یہ اس وقت کا قصہ ہے جب میں پٹسپرگ پینسلوانیا میں انٹرنل میڈیسن میں ریزیڈنسی کر رہی تھی۔ پہلا سال چل رہا تھا اور ایک دن میں ہسپتال کی روٹیشن پر تھی۔ ایمرجنسی روم سے پیج آیا کہ ایک مریض اکیوٹ پینکریاٹائٹس (لبلبے میں یکدم ہوجانے والی انفلامیشن) کے ساتھ آیا ہے اور اس کو ہسپتال میں ایڈمٹ کرنا ہے۔ میں اور میرے ساتھ سیکنڈ ایر کا ریزیڈنٹ ای آر گئے اور اس مریض کو دیکھا۔ وہ 29 سال کا ایک ہسپانوی آدمی تھا اور پیٹ کو پکڑ کر درد سے دہرا ہوا بیٹھا تھا۔ مشکل سے اس کی ہسٹری لی۔ شدید تکلیف میں ہونے کے باوجود اس نے تحمل سے سارے جواب دیے۔ اس کے لیے سارے نرسنگ اور دواؤں کے آرڈر لکھ کر ہم نے اس کو رات والی ٹیم کے حوالے کیا۔ اگلے دن جب میں صبح واپس ہسپتال پہنچی تو مجھے پتا چلا کہ آدھی رات میں اس کی طبعیت مزید بگڑ گئی تھی۔ اس کو آئی سی یو میں ٹرانسفر کرنا پڑا۔ وہ کوئی دو یا تین مہینے شدید بیمار رہا اور ہر ممکن علاج کے باوجود بہتر نہیں ہوپایا۔
یہ بات سارے ڈاکٹر جانتے ہیں کہ ہمارے کوئی بھی مریض مر جائیں تو ہم ایسا ہی محسوس کرتے ہیں کہ وہ ہماری غلطی سے مرگئے۔ مجھے بھی کئی سالوں تک یہی خیال آتا رہا کہ ہم اس کے لیے اس رات گھر جانے سے پہلے کیا مختلف کرتے جس سے اس کی جان بچ جاتی۔ اس تجربے سے مجھے اچھی طرح پتا چل گیا کہ اکیوٹ پینکریاٹائٹس کے مریضوں میں 50ا٪ مورٹالٹی (اموات) کا کیا مطلب ہے۔ یعنی کہ یہ ایک خطرناک بیماری ہے اور اس کے بارے میں اگر لوگوں کو معلومات ہوں تو وہ اپنا بہتر طریقے سے خیال رکھ سکتے ہیں۔
پینکریاٹائٹس لبلبے میں ہوجانے والی سوجن (Inflammation) کو کہتے ہیں۔ لبلبہ ایک لمبا اور چپٹا گلینڈ ہے جو معدے کے پیچھے موجود ہوتا ہے۔ لبلبے سے اینزائم بنتے ہیں جن سے کھانا ہضم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ لبلبہ ایک اینڈوکرائن گلینڈ بھی ہے جس سے کئی اہم ہارمون بنتے ہیں جن میں انسولین اور گلوکاگان شامل ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انسولین کے نہ ہونے یا درست کام نہ کرنے سے لوگوں کو ذیابیطس ہو جاتی ہے۔ پینکریاٹائٹس اکیوٹ بھی ہوسکتا ہے اور کرانک یعنی طویل عرصے پر مبنی۔ پینکریاٹائٹس ہلکا سا بھی ہوسکتا ہے اور پیچیدہ بھی۔ اگر معمولی سا ہو تو خود ہی ٹھیک ہوجاتا ہے۔ اگر شدید بیماری کا کیس ہو تو اس کے لیے ہسپتال میں داخل کروانا ضروری ہوسکتا ہے۔ اگر کسی کو کئی بار اکیوٹ پینکریاٹائٹس ہو تو وہ بھی بڑھ کر کرانک میں تبدیل ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے لبلبہ ٹھیک طریقے سے کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہونے والی ذیابیطس کو سیکنڈری ذیابیطس کہتے ہیں۔ یہ ٹائپ ون یا ٹائپ ٹو ذیابیطس سے مختلف ہوتی ہے۔
پینکریاٹائٹس ہو جانے کی وجوہات
پیٹ کی سرجری
شراب نوشی
کچھ دوائیں
سسٹک فائبروسس کی بیماری
گال بلیڈر میں پتھری
خون میں کیلشیم کا زیادہ ہوجانا
خون میں ٹرائی گلسرائڈ کا زیادہ ہو جانا
انفیکشن
پیٹ میں چوٹ لگنا
