2014 میں اس نے خود کشی کر لی اور چار دہائیوں پر محیط بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کا خاتمہ ہوا۔ مگر آٹھ ممالک میں تقریباً نوے سے زائد معصوم جن کا ریکارڈ ایف بی آئی کو سولہ گیگابائٹ کی ایک فلیش ڈرائیو میں موصول ہوا تھا اس کی ہوس کا نشانہ بن چکے تھے۔ جن کے بارے میں معلوم نہ ہو سکا ان کی تعداد شاید اس سے کہیں زیادہ ہوئی ہوگی۔
ولیم جیمز واہے امریکی طرز تعلیم کو عام کرنے والے بین الاقوامی سکولوں میں تاریخ کے بہترین استاذ کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتا رہا اور طلباء اس سے کافی لگاؤ رکھتے تھے۔ وہ نوعمر لڑکوں کو ساتھ لے جاتا، منشیات کے ذریعے بے ہوش کرتا، اپنی ہوس کا نشانہ بناتا، ویڈیو اور تصاویر بناتا اور اپنی تسکین کے لیے اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کر دیتا۔ بالآخر راز فاش ہو گیا۔ جہاں وہ رہتا تھا وہاں کی منتظم خاتون نے یہ سارا ڈیٹا چرا کر سکول انتظامیہ تک پہنچا دیا اور اس پہلے کہ تحقیق ہوتی جیمز نے خود کشی کر لی۔
آزادکشمیر کے ضلع ہٹیاں بالا میں بچوں سے جنسی زیادتی کے اسکینڈل کے بعد بچوں سے جنسی رغبت رکھنے والے بد ترین مجرم ولیم جیمز واہے کا بھولا ہوا کیس مجھے یاد آ گیا۔ جیمز جیسے نفسیاتی مریض ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ مرض لا علاج ہے اور اس طرح کی جنسی رغبت رکھنے والے (Pedophiles) کے جرائم محض حادثات یا نادانستہ غلطیاں نہیں ہوتیں۔ رچرڈ ہکل جو رواں سال ہی انگلینڈ کی ایک جیل میں کسی نامعلوم فرد کے ہاتھوں قتل ہو گیا جیمز کی طرح کا ایک اور مجرم تھا جس پر 71 مختلف کیس ثابت ہوئے تھے جن میں 6 ماہ سے لے کر 12 سال تک کی عمر کے بچے مختلف انداز میں اس کی درندگی کا نشانہ بنے تھے۔
ڈین کورل (Dean Corll) ، نیتھینیل بار جونہ (Nathanial Bar۔ Jonah) ، پیڈرو لوپییز (Pedro Lopez) ، سنیل رستوگی اور عمران علی زمان و مکاں کے کچھ فرق کے ساتھ ایک جیسے کردار ہیں۔ آپ تھوڑا وقت نکالیے اور ایسے مجرموں کی زندگی، جرائم کی تفصیلات اور متاثرہ لوگوں کی تعداد کے بارے میں پڑھیے، خوف کئی راتوں تک آپ کا پیچھے کرے گا اور ہو سکتا ہے جب آپ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے پیٹر جیرارڈ سکلی (Peter Gerard Sully) کے اس واقعہ کی تفصیلات پڑھیں، جس میں اس نے دو معصوم بچیوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد اپنے لیے قبر کھودنے پر مجبور کیا، تو شاید آپ اپنے بچوں کو اکیلے گھر سے کبھی نہ نکلنے نہ دیں۔
ہمارے ارد گرد ایسے بے تحاشا نفسیاتی مریض ہیں جو عموماً غیر معمولی اور غیر فطری جنسی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے معصوم کلیوں کو نوچ لیتے ہیں۔ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ کم عمر بچوں سے جنسی میلان محض حادثہ یا نادانستہ غلطی نہیں ہوتی بلکہ ایک لاعلاج مرض ہے جو کئی اور جرائم کا سبب بنتا ہے۔ یہاں تک کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیو گرافی باقاعدہ ایک آن لائن صنعت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ایک اور بات جو میں بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مرض کی وجہ جاہلیت نہیں ہے۔ انتہائی ذہین لوگ بھی کچھ خاص شکلوں میں اس بیماری کا شکار رہے ہیں۔ انگریزی ادب کے مشہور مصنف لیوس کیرل (Lewis Carroll) پر بھی پیڈوفائل ہونے کا الزام ہے۔ لہٰذا اسے جہالت سے منسوب کرنا بیوقوفی ہے۔
