مہوش حیات کا محبوب – مکمل کالم


مجھے علم نہیں تھا کہ مہوش حیات کا اور میرا محبوب ایک ہے ، بھلا ہو ٹویٹر کا جس کے ذریعے مجھے یہ خبر ملی کہ مہوش حیات اپنے محبوب قائد پرویز مشرف کے لیے بہت پریشان ہیں ، مس حیات نے مشرف صاحب کی ایک ویڈیو دیکھی جس میں وہ اسپتال کے بستر پر لیٹے نہایت ضعیف آواز میں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اُن پر بنایا جانے والا بغاوت کا مقدمہ بالکل بے بنیاد ہے ، وہ تو سچے محبت وطن ہیں جنہوں نے ملک کے لیے جنگیں لڑی ہیں ، انہیں بھلا بغاوت کا مجرم کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ، اور پھر انہوں نے یہ بھی شکایت کی انہیں انصاف نہیں مل رہا جو اُن کا قانونی حق ہے ۔ یہ دلگدزا بیان سُن کر ہماری سٹار اداکارہ سے رہا نہیں گیا اور انہوں نے چہکار (ٹویٹ ) کی کہ سیاست کو ایک طرف رکھیں ، یہ شخص کبھی ہمارا صدر تھا ، مشکل وقت میں اِس نے قوم کی رہبری کی ہے ، اسے بھی شنوائی کا حق حاصل ہے ، قانون کے مطابق ہر شخص اُس وقت تک معصوم ہے جب تک عدالت اسے مجرم قرار نہ دے ۔تیری آواز مکے اور مدینے۔میں نے بھی جب اپنے محبوب قائد کا یہ ویڈیو کلپ دیکھا تو مہوش حیات کی طرح میرادل بھی تڑپ اٹھااور ذہن میں وہ پوری فلم چلنے لگی جب میرا محبوب کمانڈو پہلی مرتبہ اکتوبر 1999میں قوم سے ہم کلام ہوا تھا ، اللہ اللہ کیا گھن گرج تھی آواز میں ، کیا طنطنہ تھا، اُس دن میںنے اپنے کمرے سے تمام فلمی ہیرو اور ہیروئنوں کے پوسٹر پھاڑ کر اپنے اِس محبوب قائد کی تصویر آویزاں کر لی تھی ،اور کیوں نہ کرتا،مدتوں بعد بالآخر قوم خیر اندیش آمر ملاتھا۔
میرے محبوب قائد کے کارناموں کی داستان یوں تو خاصی طویل ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ ایڈیٹر صاحب نے کالم کوایک خاص تعداد میں الفاظ تک محدود کر نے کا حکم دے رکھا ہے ،چلیے دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ویسے تو ملک میں پہلے بھی تین مرتبہ خیر اندیش آمر آئے جنہوں نے سبز باغ دکھائے مگر میرے محبوب قائد کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپ نے دو مرتبہ اِس ملک پر احسان عظیم کیا اور آئین کے نام پر بنی ایک فرسودہ کتاب سے ہماری جان چھڑوائی، پہلی مرتبہ 12اکتوبر 1999اور دوسری مرتبہ 3نومبر2007کو۔فرانس کا عظیم جنرل ڈیگال بھی یہ کام نہ کرسکا ، صرف اِسی ایک کارنامے پر ہی میرے محبوب کا مجسمہ مادام تساد کے عجائب گھر میں کھڑا کر دینا چاہیے مگر متعصب انگریزوںسے مجھے بھلے کی کوئی امید نہیں ۔ویسے تو میرے محبوب قائد کو کسی عہدے کا کبھی لالچ نہیں رہامگر عوام کی بے پایاں محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر میرے کمانڈو محبوب نے 20جون 2001کو بادل نخواستہ اُس وقت کے آئینی صدر کوسبکدوش کرکے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین یعنی پی سی او کے تحت حلف اٹھایا اور نا چاہتے ہوئے صدر بن گئے۔صدر بننے کے بعد آپ راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے تھے کہ اتنی بھاری ذمہ داری بغیر عوامی مینڈیٹ کے کیسے نبھائیں گے ،حواریوںنے بہت کہا کہ آپ کو کسی
عوامی تائید کی ضرورت نہیں مگر میرا محبوب قائد دل سے جمہوریت پسند تھا ، وہ اِن باتوں میں نہیں آیا اور بالآخر اپریل 2002ءمیں ریفرنڈم کروایا ،دنیا نے دیکھا کہ کیسے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر میرے محبوب قائد کے جلسوں میں آیا،98فیصد لوگوں نے اپنے ہر دلعزیز قائد کے حق میں ووٹ دے کر مٹھی بھر شر پسندوں کے منہ بند کر دیے۔اسی سال صدام حسین نے بھی ریفرنڈم کروایا تھا جس میں سو فیصد لوگو ں نے اس کے حق میں ووٹ دیے ، دنیا اُس پر خوب ہنسی اور میرے محبوب قائد کی کشادہ دلی کی تعریفیں کی گئیں۔