دیکھیے! کتنی سادہ سی بات ہے۔ہر انسان انصاف، امن، محبت اور خوشحالی کا طلب گار ہے۔ ناانصافی، بدامنی، نفرت اور غربت کو برا سمجھتا ہے۔معاشرے میں تمام قانون، ادارے اور ضابطے اسی لیے بنائے جاتے ہیں کہ انسانوں کو انصاف، امن اور خوشحالی مل سکے اور بدامنی، ناانصافی اور محرومی کا راستہ روکا جاسکے۔بس اسی کا نام انسانی حقوق ہے۔
’حق ‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا لغوی مطلب ہے، ’درست‘ اور ’صحیح‘۔ گویا انسانی حقوق کا مسئلہ دراصل اخلاقیات سے تعلق رکھتا ہے۔ اصطلاحی معنوں میں انسانی حقوق سے مراد ایسے قوانین، اقدار اور ادارے ہیں جن پر تمام انسانوں کو یکساں استحقاق حاصل ہے اس ضمن میں بنیادی شرط صرف انسان ہونا ہے۔ رنگ، نسل، مذہب، جنس، زبان، ثقافت، سماجی مقام، مالی حیثیت اور سیاسی خیالات کے فرق سے کسی فرد کے انسانی حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
’حق ‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا لغوی مطلب ہے، ’درست‘ اور ’صحیح‘۔ گویا انسانی حقوق کا مسئلہ دراصل اخلاقیات سے تعلق رکھتا ہے۔ اصطلاحی معنوں میں انسانی حقوق سے مراد ایسے قوانین، اقدار اور ادارے ہیں جن پر تمام انسانوں کو یکساں استحقاق حاصل ہے اس ضمن میں بنیادی شرط صرف انسان ہونا ہے۔ رنگ، نسل، مذہب، جنس، زبان، ثقافت، سماجی مقام، مالی حیثیت اور سیاسی خیالات کے فرق سے کسی فرد کے انسانی حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
انسانی حقوق کی اخلاقی بنیاد سمجھنے کے لیے اخلاقیات کے دیگر نظاموں اور انسانی حقوق میں بنیادی فرق جاننا ضروری ہے۔انسانی حقوق میں اخلاقی اقدار کے ماخذ کی بجائے ان کے نتائج کو اہمیت دی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کی اصابت اور صداقت ان کے عملی نتائج سے متعین ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کی جانچ عظیم ہستیوں کے اقوال سے نہیں کی جاتی۔ انسانی حقوق کی سند کتابوں سے نہیں ڈھونڈی جاتی اور نہ انسانی حقوق کسی ادارے کی توثیق ہی کے مرہونِ منت ہیں۔ انسانی حقوق انسانیت کے صدیوں پر محیط اجتماعی تجربات کا نچوڑ ہیں۔
انسانی معاشرہ ہر لمحہ جنم لیتی ہوئی نت نئی تبدیلیوں اور کبھی ختم نہ ہونے والے نئے امکانات کا رنگار نگ مظہر ہے۔ انسان ہونے کے ناتے ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان تبدیلیوں کو اس طرح منظم اور مربوط کیا جائے کہ ہر نیا مرحلہ تحفظ، انسانی ضروریات کی فراہمی، خوشیوں کے حصول، پائیدار ترقی اور تخلیقی قوت کے اعتبار سے اجتماعی معیار زندگی کو بہتر بنائے۔
انسانی معاشرے نے جنگل سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ جنگل میں انسانی زندگی طرح طرح کے خطرات میں گھری تھی۔ جنگل میں انسانی بودوباش پر تین خوفناک حقائق یعنی عدم تحفظ، لاعلمی اور وسائل کی قلت کے سائے بہت گہرے تھے۔ ان تین عناصر نے قدیم انسان کی انفرادی اور اجتماعی نفسیات تشکیل دی۔ انسانو ںکے انفرادی اور اجتماعی افعال کا پیمانہ ایک سیدھا سادہ اصول قرار پایایعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ آج ہم اس اصول کو جنگل کا قانون کہتے ہیں۔انسانی تہذیب کے طلوع سے لے کر آج تک انسان کی تمام تر مذہبی، سماجی یا سیاسی کاوشوں کا مرکزی نقطہ یہی جدو جہد رہی ہے کہ جنگل کا قانون ختم کرکے ایسے قوانین اقدار اور معیارات اپنائے جائیں جن کی مدد سے جسمانی، سماجی، معاشی یا سیاسی طاقت سے قطع نظر ہر انسان کے لیے یکساں وقار، مواقع اور ضروریات کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔
جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کے نتیجے میں انسانی معاشرے میں بہت سی بنیادی ناانصافیوں نے جنم لیا۔ معاشرے میں افراد اور گروہوں نے اجتماعی انسانی وسائل پر قبضہ کرکے انسانوں کی اکثریت کو ان کے جائز حصے سے محروم کر دیا۔ اس طرح معاشرے میں مراعات یافتہ اور محروم طبقات وجود میں آئے۔ مراعات یافتہ افراد اور گروہوں نے وسائل پر اپنا غاصبانہ قبضہ بر قرار رکھنے کے لیے انسانوں میں اونچ نیچ کے تصورات پیدا کیے۔ رنگ، نسل اور جنس جیسی پیدائشی خصوصیات کو آڑ بنا کر انسانوں کے وسیع گروہوں کو بنیادی ضروریات سے محروم کیا گیا اور انھیں ترقی اور فیصلہ سازی کے عمل سے باہر رکھا گیا۔
مراعات یافتہ اور محروم طبقات کی درمیانی لکیر میں مسلسل ردو بدل ہوتا رہا ہے۔ انسانی معاشرہ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ تاریخ کے کسی مخصوص نقطے پر انسانی سماج میں پائے جانے والے قوانین، اقدار، رسوم و رواج اور ادارے انسانی علم کی موجودہ صورت حال، ذرائع پیداوار کی نوعیت اور سیاسی و سماجی عوامل کے باہمی تعامل سے متاثر ہوتے ہیں۔معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ان عناصر میں رونما ہونے والی اتھل پتھل کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ تبدیلی کی خواہش معاشرے کے پسماندہ طبقات میں زیادہ ہوتی ہے جو طرح طرح کی محرومیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ جن سماجی گروہوں کو اختیارات تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ وہ سماجی تبدیلی کے فطری دشمن ہوتے ہیں کیونکہ انہیں تبدیلی کے نتیجے میں اپنی موجودہ مراعات متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
معاشرے کے مراعات یا فتہ اقلیتی گروہ نے اپنے مفادات کی حفاظت کرنے اور موجودہ نظا م کو قائم رکھنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے ایجاد کیے ہیں اور انہیں قانونی، آئینی اور ثقافتی جواز مہیا کیے ہیں جن سے انسانی نا برابری قائم رہ سکے۔انہی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے ذات، نسل، رنگت، مذہب، جنس، دولت، زبان، سماجی حیثیت یا ثقافتی شناخت کی بنیاد پرمعاشرتی امتیاز کو مضبوط کیا جاتا ہے۔
یکساں انسانی وقار اور تمام انسانوں کے ناقابل انتقال اور ناقابل تنسیخ حقوق کا تصور سولہویں اور سترھویں صدی کے درمیانی عرصے میں پیدا ہوا۔ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ قدیم عقائد، اخلاقی اقدار، معیارات اور سماجی ڈھانچوں کی غیر جانبدارانہ پرکھ شروع ہوئی۔انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی فلاح تمام تجزیات، نظریات اور اقدار کا بنیادی پیمانہ قرار پائی۔
مذہبی اصلاحات کی تحریکوں، نشاة ثانیہ اور سیاسی اصلاحات نے معاشرے میں عوام کی حاکمیت کی بنیادیں استوار کیں۔ اس عظیم تبدیلی کے لیے درکار مادی ڈھانچہ صنعتی انقلاب نے مہیا کیا۔ درحقیقت یہ تمام تبدیلیاں انسانی حقوق کی جدوجہد کے مختلف پہلووں کی عکاسی کرتی تھیں۔ سماجی ارتقا کے اس مرحلے کی بنیاد چند مفروضات پر رکھی گئی تھی۔ (الف) کرہ ارض، جو انسان کا مسکن ہے، کائنات کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ (ب) تمام انسان مساوی ہیں اور چند ناقابل تنسیخ حقوق کے مالک ہیں۔ (ج) تمام علوم غیر حتمی ہیں اور مزید تحقیق سے انہیں بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ (د) مسلسل کو ششوں سے انسانوں کا معیار زندگی بہتر بنایا جاسکتاہے۔
