دلیپ کمار اور مدھوبالا کی محبت ہندوستانی فلم کی تاریخ کا ایک جادوئی باب ہے۔ دلیپ کمار نے 1922 میں پشاور میں آنکھ کھولی جب کہ مدھو بالا 14 فبروری 1933 کو دہلی میں پیدا ہوئییں۔ 1942 میں مدھو بالا پہلی بار ایک فلم میں جلوہ گر ہوئے۔ اس برس بننے والی فلم بسنت میں مدھو بالا نے اپنے حقیقی نام ممتاز سے اداکارہ ممتاز شانتی کی بیٹی کا رول کیا تھا۔
مدھوبالا کو مقبولیت 1949 میں بنی فلم محل سے حاصل ہوئی جس کا مشہور گیت ’’آئے گا آنے والا‘‘ لتا نے گایا تھا۔ محل کے بعد مدھو بالا نے دلاری ، بے قصور ،ترانہ اور بادل میں کام کیا۔ 1950 کی دہائی میں مدھو بالا کی مقبولیت ہالی ووڈ تک پہنچ گئی ۔ امریکی میگزین کے سرورق پر اس کی تصویر 1952 میں شائع کی گئی۔ معروف امریکی ہدایت کار فرینک کاپرا نے مدھوبالا کو ایک فلم میں کردار کی پیش کش بھی کی لیکن مدھوبالا کے والد عطا اللہ خان اس کیلئے راضی نہیں ہوئے۔ مدھو بالا نے محبوب خان ،گرودت، کمال امروہی اور کے آصف جیسے ہدایت کاروں کے ساتھ کام کیا۔ مدھو بالا 1942 سے 1960 تک فلمی صنعت پر چھائی رہیں۔
مدھو بالا کی دلیپ کمار سے ملاقات 1944 میں فلم جوار بھاٹا کے سیٹ پر ہوئی تھی۔ دونوں نے فلم ہار سنگھار (1949) میں بھی ایک ساتھ
کام کیا۔ فلم ترانہ (1951) سے ان کی دوستی شروع ہوئی اور جلد ہی ان کے عشق کے چرچے ہونے لگے۔ قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور عطا اللہ خان دونوں کی محبت کے آڑے آگئے ۔ یہ عاشقی مغل اعظم کی شوٹنگ سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔
دلیپ کمار نے اپنی سوانح حیات میں بتایا ہے کہ وہ اور مدھوبالا ایک دوسرے سے بے انتہا محبت کرتے تھے اور شادی بھی کرنا چاہتے تھے، لیکن مدھوبالا کے والد ان کی راہ میں حائل ہو گئے۔ دراصل مدھوبالا کے والد عطااللہ نے ایک فلم کمپنی بنا رکھی تھی۔ عطاللہ مدھو بالا کو سونے کی چڑیا سمجھتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ دلیپ کمار اور مدھوبالا صرف ان کے پروڈکشن ہاؤس کے لیے ہی کام کریں۔ دلیپ کمار اس عہد کے کامیاب ترین اداکار تھے اور اس قسم کی شرط کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔ دلیپ کمار کے مطابق وہ مدھوبالا کے والد کے ہاتھوں کا کھلونا نہیں بننا چاہتے تھے۔ مدھوبالا نے اس معاملے پر دلیپ کمار کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے اور اس طرح دونوں ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔ دلیپ کمار اور مدھوبالا بمبے فلم انڈسٹری مین چوٹی کے ستارے سمجھے جاتے تھے۔ دونوں کی جوڑی سلور اسکرین پر بےحد کامیاب تھی لیکن 1960 میں ہدایتکار کے آصف کی فلم ’مغل اعظم‘ کے بعد دونوں نے کبھی ایک ساتھ کام نہیں کیا۔
دلیپ کمار اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں، ’’مجھے ماننا چاہئے کہ میں مدھوبالا کی جانب کھنچتا چلا گیا۔۔۔ بطور فنکارہ بھی اور بطور ایک شخصیت کے بھی۔۔۔۔۔ وہ کچھ ایسی خوبیاں رکھتی تھیں جو میں اس زمانے اور عمر میں ایک خاتون میں دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔ اپنی زندہ دلی کی مدد سے وہ کچھ زیادہ کوشش کئے بغیر ہی مجھے میرے شرمیلے پن اور خاموشی سے باہر لے آئیں۔‘‘