اب ایک لطیفہ بھی سن لیں، کسی مرد ناہنجار نے اس ریفرنڈم کی قانونی حیثیت کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کر دی،اِس پر میرے محبوب قائد کے وکلا نے درخواست گذار کے یہ کہہ کر چھکے چھڑا دیے کہ ریفرنڈم صدر کے انتخاب کا متبادل نہی ںمگر میرے محبوب کی مقبولیت کو کہاں لے کر جاؤ گے !یہ اعزاز بھی میرے محبوب قائد ہی کو جاتا ہے کہ آپ نے تین سال کے اندر اندر انتخابات کروائے اور تن تنہا آئین کی شکل بہتر کرکے اسے بحال کیا ۔ناقدوں کے منہ بند کرنے کے لیے میرے محبوب قائد نے سوچا کہ کیوں نہ نئی اسمبلیوں سے ہی صدر منتخب ہو جاؤں، مگر اِس میں اڑچن یہ تھی کہ بلوچستان اسمبلی کے 65ووٹوں کا وزن باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں کے کل ووٹوں کے برابر تھا ‘جہاں سے اکثریت حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔اس کا حل سب سے زیادہ پڑھے لکھے ایس ایم ظفر صاحب نے پیش کیا کہ اگر آئین کے ساتھ دست درازی کر کے صوبائی اسمبلیوں کے ووٹ برابر کر دئیے جائیں اور ممبران سے ہاتھ اٹھوا کر ووٹنگ کروا لی جائے تو مطلوبہ اکثریت حاصل ہو جائے گی ‘نسخہ تیر بہدف ثابت ہوا‘ میرا محبوب قائد باوردی صدر منتخب کر لیا گیا۔
میرے محبوب قائد کو2007ءمیں ایک مرتبہ پھر صدرکے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہوا ( اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو)، آپ اِس ملک کے احمقانہ قوانین ملاحظہ کریں کہ آئین کے شیڈول 2میںصدر کے کاغذات نامزدگی کا فارم ہے جسے پُر کرتے وقت لکھنا پڑتا ہے کہ امیدوار ”سروس آف پاکستان“ میں نہیں ہے ۔بات چونکہ بے سروپا تھی اِس لیے چیف الیکشن کمشنر نے محبوب قائد کی اجازت سے تبدیل کرکے یہ عبارت حذف کر دی،میں کون کون سی بات پر اپنے محبوب کے صدقے واری ہوں،اپنے آپ کو سستا اور فوری انصاف مہیا کرنے کی یہ مثال میرا محبوب قائد ہی قائم کر سکتا تھا ! ایک گستاخ نے اِس انتخاب کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا کہ آرمی چیف صدر کا انتخاب نہیں لڑ سکتا ، دوران سماعت عدالت نے میرے محبوب کے وکیل سے استفسار کیا کہ آئین میں تیسری مدت کے لئے کوئی شخص صدر کیسے منتخب ہو سکتا ہے ؟اتفاق سے عین اسی وقت شریف الدین پیرزادہ صاحب کو چکر آ گیا ‘انہوں نے عدالت سے کہا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ‘وہ اگلے روز اس کا جواب دیں گے ‘اگلے روز وہ پیش نہیں ہوئے ۔اِس کے بعد میرے محبوب قائد نے ایک مرتبہ تاریخ رقم کی اور 3نومبر2007کو ایمرجنسی نافذ کرکے سپریم کورٹ کو ہی گھر بھیج دیا!14دسمبر 2007کو PO 6 of 2007جاری کیا گیا جس کے تحت آئین کی شق 41اور 44میںمیرے محبوب قائد نے ایک مرتبہ پھر تن تنہاترمیم کر کے
”سروس آف پاکستان“ اور تیسری مدت کے لئے صدر بننے کی بیہودہ شرائط ختم کر دیں، پی سی او کے تحت نئے ججوں سے حلف لیا اور ناخلف ججوں کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا۔
اللہ کو جان دینی ہے ، کون ہے ایسا جی داراور کڑی جوان جو یہ سب کرنے کی ہمت رکھتاہو،یاد رہے کہ میرے محبوب قائد کے کارناموں کا یہ محض ٹریلر ہے ،اصل فلم تو کبھی مہوش حیات کے ساتھ مل کر دیکھیں گے۔ یہ اِس ملک کی بد قسمتی ہے کہ جس شخص نے فوری اور سستا انصاف حاصل کرنے کی ذاتی مثالیں قائم کیں اسے ہی انصاف سے محروم کر دیا جائے، میرا محبوب قائد اگر آج کرسی پر ہوتا تو تیسری مرتبہ اِس ملک کو آئین کی نحوست سے بچانے کی خاطر کسی بھی حد تک چلا جاتا۔اس کالم کی وساطت سے میں نے مہوش حیات کو بھی ایک مشورہ دینا ہے کہ انصاف اور قانون وغیرہ کی باتیں آئین کے تحت ہوتی ہیں، ہمارا محبوب تو آئین سے ماورا تھا/ہے لہذا اسے آئین کے تحت ملنے والی کسی بھیک کی ضرورت نہیں ،مناسب ہو گا اگر آپ ایک ترمیم شدہ چہکارمزید کر دیں۔
(ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کی گئی تحریر)