بچوں کے تحفظ کے ادارہ ساحل (SAHIL) کے Cruel Numbers چیخ چیخ کر پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے رجحان میں مسلسل اضافے کا رونا رو رہے ہیی مگر کسی کو پرواہ نہیں۔ ساحل کے اعداد و شمار کے مطابق 2012 میں پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے 2788 واقعات ریکارڈ کیے گئے جو گزشتہ سال بڑھ کر 3832 ہو گئے ہیں، جن میں 34 کیس آزادکشمیر سے ریکارڈ کیے گئے۔ 2012 میں زیادتی کا شکار ہونے والے لڑکوں کی تعداد 29 فیصد تھی جو 2018 میں بڑھ کر 45 فیصد ہو چکی ہے۔
یہ وہ تعداد ہے جو ریکارڈ کی گئی ہے، نامعلوم واقعات شاید اس سے کہیں زیادہ ہوں اور زیادتی کا شکار ہونے والے اکثر بچے اس اذیت سے بار بار گزرے ہوتے ہیں۔ پھر معاشرہ انہیں محض تفریح کے لیے جو جذباتی صدمات پہنچاتا یے وہ ایک الگ ہی موضوع ہے۔ اور انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ ساحل انتہائی سنجیدگی سے ہر سال ان واقعات کو کو رپورٹ کر رہا ہے مگر واقعات میں مسلسل اضافہ حکومت اور اداروں کی غیر سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
میں ایک اور گزارش بھی کروں گا کہ بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کو زنا کی طرح نہ دیکھا جائے جو غیر شرعی ضرور ہے مگر غیر فطری نہیں۔ یہاں تک کہ زنابالجبر میں بھی متاثرین اپنی پختہ عمر کی وجہ سے اس ذہنی صدمے سے نہیں گزرتے جس سے زیادتی کا شکار ایک بچہ گزرتا ہے۔ بچہ اور اس کا خاندان مسلسل ایک شدید جذباتی صدمے سے گزرتے ہیں جس کا اندازہ آپ شاید ہی کر سکیں۔
والدین عموماً ایسے واقعات کو شرمندگی سے بچنے کے لیے چھپا لیتے ہیں۔ مگر ہٹیاں بالا کے رہائشی امتیاز نقوی صاحب نے ایسا نہیں کیا۔ با شعور شہری کی حیثیت سے انہوں نے صرف اپنے بچے کا نہیں سوچا بلکہ پاکستان میں ہر دن جنسی تشدد کا شکار ہونے والے اوسطاً 10 بچوں کا سوچا۔ وہ اپنے بچے کی حفاظت میں کوتاہی کر گئے مگر دوسروں کے بچوں کی حفاظت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مبینہ طور پر 18 سے زائد بچوں کو بلیک میل کر کے جنسی زیادتی کا شکار بنانے والا گروہ مسلسل ان بچوں کو ہوس کا نشانہ بناتا رہا۔
بچوں کی وڈیوز بنائی جاتیں اور انہیں بار بار بلیک میل کیا جاتا۔ امتیاز نقوی صاحب کا بیٹا بھی زیادتی کا شکار ہونے والوں میں سے ایک ہے۔ گروہ کا ایک مرکزی ملزم توصیف گیلانی ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی گرفتار نہ ہو سکا۔ بظاہر مدعی کے ساتھ کئی لوگ کھڑے ہیں مگر انہیں میں سے کئی ملزم کے ساتھ ہمدردیاں بھی رکھتے ہیں۔ فیس بک کی کرامات سے جنم لینے والے کچھ صحافی اس با اثر ملزم کو بچانے کے لیے عوام کی ذہن سازی میں مشغول ہیں۔
اور کئی لوگ معاملے کی سنگینی سے ناواقف ہیں اور سمجھ نہیں رہے کہ ہم خود بچوں کے لیے غیر محفوظ ماحول پیدا کر رہے ہیں اور اس سنگین جرم کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں جو کہ انتہائی غیر سنجیدہ رویہ ہے۔ یاد رکھیں کہ اگر غیر جانبدارانہ تحقیقات نہیں ہوں گی، اگر ایک ملزم کو بھی جان بوجھ کر بچانے کی کوشش کی گئی تو کل کا سورج جن 10 دس بچوں کے لیے اندھیرے لے کر طلوع ہو گا ان میں ایک بچہ آپ کا بھی ہو سکتا ہے۔