کے آصف کی’’ مغل اعظم‘‘ کی فلم بندی کے دوران دونوں کی محبت اپنے عروج پر تھی۔ ان دونوں کے جذباتی لگاؤ نے اس دور کی شہ سرخیوں میں جگہ بنا لی۔ بدقسمتی سے اس طویل کلاسیکی فلم کی تیاری کے دوران معاملات بری طرح سے خراب ہوتے چلے گئے۔ دلیپ کمار لکھتے ہیں ” مدھو کے والد نے ہماری محبت کو کاروباری معاہدہ بنانے کی کوشش کی۔ اس سے ہمارے باہمی تعلقات خراب ہونا شروع ہو گئے۔ نتیجہ یہ کہ’مغل اعظم‘ کی تیاری کے عین وسط میں ہم دونوں کی بات چیت مکمل طور پر بند ہو گئی تھی۔ ’’پر ‘‘ کے ساتھ فلمایا جانے والا کلاسیکی منظر، ہم دونوں کے لبوں سے اس وقت ادا ہوا، جب ہم دونوں ایک دوسرے کو سلام کرنا بھی چھوڑ چکے تھے حالانکہ اس منظر نے کروڑوں لوگوں کے جذبات بھڑکا دیے تھے۔‘‘
بی آر چوپڑا کی فلم ’نیا دور‘ پر اٹھنے والے ایک تنازع نے فلم بینوں اور میڈیا کو حیران کر دیا۔ نیا دور میں دلیپ کما ر کے مقابل مدھو بالا کو کا سٹ گیا تھا ۔ لیکن فلم کی آؤٹ ڈور شوٹنگ کے لیے مدھو بالا کے باپ عطا اللہ نے اسے اجا زت نہ دی جس پر پر وڈیوسر نے ایڈوانس دئیے گئے معاوضے کی واپسی کا مطالبہ کیا اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مدھو بالا کو عدالت میں لے آیا ۔ دلیپ کما ر کو مدھو بالا کے باپ کے حوالے سے پہلے ہی رنجش تھی چنا نچہ انہوں نے کمرہ عدالت میں موجو د مدھو بالا کے خلا ف گواہی دی۔ عدالت نے مدھو بالا کے خلاف فیصلہ دیا ۔ میڈیا نے اس کیس کو خوب اچھالا اور یو ں فلم نیا دور کو تکمیل سے قبل ہی شہر ت مل گئی لیکن ایک شاندار فلمی محبت کا اختتام ہو گیا ۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت میں جنس مخالف کا دل موہ لینے کا سحر موجود تھا۔ دلیپ کمار سے عشق میں ناکامی کے بعد بھٹو نے مدھوبالا کو اپنی محبت کا سہارا دیا۔ جب مدھو بالا کی فلم مغل اعظم فلمائی جا رہی تھی تو ذوالفقار علی بھٹو ’’موہے پنگھٹ پہ نند لعل چھیڑ گئو رے۔۔۔‘‘ گانے کی پکچرائزیشن میں مدھو بالا کے خاص مہمان کی حیثیت میں سیٹ پر گھنٹوں موجود ہوتے تھے۔ نوشاد نے اس گانے کی موسیقی راگ پیلو میں ترتیب دی تھی۔ بھٹو نے اس شاندار موسیقی سے متاثر ہو کر نوشاد کی تعریف کی۔ وہ اس گانے کو سنتے ہوئے مسحور ہو جاتے تھے۔ گانے کی ریکارڈنگ کے دوران بھٹو مدھو بالا کی دلفریب اداکاری کو انتہائی انہماک سے دیکھا کرتے اور ریکارڈنگ کے بعد وہ اداکارہ کے ساتھ ڈنر پر جاتے اور کئی کئی گھنٹے ان کے ساتھ گزارتے۔ مدھو بالا پر تحقیق کرنے والی خاتون رائٹر خدیجہ اکبر نے مدھو بالا کی ڈائریوں کی مدد سے انکشاف کیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو مدھو بالا سے انتہائی متاثر تھے۔ ایک اور معروف لکھاری سوشیلا کماری نے بھی مدھو بالا کی زندگی پر اپنی تحقیقی کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو کے مدھو بالا سے مبینہ عشق کی تفصیل لکھی ہے۔ اس دور میں بھٹو بطور بیرسٹر پریکٹس کر رہے تھے۔ وہ عارضی طور پر 1954/58 ممبئی کے ساحلی علاقہ ورلی میں بھی قیام کرتے تھے ان کی یہاں کافی جائیداد تھی۔ بھٹو اپنی کزن شیریں بیگم اور نصرت بھٹو سے شادیاں کر چکے تھے اور مدھو بالا سے بھی عشق فرماتے تھے۔ روایت بیان کی جاتی ہے کہ ممبئی میں قیام کے دوران بھٹو نے مدھو بالا سے تیسری شادی کا فیصلہ کیا۔ اگر وہ ان سے شادی کر لیتے تو انہیں پاکستان کی خاتون اوّل بنا لیتے۔ اس وقت بے نظیر بھٹو کی عمر ڈیڑھ سال تھی۔ مدھو بالا کے عشق میں گرفتار بھٹو کئی سال تک لاڑکانہ کراچی اور ممبئی کے درمیان سرگرداں رہے۔
تاہم میدان سیاست میں اترنے کے بعد انہوں نے مدھو بالا سے راستے جدا کر لئے۔ 1958 میں اسکندر مرزا کی حکومت میں وہ سب سے کم عمر وزیر بن گئے تو مدھو بالا کشور کمار کی طرف متوجہ ہو گئیں اور 1960 میں ان سے شادی کرلی.