لیے کوئی مطلب نہیں ہے۔
فلم میں ان کی محبوبہ کا دوپٹہ ذرا سے سرک جاتا ہے تو وہ اسے دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھنے کو کہتا ہے۔
اسے اپنی محبوبہ کو یہ بتانے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں ہوتی ہے کہ ’کالج میں لوگ تمہیں صرف اس لیے جانتے ہیں کہ کیونکہ تم کبیر سنگھ کی بندی (محبوبہ) ہو۔‘
کبیر سنگھ اپنی گرل فرینڈ کی مرضی کے بغیر اسے اپنے ساتھ لے جاتا ہے، اسے چھوتا ہے، بوسہ دیتا اور مارتا ہے۔
اس سے بھی زیادہ پریشان کُن بات یہ ہے کہ لڑکی اُف تک نہیں کہتی۔
فلم میں ایسا دکھایا گیا ہے کہ جیسے اس لڑکی کی اپنی کوئی مرضی، آواز یا حقوق ہی نہیں ہیں۔ سارے حقوق، جذبات اور آواز صرف مرد کردار کے حصے میں دے دی گئی ہے۔
اس کی ’بندی‘ ایک بے زبان گڑیا کی طرح ہے۔ ’گلی بوائے‘ فلم کی سفینہ کے بالکل برعکس ہے کبیر سنگھ کی ’بندی‘۔
’گلی بوائے‘ کی عالیہ بھٹ
’گلی بوائے‘ کی سفینہ (عالیہ بھٹ) کا کردار انتہائی خود اعتماد ہے۔ انھیں جو کہنا ہے صاف صاف بولتی ہیں، اپنے حقوق کو پہنچانتی ہیں اور اپنے ساتھ ہونے والی حق تلفی پر چیختی ہیں، چلاتی ہیں اور کئی بار تو بے قابو بھی ہو جاتی ہیں۔
سفینہ یہ بخوبی جانتی ہیں کہ انھیں کیا چاہیے اور کیا نہیں۔
فلم کے ایک سین میں سفینہ اپنے بوائے فرینڈ کی ایک خاتون دوست کے حسد میں اس کے سر پر کانچ کی بوتل مارتی ہیں۔ ایک پل کے لیے ان میں کبیر سنگھ کا جنون نظر آتا ہے لیکن وہ اپنی اس حرکت پر شرمندہ ہوتی ہیں۔
ضویا اختر کی اس فلم کی کہانی بھلے ہی فلم کے مرکزی مرد کردار رنویر سنگھ کے گرد گھومتی ہے لیکن اس کے باوجود زویہ اختر نے عالیہ بھٹ کے کردار کو ایک علیحدہ شناخت دی ہے۔ فلم دیکھنے کے بعد آپ کو رنویر سنگھ سے زیادہ عالیہ بھٹ کا کردار یاد رہتا ہے کیونکہ اس کے کردار میں معصومیت ہے لیکن ساتھ ہی خود اعتمادی اور اپنے حق کے لیے لڑنے کا عزم بھی۔
بالی وڈ میں آپ کو ایسی کتنی فلمیں دیکھنے کے لیے ملتی ہیں جہاں فلم کی ہیروئن ہیرو سے یہ کہتی ہے کہ ’تم اپنا خواب پورا کرو، پیسے کمانے کے لیے میں ہوں نا۔‘
آرٹیکل 15
رواں برس انڈین ریاست اُتر پردیش کے شہر انّاؤ اور حیدرآباد میں ریپ کے دل دہلانے والے کیسز سامنے آئے ہیں۔
انڈیا میں ریپ کے کیسز سامنے آتے رہتے ہیں اور اسی طرح کا ایک ہولناک ریپ کا معاملہ سنہ 2014 میں اتر پردیش کے شہر بدایوں میں سامنے آیا تھا جس میں دو کم عمر دلت لڑکیوں کو ریپ کے بعد پیڑ سے لٹکا دیا گیا تھا۔ اسی کیس پر مبنی فلم ہے ’آرٹیکل 15‘۔
’ریپ سمجھتے ہو بچے۔‘
فلم میں ایک نوجوان پولیس افسر(آیوشمان کھرانا) اپنے گھر میں کھانا بنانے والی ایک 16 سالہ بچی کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس کا بھائی بھی ’نچلی ذات‘ کی لڑکیوں کے ریپ میں ملوث تھا اور یہ بات سامنے آنے پر اس نے خود کشی کر لی ہے۔
اس فلم میں مرکزی کردار میں ایک مرد پولیس آفسر ہے جو اس پورے کیس کی تہہ تک پہنچتا ہے اور لڑکیوں کے خاندان والوں کو انصاف دلاتا ہے۔ یہ فلم ثابت کرتی ہے کہ فلم کا مرکزی کردار ایک مرد ہونے کے باوجود بھی خواتین اور ان کے حقوق کی بات کر سکتا ہے۔
ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا
اس سال سب سے حیران کر دینے والی فلم شیلی چوپڑا دھر کی ’ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا‘ تھی۔