جب میں اینڈوکرنالوجی میں فیلوشپ کررہی تھی تو ایک افریقن خاتون کو دیکھا تھا جن کو لبلبے کے خراب ہونے کی وجہ سے ذیابیطس تھی۔ آپ کے لبلبے کو کیا ہوا؟ میں نے پوچھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ چھوٹی بچی تھیں تو ان کی ماں نے خودکشی کرنے سے پہلے ان کو بندوق سے گولی ماری تھی۔ کہنے لگیں میں اپنے کمرے میں کھیل رہی تھی، میری ماں داخل ہوئی اور میری طرف بندوق کا رخ کیا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کر دیے۔ انہوں نے ہاتھ دکھائے جن پر اب بھی گولی کے زخم کے نشان تھے۔ انہوں نے کہا کہ میرا بچکانہ ذہن یہ سوچ رہا تھا کہ ہاتھوں سے گولی رک جائے گی لیکن وہ سیدھی جا کر پیٹ میں لگی۔ مجھے کچھ تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔ اس کے بعد میری ماں نے خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی۔ وہ مجھے بھی ساتھ لے جانا چاہتی تھیں لیکن میں بچ گئی۔ اب میرے دو بچے ہیں۔ یہاں تک بات کرتے ہوئے انہوں نے رونا شروع کیا۔ بچ تو گئی تھیں لیکن ان کو وہ تمام صحت کے مسائل تھے جو لبلبے کے درست طریقے سے کام نہ کرنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
کبھی کبھار پینکریاٹائٹس ہونے کی وجہ کبھی معلوم نہیں ہوتی۔
پینکریاٹائٹس ہونے کا خطرہ کن لوگوں میں بڑھ جاتا ہے؟
ریسرچ سے پتا چلتا ہے کہ جو لوگ چار پانچ گلاس شراب روزانہ پئیں ان میں پینکریاٹائٹس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
سگریٹ پینے والے افراد میں طویل دورانیے کا پینکریاٹائٹس ہونے کا خطرہ ان لوگوں سے تین گنا زیادہ ہوتا ہے جو سگریٹ نوشی نہیں کرتے۔ یہاں اچھی خبر یہ ہے کہ سگریٹ نوشی بند کردینے سے آپ میں یہ خطرہ آدھا ہوسکتا ہے۔
مٹاپے سے پینکریاٹائٹس ہونے کا خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے۔
خاندان میں اور لوگوں کو بھی لبلبے کی سوزش کی بیماری ہونا
پینکریاٹائٹس سے کیا پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں؟
اکیوٹ پینکریاٹائٹس میں لبلبے میں غبارے سے بن جاتے ہیں جن کو سوڈو سسٹ کہتے ہیں۔ یہ پھٹ جائیں تو ان سے انفیکشن بھی پھیل سکتی ہے اور اندرونی طور پر خون بہنا شروع ہوسکتا ہے۔
گردوں کا فیل ہوجانا اکیوٹ پینکریاٹائٹس کی سنجیدہ پیچیدگیوں میں شامل ہے۔ اس کے لیے ڈایالسس کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔
پھیپھڑوں کا کام متاثر ہوتا ہے جس سے جسم میں آکسیجن کی کمی پیدا ہوسکتی ہے۔
لبلبے کے انسولین بنانے والے خلیوں کے تباہ ہونے سے ذیابیطس کا خدشہ بھی رہتا ہے۔
لبلبے کے درست طریقے سے کام نہ کرنے سے ان اہم اینزائم میں کمی واقع ہوتی ہے جو کھانا ہضم ہونے میں مدد کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے جسم میں غذا کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔
کرانک پینکریاٹائٹس بڑھ کر پینکریاٹک کینسربھی بن سکتا ہے۔ یہ ایک خطرناک طرح کا کینسر ہے جس کے مریض چند مہینوں میں ہی مر جاتے ہیں۔
اکیوٹ پینکریاٹائٹس کا پہلا کیس 1653 میں ایک ڈچ اناٹومسٹ نکولس ٹیولپ نے پیش کیا تھا۔ اور آج 350 سال گذرجانے کے باوجود اس بیماری کے بارے میں بہت سے ایسے سوال ہیں جن کے جواب ہماری معلومات سے باہر ہیں۔ اب بھی اس بیماری کا علاج اتنا ہی ہے کہ مریض کھانا پینا بند کردے اور ان کو نسوں کے ذریعے نمکین پانی اور گلوکوز یا خوراک دی جائے جب تک لبلبہ خود ہی صحت مند ہوجائے۔ اس کے علاوہ جن افراد کو یہ بیماری ایک دفعہ ہوچکی ہو وہ حفاظتی اقدامات کی مدد سے دوبارہ بیمار ہونے سے خود کو بچا سکتے ہیں۔