ربع صدی پہلے کی بات ہے۔ چوبیس یا پچیس برس ہونے کو آئے۔ کسی کام سے راولپنڈی میں موجود ایک دفتر جانا ہوا۔ ریسیپشن پر موجود جوان نے نام پتہ پوچھنے کے بعد انتظار کرنے کا کہہ کر وہاں دھرے صوفوں کی طرف اشارہ کر دیا۔
اس زمانے میں موبائل فون شاید تھے نہیں یا اگر تھے تو عام نہیں تھے۔ ریسیپشن پر نصب لینڈ لائن پر اس احاطے میں موجود متعدد بلاکس میں قیام پذیر افراد کے لیے ان کے شہروں اور دیہات سے فون آتے ہوں گے۔ میری موجودگی میں بھی چند کالز آئیں اور ریسپشن والے جوان نے کچھ وقت بعد کال کرنے کا کہہ کر مطلوبہ افراد کو ریسپشن پر آنے کے پیغامات بھیج دیے۔
آج کل سمارٹ فونوں میں دلچسپیوں کے جہاں موجود ہیں، انتظار مسئلہ نہیں ہوتا۔ براستہ فون اور سوشل میڈیا جہاں چاہیں نکل جائیں۔ اس وقت لے دے کر اخبار ہی ہوتے تھے جو اس ریسیپشن پر دستیاب نہیں تھے۔ وقت گزاری کے لیے دیوار پر ٹنگے سبز مخملی کپڑے والے نوٹس بورڈ پر پنوں کے ذریعے ترتیب سے ٹانکے گئے مراسلے اور تصاویر دیکھنا شروع کر دیں۔
فون سننے والوں کے لیے ہدایات میں خبردار کیا گیا تھا کہ فون کی دوسری جانب موجود فرد کی مکمل شناخت کے بغیر کوئی معلومات نہ دیں۔ اس بات کی وضاحت کے لیے استعمال کی گئی تصویر میں ریسیور سے جڑی تار کے دوسرے سرے کو سانپ کی صورت دکھایا گیا تھا۔ یعنی انجان یا غیر متعلقہ لوگوں سے گفتگو میں بے احتیاطی آپ کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ سمجھ میں آنے والی بات تھی۔
شراب اور عورت سے بچنے کی ہدایات پر مبنی ایک پوسٹر بھی لگا ہوا تھا، جس کے ذریعے یہ سمجھانا مطلوب تھا کہ دشمن ان ”چیزوں“ کی ترغیب سے آپ کو اپنے چنگل میں پھنسا سکتا ہے۔ پوسٹر پر ان ”ترغیبات“ کی تصاویر بھی چھاپی گئی تھیں۔ شراب دکھانے کے لیے ایک کانچ کی بوتل تھی جس پر انگریزی میں وہسکی لکھا ہوا تھا۔ دوسری ترغیب کے لیے جو تصویر چھاپی گئی اسے دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور اس مضمون کا عنوان ایک سوال کی شکل میں ذہن میں ابھرا۔ اپنے حسن کی اداؤں سے پھانس کر جوانوں کو ملک دشمن سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے والا کردار دکھانے کے لیے ایک معروف پاکستانی اداکارہ کی تصویر کا انتخاب کیا گیا تھا۔ ذہن کے پردے پر کئی سوالات ابھرے، غصہ بھی آیا۔ سب سے زیادہ پریشان کن سوال یہی تھا ”آپ اتنے غیر حساس کیوں ہیں؟ “
انہی کوفت آور سوچوں میں گم تھا کہ وہ صاحب آ گئے جن سے ملنے گیا تھا۔ آمد کا مقصد بھول کر ان سے پہلا سوال ہی یہ پوچھا کہ ایک قومی فنکارہ کی تصویر کو دشمن کی ممکنہ چال کی نشان دہی کے لیے استعمال کرنا، خواہ علامتی طور پر ہی کیوں نہ ہو، انتہائی قبیح بلکہ مجرمانہ نوعیت کا فعل تھا۔ چلیں اگر یہ غیر ارادی طور پر ہوا ہے تب بھی کم از کم بدذوقی کی تو انتہا ہے اور اس پاکستانی شہری کی توہین ہے۔ آپ اتنے غیر حساس کیوں ہیں؟ میرے بے چین تبصرے اور سوال کا جواب البتہ یہ ملا کہ ہم غیر حساس نہیں تم غیر ضروری حساسیت کا شکار ہو رہے ہو۔ جواب سے کوفت میں اضافہ ہی ہوا۔