ہم جنس پرستی کے موضوع پر بالی وڈ میں متعدد فلمیں بنائی جا چکی ہیں لیکن دو لڑکیوں کے درمیان محبت کی کہانی کو بڑی فلموں کے ذریعے منظرِ عام پر لانے کی ہمت بہت کم ہدایت کاروں نے کی ہے۔
فلم بہت زیادہ ہٹ نہیں ہوئی اور اس نے بہت کمائی بھی نہیں کی لیکن سونم کپور نے ایک ہم جنس پرست لڑکی کا کردار کر کے اس بیانیے کو توڑنے کی کوشش کی ہے جس کے مطابق عشق محبت کا مطلب ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے۔
فلم کی کہانی غزل دھالیوال نے لکھی ہے جنھوں نے اصل زندگی میں ایک لڑکے سے لڑکی بننے کا سفر طے کیا ہے۔
دادیوں پر بنی فلم
سنہ 2019 میں ایسی بہت کم فلمیں ریلیز ہوئی ہیں جس میں کہانی خواتین کے گرد گھومتی ہو۔
70-80 سال کی دو نشان باز دادیوں کی اصل کہانی پر مبنی ’سانڈ کی آنکھ‘ ایسی ہی ایک فلم تھی۔ فلم کے ہدایت کار تشار ہیرا نندانی ہیں۔
دادیوں کا کردار کرنے کے لیے بڑی عمر کی اداکارؤں کے بجائے دو جوان اداکاراؤں کو لیا گیا جس کے بعد یہ بحث چھڑ گئی کہ بالی وڈ میں بڑی عمر کی اداکارائیں چاہیں کتنی بھی اچھی اداکاری کریں لیکن انھیں ان رولز کے لیے بھی منتخب نہیں کیا جاتا جو وہ کسی بھی نوجوان ادکارہ سے بہتر کریں گی۔
اداکار بھی، ہدایت کار بھی
ایک خاتون کو مرکزی کردار میں پیش کرنے والی جو اہم فلم تھی وہ تھی کنگنا رنوت کی ’منیکرنیکا- دا کوئین آف جھانسی۔‘
اس فلم کو رادھا کرشنا اور کنگنا رناوت نے مشترکہ طور پر ڈائریکٹ کیا جس کے بارے میں تنازعہ بھی کھڑا ہو گیا تھا۔
بالی وڈ میں ایسی بہت کم اداکارائیں ہیں جنہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ ہدایت کاری بھی کی ہے۔
نندیتا داس، اپرنا سین، کونکنا سین ایسی اداکارائیں ہیں جنھوں نے ہدایت کاری کا کام بھی انجام دیا ہے۔
کتنی فلمیں خواتین ہدایت کاروں نے بنائیں
سنہ 2019 میں بعض ایسی فلمیں بنی ہیں جن کی ہدایت کاری کا کام خواتین نے انجام دیا۔ ضویا اختر نے گلی بوائے بنائی، ’دا سکائی از پنک‘ سونالی بوس نے ’ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا‘ شیلی چوپڑا نے ’خاندانی شفاخانہ‘ شلپی داس گپتا نے اور 'موتی چور چکنا چور‘ دیب مترا نے بنائی۔
حالانکہ صنف کے تعین کے لیے جس حساس رویے کی ضرورت ہے اس کے لیے بالی وڈ کو ابھی ایک لمبا سفر طے کرنا ہے۔
اگر بالی وڈ اس بارے میں سنجیدہ ہوتا تو ہمیں ’پتی پتنی اور وہ‘ کے ٹریلر میں وہ ڈائیلاگ نہیں دیکھنا پڑتا ’بیوی سے سیکس مانگ لو تو ہم بھکاری، بیوی کو سیکس کے لیے منع کر دو تو ہم اتیاچاری(ظالم)، اور کسی طرح جگاڑ لگا کر سیکس حاصل کر لو تو ہم بلاتکاری(ریپ کرنے والا)۔‘
یہ ڈائیلاگ کتنی آسانی سے میریٹل ریپ کا مذاق اڑاتا ہے۔ حالانکہ لوگوں کے احتجاج کے بعد اس ڈائیلاگ کو ہٹانا پڑا تھا۔ چند برسوں پہلے تک بالی وڈ سے اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی اور نہ ہی لوگوں سے کہ انھیں اس طرح کا ڈائیلاگ پریشان کر سکتا ہے۔
آئندہ برس یعنی سنہ 2020 کی شروعات میں تیزاب کا نشانہ بنائی جانے والی ایک لڑکی کی زندگی پر مبنی فلم ’چھپاک‘ ریلیز ہو گی جس سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ یہ فلم خواتین سے متعلق ایک بے حد حساس موضوع کی عکاسی کرے گی جس سے سماج میں تیزاب کے حملوں سے متعلق بیداری پیدا ہو گی۔