میرے ہم عمرافراد اور یہ نسل شاید انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ اداس نسل ہے، جہاں اکثریت ایسے گھمبیر سماجی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کی جکڑ میں ہے کہ نہ تو ان مسائل کا کوئی علاج ہے اور نہ بچاؤ، ہماری نسل اس وقت انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ کام کررہی ہے، لیکن پھر بھی وہ بنیادی ضروریات کی اشیاء، صحت اور تعلیم کی بنیادی ضروریات کو پوری کرنے سے قاصر ہیں۔
جب بھی آپ نے معاشرے کے حالات کا جائزہ لینا ہو تو آپ کوہارٹ انیلسسز کرتے ہیں، جب میں اپنے ارد گرد اپنے ہم عمر افراد جن کی اکثریت کا تعلق ملنیلز یا جنریشن ایکس سے ہے کو دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ سب سے دکھی اور تناؤ کا شکار نسل ہے۔ ویسے تو حالات کی چکی سب کو ہی پیس رہی ہے، لیکن مجھ سمیت میرے اکثریتی دوست گیارہ سے بارہ گھنٹے کی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں، ان کو ہفتے میں چھٹی کا ایک دن بھی کبھی مل پاتا ہے اور کبھی نہیں، وہ موبائل فون، ای میلز کے ذریعے کبھی بھی کام سے فارغ نہیں ہوتے اور اکثر اپنے گھر میں بھی کام سے کسی نہ کسی صورت جڑے رہتے ہیں، ظاہری بات ہے اس سب سے ان افراد کی ذہنی صحت پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
زیادہ تر اپنی نوجوانی میں ہی انزائٹی یا ڈپریشن کا شکارہورہے ہیں، کچھ کو جوانی میں ہی بلڈ پریشر، ڈائبٹیز، ہائپر ٹینشن ہو چکا، کئی ایک اس ذہنی تناؤ کو کم کرنے کے لئے نشے سے سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں، عمومی اکثریت کام کی شدت اور وقت کی کمی کی وجہ سے محدود یا نہ ہونے کے برابر سماجی رابطے بنا پاتے ہیں، جس سے ان میں احساس تنہائی اور گھٹن مزید بڑھ جاتا ہے۔
اس وقت کوئی بھی سفید ہاتھی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کسی طور پر بھی تیار نہیں ہے، لیکن ہماری نسل سے کولھو کے بیل کی طرح کام لے کر اسے چنوں پر گزارا کرنے کے لئے کہا جارہا ہے، اوپر سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، کرائیوں میں اضافہ وغیرہ جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔ جہاں ترقی کا معیار انسانی زندگی کو بہتر کرنا یا خوشی کو بڑھانا ہونا چاہیے، وہاں پاکستان میں اس وقت ترقی کا مطلب کم سے کم لوگوں سے زیادہ سے زیادہ کام لینا بن کر رہ گیا ہے اور ان میں مقابلے کا احساس جو دراصل اس سسٹم کے مفادات کو پورا کرے کے لئے ہے، ان کی بے چینی کو مزید ابھارتا رہتا ہے، جس سے نہ صرف فرد کی انفرادی ترقی محدود ہوگئی اور اسی وجہ سے فوائد کی بہ نسبت نقصانات بدریج بڑھ رہے ہیں۔ اس سب کے دوران لیبر قوانین اور دیگر سیفٹی میکانزم کو روند کر کچرے کے ڈبے میں پھینکا جاتا ہے اور اگرآپ کا واسطہ کسی بھی نیم کارپوریٹ کمپنی یا چھوٹے کاروبار سے رہا ہے توآپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ قانون صرف کتابی باتیں ہیں اور کچھ نہیں۔