زندگی کے ہر دم وسیع ہوتے آفاق، خطرات پسند سیاحوں کی جستجو کے ذریعے معلوم دنیاوں کی پھیلتی سرحدوں، معیار زندگی میں تیز رفتار بہتری اور مختلف النوع مشینوں کے سبب انسانی زندگی کی راحتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ تاہم سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر طبقات میں بٹے ہوئے معاشرے میں ان تبدیلیوں کے ثمرات کی یکساں تقسیم ممکن نہیں تھی۔ انسانی وسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا تھا مگر وسائل پر اختیارات بدستور مٹھی بھر افراد کے قبضے میں تھے۔ ان حالات نے فوری سیاسی، معاشرتی اور معاشی تبدیلیوں کی خواہش پیدا کی۔ انقلابی سیاسی نظریات نے دنیا بھرمیں طوفان بر پا کر دیا۔1688ءکے برطانوی انقلاب نے برطانوی شہنشا ہیت پر آئینی قیود عائد کیں۔ 1776ءمیں امریکہ کا اعلانِ آزادی تھا مس جیفر سن کے ان تاریخی الفاظ سے شروع ہوا۔”ہم ان سچائیوں کو ناقابلِ تردید سمجھتے ہیں کہ تمام انسانوں کو برابرتخلیق کیا گیا ہے اور انہیں چند ناقابل تنسیخ حقوق ودیعت کیے گئے ہیں۔“ فرانسیسی انقلاب کی بنیاد تین سنہری اصولوں پر رکھی گئی یعنی آزادی، مساوات اور اخوت۔ روسی انقلاب نے غیر طبقاتی معاشرے کے قیام کا بیڑہ اٹھایا۔ یہ تمام فلسفے، سماجی نمونے اور نظریات ان گنت دانشوروں اور فلسفیوں کی ذہنی کاوشوں کا نتیجہ تھے۔تاہم انسانی حقوق کی تحریک کو سب سے زیادہ مہمیز تھامس پین کی کتاب ”انسان کے حقوق “اور میری وولنز کرافٹ کی کتاب ”عورتوں کے حقوق کا مقدمہ “سے ملی۔
انسانی حقوق کی تحریک نئی ہے اور جدوجہد بے حد پرانی ہے۔ انسانی حقوق کی باقاعدہ تحریک اٹھارہویں صد ی میں روشن خیالی کے سائے میں پروان چڑھی۔ 1948ءمیں اقوام متحدہ کی طرف سے انسانی حقوق کا عالمی منشورہ وہ نقطہ تھا جہاں انسانوں نے اجتماعی طور انسانی حقوق کے جدید تصورات کو اعلیٰ ترین اخلاقی اصول کے طور پر تسلیم کیا۔دوسری طرف انصاف، آزادی اور امن کا خواب جتنا قدیم ہے انسانی حقوق کی جدوجہد اسی قدر پرانی ہے۔ وقت اور جگہ کے اعتبار سے اس جدوجہد کی شکل تبدیل ہوتی رہی ہے مگر بنیادی خدوخال ہمیشہ قائم رہے ہیں۔حالیہ انسانی تاریخ میں کیے جانے والے یوٹو پیائی تجربات دراصل اداراتی ذرائع سے ایسی سماجی تبدیلی کی خواہش کا اظہار تھے جو انسان دوست، سماجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی ڈھانچوں کی ضمانت دے سکے۔ گزشتہ دو صدیوں کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ ہر قسم کے ذرائع استعمال کرتے ہوئے فوری تبدیلی کی خواہش کے نتیجے میں ایک استحصالی گروہ کی جگہ دوسرا استحصالی گروہ لے لیتا ہے جو بسا اوقات پہلے گروہ سے بھی زیادہ بے رحم ثابت ہوتا ہے۔ ایک بہتر دنیا کی تخلیق کا راستہ پر پیچ اور مشکل ہے جس میں شارٹ کٹ کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔
بیسویں صدی میں لڑی جانے والی دو خوفناک عالمی جنگوں نے دنیا کو قائل کیا کہ انسانوں کے یکساں تحفظ، دیرپا ترقی اور تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کے لیے عالمی سطح پر انسانی حقوق کی اداراتی توثیق اور ضمانت ضروری ہے۔ 1945ءمیں اقوام متحدہ کے چار ٹر کی بنیاد تین نکات یعنی امن، ترقی اور انسانی حقوق پر رکھی گئی تھی۔ اس چارٹر کی روشنی میں 10دسمبر 1948ءکو اقوام متحدہ نے متفقہ طور پر انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ منظور کیا۔ انسانی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ رنگ، نسل، مذہب، جنس، زبان، ثقافت، معاشی حیثیت اور مفروضہ سماجی مقام سے قطع نظر تمام انسانوں کی بنیادی مساوات تسلیم کی گئی۔