کوفت کا علاج یوں کیا کہ واپس آتے ہی اس واقعے کو خبر کی شکل میں لکھا اور ملک کی اولیں خبر رساں ایجنسیوں میں سے ایک میں اپنے سینیئر کے سامنے ایسے رکھی جیسے اس روز کا سکوپ وہی ہو۔ اس ایجنسی سے ”زیر تربیت صحافتی رنگروٹ“ کے طور پر وابستہ تھا اور وہ سینیئر میرے استاد تھے۔ استاد جی کے ڈیسک پر نظریں گاڑے سوچوں ہی سوچوں میں انہیں خبر دیکھتے ہی پھڑک اٹھتے اور خود کو شاباش وصول کرتے دیکھ رہا تھا۔ ادھر آؤ کی آواز آئی اور ساتھ ہی دوسرا سوال کہ یہ کیا ہے؟ اس کے بعد بہت سی شاباش ملی، خلاصہ جس کا یہ تھا کہ اپنی اوقات دیکھ اور حساسیت دیکھ۔ ساتھ ہی استاد جی نے علم میں یہ اضافہ بھی کیا کہ غیر حساس نہیں وہ دفتر حساس ہے تمہیں شعور نہیں۔
اس روز باقی کا وقت دفتر میں اپنی حساسیت کو کوستے اور بد دلی سے خبریں بناتے گزارا۔ موٹے شیشوں والی عینک لگانے والے استاد جی نے چھٹی سے تھوڑا وقت پہلے اٹھایا اور دفتر کی سیڑھیاں اتر کر چائے کے کھوکھے پر لے گئے۔ چائے پیتے ہوئے جب انہوں نے بتایا کہ تمہاری خبر ایک حماقت تھی اور کاش کہ ہم ایسی حماقتیں چھاپ سکتے تو کوفت دور ہو گئی۔ استاد محترم دلجوئی کر رہے تھے۔
آج پولیس ٹریننگ کالج سہالہ کی ایک ویڈیو فیس بک پر دیکھنے کو ملی۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تربیت کار زیر تربیت پولیس اہلکاروں کو مظاہرین سے نپٹنے کی تربیت دے رہے ہیں۔ جو ایک طرف سے سر پر ”لال پٹیاں“ باندھے اور ”سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے“ کے نعرے لگاتے آ رہے ہیں۔ زیر تربیت اہلکار ان آلات سے لیس ہیں جو متشدد مظاہرین سے نپٹنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ مظاہرین کے قریب آنے پر پولیس اہلکار اپنی دفاعی پوزیشن مستحکم کرتے ہیں۔ اسی اثنا میں مظاہرین پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ شروع کر دیتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر میرے ذہن میں ربع صدی پہلے والا سوال دوبارہ ابھرتا ہے، آپ اتنے غیر حساس کیوں ہیں؟
ہم مغربی دنیا میں مسلمانوں کی سٹیریو ٹائپنگ پر بجا اعتراض کرتے ہیں؟ ہر داڑھی والا دہشت گرد نہیں ہوتا۔ ہر پگڑی والا خود کش نہیں۔ ہمیں اسلاموفوبیا پر اعتراض ہوتا ہے۔ اور درست اعتراض ہوتا ہے۔ نائن الیون کے بعد اسلاموفوبیا کے زیر اثر ہی امریکہ میں سکھ کمیونٹی کے ارکان کو بھی داڑھیوں اور پگڑیوں کی وجہ سے تشدد آمیز ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن کیا ہمیں صرف وہی سٹیریو ٹائپنگ بری لگتی ہے جو مغربی دنیا میں مسلمانوں کے حوالے سے موجود ہے یا ہم اصولی طور پر اس رویئے کو غیر حساس، غیر منصفانہ اور انسانی عظمت کے خلاف سمجھتے ہیں؟
مذکورہ بالا دو مثالیں جن کے مابین تقریبا چوتھائی صدی کا وقفہ ہیں، کیا ثابت کرتی ہیں؟ کیا ہم اپنے ہی ہم وطنوں کی سٹیریو ٹائپنگ نہیں کر رہے؟ کیا ہم اپنے قومی اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو بلاواسطہ اور بالواسطہ دونوں طریقوں سے چند مخصوص سوچوں، نظریات اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے متنفر نہیں کر رہے؟ کیا ہم ان کی ذہن سازی نہیں کر رہے کہ خوب صورت عورتیں خطرناک ہو سکتی ہیں؟ کیا ہم پولیس کو بالواسطہ ”ولن“ کی مخصوص شناخت کا سبق نہیں دے رہے؟ آپ اتنے غیر حساس کیوں ہیں؟