جب بھی دسمبر کا مہینہ آتا ہے وقت کی راکھ میں چھپی یادوں کی چنگاریاں پھر سے روشن ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک یاد ’جسے میں بھلا دینا چاہتا ہوں‘ 16 دسمبر کی ہے۔ جب مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو گیا تھا ان دنوں میں سکول میں پڑھتا تھا لیکن مجھے اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات کا پورا شعور تھا۔ مجھے یاد ہے کس طرح ہر پاکستانی اس روز بلک بلک کر رویا تھا۔ کیسے ایک ہی دن میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں رہنے والے ہم وطن ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن گئے تھے۔ کس طرح بنگال کے دریا اور ان میں کشتیاں چلانے والے ہم سے روٹھ گئے تھے۔
مجھے یاد ہے جب میں پرائمری سکول میں پڑھتا تھا ان دنوں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والا ایک لڑکا میرے ساتھ پڑھتا تھا۔ اس کا نام صادق حسن لشکر تھا۔ اس کے والد پاک آرمی میں صوبیدار تھے اور لال کرتی میں ایوب ہال کے سامنے اس پار ان کا گھر تھا۔ کبھی کبھار میں اس کے گھر جاتا تو اس کے گھر والے محبت سے پیش آتے۔ یہ مشرقی پاکستان سے میرا پہلا تعارف تھا۔ صادق ایک سلجھا ہوا لڑکا تھا اور پڑھائی میں بہت اچھا تھا۔
پھر ایک دن اس کے والد کا تبادلہ کسی اور شہر ہو گیا اور وہ ہمارا سکول چھوڑ گیا۔ لیکن مشرقی پاکستان سے میر ا اصل تعارف حیات کی بدولت ہوا۔ حیات راولپنڈی میں ہمارے گھر کے پاس رہتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مشرقی پاکستان سے بنگالیوں کی ایک مختصر تعداد روزگار کے سلسلے میں مغربی پاکستان میں رہ رہی تھی۔ پاکستان آرمی، ائیرفورس، نیوی اور دوسرے محکموں میں بھی بنگالی جوان اور افسر موجود تھے۔ حیات دبلا پتلا چھریرے بدن کا نوجوان تھا ’جو ملازمت کے سلسلے میں اپنے گھر سے بہت دور راولپنڈی کے اس محلے میں کرائے کے ایک کمرے میں رہ رہا تھا۔
وہ 502 ورکشاپ میں کسی معمولی سے عہدے پر کام کرتا تھا۔ اس کے سانولے چہرے پر نمایاں اس کی بڑی بڑی روشن آنکھیں تھیں۔ اس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ کھیلتی رہتی۔ اس کے کمرے میں ایک چارپائی تھی۔ ایک کونے میں کھانا پکانے کے لیے ایک سٹوو۔ بنگلہ زبان میں لکھی ہوئی چند کتابیں۔ چارپائی کے نیچے ایک سوٹ کیس اور چارپائی کے قریب میز پر رکھی ہوئی بینجو۔ حیات کو موسیقی کا جنون تھا۔ دن بھر نوکری کے بعد وہ شام کو ایک بنیان اور لنگی پہن کر کمرے کے برآمدے میں بیٹھتا اور بینجو بجاتا۔
اس کے سُروں میں بنگال کے دریاؤں کا مدو جزر ہوتا اور ایک گہرا فراق۔ میں سوچتا‘ وہ یہاں سے ہزاروں میل دور بسنے والے اپنے عزیزوں ’دوستوں اور پیاروں کو مس تو کرتا ہو گا۔ اس نے مجھے میرا نام بنگالی رسم الخط میں لکھنا سکھایا اور کچھ بنیادی بول چال کے جملے بھی۔ ان دنوں ریڈیو پاکستان سے خبریں نشر ہوتیں تو کچھ اس طرح آغاز ہوتا: یہ ریڈیو پاکستان ہے‘ اس وقت پٍچھمی پاکستان میں صبح کے سات اور پوربی پاکستان میں صبح کے آٹھ بجے ہیں۔
اسی طرح شاعری میں بھی لفظوں کے تجربے ہو رہے تھے مثلاً ضمیر جعفری کی نظم ”اللہ میگھ دے، پانی دے، سایہ دے“۔ حیات سال میں ایک مرتبہ چھٹی پر مشرقی پاکستان کے شہر سلہٹ میں اپنے گاؤں جاتا۔ ایسے میں وہ اپنی کل کائنات سوٹ کیس اور بینجو ہمارے گھر رکھوا دیتا جسے ہم سیڑھیوں کے اوپر بنے ہوئے سٹور میں رکھ دیتے۔ جب چھٹی ختم ہونے کے بعد واپس آتا تو سب سے پہلے ہمارے گھر آتا۔ اپنا سوٹ کیس اور بینجو لیتا اور پھر اپنے کمرے میں جاتا۔