بیسویں صدی میں لڑی جانے والی دو خوفناک عالمی جنگوں نے دنیا کو قائل کیا کہ انسانوں کے یکساں تحفظ، دیرپا ترقی اور تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کے لیے عالمی سطح پر انسانی حقوق کی اداراتی توثیق اور ضمانت ضروری ہے۔ 1945ءمیں اقوام متحدہ کے چار ٹر کی بنیاد تین نکات یعنی امن، ترقی اور انسانی حقوق پر رکھی گئی تھی۔ اس چارٹر کی روشنی میں 10دسمبر 1948ءکو اقوام متحدہ نے متفقہ طور پر انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ منظور کیا۔ انسانی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ رنگ، نسل، مذہب، جنس، زبان، ثقافت، معاشی حیثیت اور مفروضہ سماجی مقام سے قطع نظر تمام انسانوں کی بنیادی مساوات تسلیم کی گئی۔
انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ دراصل چند بنیادی اور متفق علیہ اقدار اور اصول بیان کرتا ہے۔ اب تک اس اعلامیہ کی روشنی میں درجنوںبین الاقوامی معاہدے، میثاقات اور دیگر دستاویزات تشکیل دی جاچکی ہیں۔اگرچہ بہت سی ریاستوں نے انسانی حقوق کی عالمی دستاویزات کی پابندی کا عہد کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انسانی حقوق کی جدوجہد اپنی منزل تک پہنچ چکی۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی دستاویزات محض چند کم از کم معیارات متعین کرتی ہیں۔ انسانی حقوق کی فراہمی اور انسانی حقوق کا احترام بنیادی طور پر افراد اور گروہ کے باہمی تعلق سے جنم لیتا ہے۔ کوئی ریاست اپنے عوام کو ان کے حقوق کا شعور دیے بغیر، حقوق کے تحفظ کا اہل بنائے بغیر اور اپنے حقوق کے لیے احتجاج کا حق دےے بغیر انسانی حقوق کی حقیقی ضمانت فراہم نہیں کرسکتی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانی حقوق کی حتمی ضمانت ریاستیں فراہم نہیں کیا کرتیں۔ انسانی حقوق کا تحفظ عدالتوں میں نہیں کوچہ و بازار سے شروع ہوتا ہے۔قانون کے بے جان الفاظ انسانی حقوق کی خوشبو کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ انسانی حقوق ایک آزاد انسان، ذمہ دار شہری، ہمدرد دل اور روشن دماغ کی پکار ہیں۔ انسانی حقوق کے تعین اور فراہمی کی بنیادی اکائی فرد ہے۔آخری تجزیے میں انسانی حقوق کا تحفظ بھی فرد ہی کی ذمہ داری ہے۔
ریاست بذات خود پیچیدہ ڈھانچوں اور متوازی مفادات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ انسانی حقوق اخلاقی، سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایسی بنیادی تبدیلیوں کو معاشرے کے مراعات یافتہ افراد، طاقتور گروہوں اور مستبد ریاستی اداروں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ انسانی حقوق پر مبنی معاشرہ انسانوں کی منزل ہے۔ یہ منزل بہت قریب بھی ہے اور بہت دور بھی۔ ایسے معاشرے کے قیام کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت بھی موجود رہتی ہے لیکن سماجی تحرک، پیداواری سرگرمیوں اور انسانی شعور میں اضافے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کا تناظر بھی پھیلتا رہتا ہے۔ چنانچہ انسانی حقوق پر مبنی معاشرے کا قیام ایک مسلسل جدوجہد ہے۔
تاریخ کا پہیہ واپس نہیں موڑا جاسکتا۔ یہ امر طے ہے کہ انسانیت کا قافلہ جن وادیوں میں بھی پہنچے گا اسے انسانی مساوات، انفرادی آزادیوں، اجتماعی ذمہ داریوں اور اخوت کے پیڑوں کی چھاؤں درکار ہوگی۔ یہ حقیقت ایک خواب بھی ہے اور ایک انفرادی اور اجتماعی فریضہ بھی۔انسانی حقوق سب انسانوں کے لیے ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے سب انسانوں کو جدوجہد کرنا ہوگی۔