ایک ماہر قانون سے گفتگو کرتے ہوئے علم ہوا کہ لیبر لاز میں اس حوالے سے قانون سازی ہے، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ دفتروں میں اس حوالے سے بات کرنا، نوکری سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔ یقین مانیے میں یہ تجربہ کر کے اس کے رد عمل سے گزر چکا ہوں۔ اب آپ مجھے کام چور کہیں، یا کچھ اور لیکن شاید میں انوکھا ہی ہوں، جو دل لگا کر ایک طے شدہ وقت جو بین الاقوامی معیار کے عین مطابق ہے پر کام کرکے گھر جا کر زندگی کے دوسرے پہلوؤں سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں، اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا ہوں، تھوڑی موسیقی، شاعری سننا چاہتا ہوں، دوستوں یاروں کے ساتھ وقت بتانا چاہتا ہوں، تو کیا یہ ایک عیاشی ہے؟
کیا مناسب کام کرنے کے اوقات پر بات کرنا اور کام کی زیادتی سے تنگ آنا کوئی اچھنبے کی بات ہے؟ کیا روزانہ گیارہ، بارہ، تیرہ گھنٹے کام کرنا ہی ہماری نسل کا مستقبل رہ گیا ہے؟ کیا اس سب کے بعد ہمارے مستقبل بہتر ہوپائیں گے؟ کیا ہمیں مستقبل کا تحفظ مل پائے گا؟ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر گوگل کرنے پر بھی آپ کو اس حوالے سے کچھ نہیں ملے گا۔ جی ہاں! لکھئے work hours in Pakistan، میرے لئے حیرانی کی بات تھی کہ انٹرنیٹ پر ایک نجی بینک کے علاوہ اور ایک مقامی کپڑوں کے برینڈ کے علاوہ کوئی رپورٹ اس پر موجود ہی نہیں، یا تو میں کسی اور پاکستان سے تعلق رکھتا ہوں جس میں میڈیا ہاؤسز، فیکٹریوں سے دکانوں تک لوگ عمومی طور پر گیارہ بارہ گھنٹے اور تیرہ گھنٹے تک روزانہ ڈیوٹی دیتے ہیں، یا پھر شاید یہ مسئلہ تصور ہی نہیں کیا جاتا؟
ابھی چند دنوں پہلے میرے آفس میں ایک ساتھی ایک دن دھاڑیں مار کر رونا شروع ہوگیا، اس کا بریک ڈاؤن ہوگیا تھا کیونکہ وہ کئی ہفتوں سے متواتر تیرہ گھنٹوں سے زیادہ روزانہ کی بنیادوں پر کام کررہا تھا اور اس کا جسم اور دماغ شاید اپنی برداشت کی حد سے باہر نکل گئے تھے۔ ڈاکٹر نے سٹریس کا کہا اوردوائیں لکھ کر دیں لیکن، یہ نوکری ہی اس کی بیماری کی اصل وجہ ہے۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں، میں ایسے واقعات مختلف کیفیات ایک عرصے سے دیکھتا آرہا ہوں اور خود بھی ایسے تجربات سے گزرا ہوں یہی وجہ تھی اس تحریر کو لکھنے کی کیونکہ میں اپنے ارد گرد کئی ایک ساتھیوں کو دیکھ چکا ہوں، اجڑے بال، دھنسی ہوئی آنکھیں، کام میں الجھے لوگ اور مسکراتے، صحت مند سیٹھ جو ان کے خون پسینے کی محنت سے ہر وہ خوشی حاصل کرتے ہیں جو ان کے لئے کام کرنے والے شاید زندگی بھر حاصل نہیں کر پائیں گے۔
خدارا اس پر بات، قانون سازی کریں اور بولیں ورنہ یہ نسل بھی کہیں اس دلدل میں پھنس کرایک اداس نسل نہ بن جائے اور ہم جانتے ہیں کہ اداس نسلیں نہ تو جی پاتی ہیں اور نہ ہی کسی اور کو جینے دیتی ہیں۔ اندر سے سسکتے اور محرومیوں کے مارے لوگ کبھی صحت مند نسلیں پروان نہیں چڑھا سکتے اور نہ ہی معاشرے کو مثبت سوچ پر پنپتا دیکھ سکتے ہیں، لہذا زندہ لاشیں بنانا بند کریں اور بنیادی حقوق ہمیں لوٹا دیں تا کہ ہم بھی زندگی جی سکیں کیونکہ زندگی ایک ہی بار ملتی ہے۔