چھٹی سے واپس آ کر وہ اپنے گاؤں کی ’اپنے گھر والوں کی باتیں سناتا۔ 1971 کے سال میں بھی وہ ہمیشہ کی طرح سالانہ تعطیل پر سلہٹ میں اپنے گاؤں گیا تو اپنا سوٹ کیس اور بینجو ہمارے گھر چھوڑ گیا‘ جو حسب معمول میں نے سیڑھیوں کے اوپر بنے سٹور میں رکھ دیے۔ اس نے جاتے وقت بتایا تھا کہ وہ دو ہفتے کی چھٹی پر جا رہا ہے۔ ملک میں ان دنوں عجیب غیر یقینی کا عالم تھا۔ 1970 کے انتخابات کے نتیجے میں مجموعی طور پر شیخ مجیب کی جماعت عوامی لیگ کو واضح اکثریت حاصل ہو گئی تھی۔ اصولی طور پر اکثریتی جماعت کو حکومت بنانے کا حق حاصل تھا لیکن مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت کے رہنما نے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا ’پھر پارلیمنٹ کا اجلاس بھی منسوخ کر دیا گیا۔ اس کے رد عمل میں وہ پُر تشدد تحریک ابھری جس میں بھارت نے بھی اپنی مرضی کے رنگ بھرے اور شیخ مجیب نے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کر دیا۔ تحریک دن بدن پر تشدد ہونے لگی۔ ایسے میں فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ بھارت نے کھلم کھلا مکتی باہنی کی حمایت شروع کر دی۔ یوں مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان آپس میں ہی دست وگریباں ہو گئے اور بھارت نے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کر دیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے مغربی پاکستان کی سرحدیں بھی جنگ کی لپیٹ میں آ گئیں۔
میں ان دنوں سکول میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کیسے تقریباً ہر روز صبح کے وقت فضائی حملے کے سائرن بجتے اور بھارتی طیاروں کی گڑگڑاہٹ سے فضا گونج اٹھتی۔ ہم دوڑ کے سیڑھیوں کے نیچے پناہ لیتے۔ اکثر جہازوں کی پرواز گھن گرج تک محدود رہتی‘ لیکن ایک دن دھماکے اتنے شدید تھے کہ ہمارے گھر کی کھڑکیاں اور دروازے لرز اٹھے۔ اگلے روز پتہ چلا کہ ہمارے گھر سے کچھ دور کھیتوں میں بم برسائے گئے تھے۔ بھارتی طیاروں کا اصل ٹھکانہ 502 ورکشاپ یا اٹک آئل ڈپو تھا۔ سکولوں میں تعطیلات تھیں۔ میں نے سوچا ’کیوں نہ میں گاؤں چلا جاؤں۔ ان دنوں لیاقت باغ میں بسوں کا اڈا تھا۔ وہیں سے ہمارے گاؤں کے لیے بسیں ملتی تھیں۔
اس روز میں اڈے کے پاس پہنچا ہی تھا کہ ہوائی محلے کا سائرن بجنا شروع ہو گیا۔ سڑک پر چلتی ہوئی گاڑیاں رک گئیں۔ آسمان پر بھارتی طیارے آئے اور کوئی کارروائی کیے بغیر گزر گئے۔ کیوں؟ ان کے تعاقب میں پاکستان ائیر فورس کے طیارے تھے۔ اب دسمبر کے مہینے کا آغاز تھا۔ مشرقی پاکستان سے متضاد خبریں آ رہی تھیں۔ ان دنوں خبروں کا ایک اہم ذریعہ بی بی سی لندن کی اردو سروس تھی‘ جسے سب بہت اہتمام سے سنتے تھے۔
میں اکثر سوچتا ’حیات کس حال میں ہو گا۔ اسی اثنا میں یہ خبر آئی کہ امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا پاکستان کی مدد کو پہنچ رہا ہے۔ اب ہماری ساری امیدوں کا مرکز امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا تھا‘ لیکن 16 دسمبر آ گیا اور یہ بحری بیڑا ایک فسانہ بن کر رہ گیا۔ مشرقی پاکستان کے جدا ہونے کی خبر میں نے گاؤں میں ہی سنی۔ کچھ دنوں بعد میں واپس شہر میں آیا تو سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ گھر جاتے ہوئے سڑک پر میری نظر حیات کے کمرے کی طرف گئی ’جہاں تالا پڑا ہوا تھا۔
گھر پہنچا تو سب کی عجیب سی کیفیت تھی۔ مشرقی پاکستان کے جدا ہونے کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ پھر مجھے خیال آیا‘ حیات کہاں ہو گا؟ وہ کب واپس آئے گا؟ دن مہینوں میں بدلتے گئے اور مہینے سالوں میں۔ حیات کا کوئی خط آیا نہ خیر خبر۔ کبھی کبھار میں سیڑھیوں کے اوپر بنے سٹور میں جاتا تو حیات کا سوٹ کیس اور بینجو نظر آتے۔ اکثر بیٹھے بیٹھے مجھے یوں لگتا ’فضاؤں میں بینجو کی آواز گھل مل گئی ہے‘ جیسے ابھی حیات کی مانوس ہنسی کی آواز آئے گی اور وہ مجھ سے پوچھے گا: کیمن آچھے (کیا حال ہے؟
) اور میں ہنستے ہوئے کہوں گا بھالو آچھے (میں خیریت سے ہوں )۔ لیکن یہ صرف تصور کی بازی گری تھی۔ حیات پھر کبی لوٹ کر نہیں آیا۔ اب 1971 ء کے سانحے کو اڑتالیس برس گزر چکے ہیں۔ یوں لگتا ہے ایک زمانہ بیت گیا ہے۔ مگر اب بھی دسمبر کا مہینہ آتا ہے تو وقت کی راکھ میں چھپی یادوں کی چنگاریاں جیسے پھر سے روشن ہو جاتی ہیں اور حیات کا مسکراتا ہوا سانولا چہرہ لو دینے لگتا ہے۔
بشکریہ: روزنامہ دنیا