زندگی کے بائیس سال گزر گئے، کچھ خواہشوں کو قتل کیا، کچھ خواہشوں کو قربان کیا اور کچھ خواہشیں خود ہی دم توڑ گئیں۔
بائیس سال میں سب سے زیادہ اپنے باپ کے لیے جیتی رہی۔ بہت مشکل ہوتا ہے کسی اور کے لیے جینا۔ مگر اس معاشرے کی ہر لڑکی اس دور سے گزرتی ہے۔
مجھے لگتا ہے میں نے اپنی عمر میں وقت سے پہلے ہر چیز کو سمجھ لیا ہے جو کہ بہت ہی سنگین غلطی ہے میرے لیے۔
پہلی بار جب پیریڈز ہوئے تو اماں نے ایک کتابچہ میرے ہاتھ میں تھما دیا جس میں “پینٹی پر پیڈ کیسے چپکایا جاتا ہے” سے لے کر استعمال شدہ پیڈ کو کیسے ڈسپوز کرنا ہے اور اگلے ماہ کے پیریڈز تک ساری ہدایات موجود تھیں۔ اس میں جو سب سے زیادہ بات سمجھ آئی وہ صفائی تھی کہ خود کو صاف کیسے رکھنا ہے۔
اماں ابا نے مجھے شروع سے ہر بات کتابوں کے ذریعے سمجھائی۔ اسلامی تعلیمات سکھانے میں تو کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ کالج سے واپسی پر راستے میں مدرسے چلے جانا، وہاں سے مغرب کے بعد گھر واپس لوٹنا۔ بھوک لگی ہوتی تھی تو مدرسے کے ساتھ ابو کا کارخانہ تھا کپڑے کا، وہاں چلے جانا بےدھڑک، سب کاریگروں کے سامنے ابا کو دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے اور وہ مجھے سب کے سامنے کہتے کہ میرے گُڈے کو بھوک لگی ہے اور مجھے اپنے بازوؤں میں اٹھا کر آفس والے کمرے میں لے آتے تھے اور پھر کچھ انتظار کے بعد میرے سامنے مختلف قسم کی بیکری کی آئٹمز اور چائے آ جاتی تھی۔ آج بھی ابا کے اس آفس میں پڑی ہر چیز کی ترتیب یاد ہے ہر کتاب یاد ہے ابا نے لو اسٹوری والی کتابیں دور چھپائی ہوتی تھیں کہ میرا گڈا نہ پڑھ لے۔
ابا جب بہت خوش ہوتے تو وہ میرے لیے جو چیزیں لاتے تھے وہ بہت کامن ہیں، بچوں کی کہانیوں کی کتابیں، رسائل، مختلف قسم کے پین، بیکری کی نئی سے نئی آئٹم، اور لکڑی کے بنے ہوئے گھوڑے۔
مجھے نہیں یاد کہ ابا نے مجھے کبھی کوئی گڑیا لاکر دی ہو۔ جب میں بڑی ہوگئی تو میرے لیے اخبار لاتے۔ وہ اخبار جو صبح ان کے کارخانے میں آتا تھا وہ میں شام کو پڑھتی تھی یا کبھی سو جانے پر اگلی صبح پڑھتی تھی۔
جب میں سوئی ہوتی تو ابا نے آکر ہمیشہ ماتھا چوم کر کہنا کہ میرا گڈا سوتے ہوئے منہ نہیں کھولتا، بہت تمیز کے ساتھ سوتا ہے۔ یہ بات اکثر میں تب سنتی تھی جب میں کچی نیند سے جاگ جاتی تھی لیکن آنکھیں نہیں کھولتی تھی۔
ہر بات اور تمام معلومات جو ابا کے منہ سے سننے کو دل کرتا تھا، وہ ابا کی دی ہوئی کتابوں سے ملتی تھیں۔ ایک بار ابا جاسوسی ڈائجسٹ لائے جسے میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے دراز سے نکالا۔ اس میں ڈراؤنی کہانی کے ساتھ رومینس کا بھی خوب تڑکا لگا ہوا تھا پھر مجھے سمجھ آیا کہ یہ ڈائجسٹ میرے پاس آنے سے پہلے ابا کی دراز میں کیوں پڑا ہوا ہے۔ ڈرتے ہوئے اس ڈائجسٹ کو اسی ترتیب سے دراز میں واپس رکھا کہ ابا کو اس کے ہلنے کی بھنک نہ پڑ جائے۔ یہ وہ چھوٹی چھوٹی چوریاں ہیں جو ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہیں۔ اور مجھے اس پر کوئی پشیمانی بھی نہیں۔
ہر سالگرہ پر ابا کو اگر یاد رہتا تو وہ مجھے ایک بات کہتے کہ ابھی تم نے بہت محنت کرنی ہے، بہت آگے جانا ہے اور اس کے لیے تم خود ہی اپنا سب سے بڑا سہارا ہو۔ آج میں بہت دکھ اور کرب کے ساتھ سوچتی ہوں کہ ابا نے کبھی گڑیا نہیں لا کر دی تھی۔ گھوڑے لا کر دیے، اسکا کیا مطلب ہے۔ یا تو وہ مجھے لڑکیوں کی طرح روایتی نہیں بنانا چاہتے تھے اور گھوڑے لاکر دینا مطلب وہ مجھ سے فولاد جیسی مضبوطی چاہتے تھے، گھوڑا جو وفادار، طاقتور اور ہمیشہ چلتا رہتا ہے، سفر کرتا ہے۔ لیکن آج جب مجھے روایتی اور مشرقی جیسے لفظ سے بھی الجھن ہوتی ہے، میں سفر کرنا چاہتی ہوں۔ فولادی ارادے پورے کرنے ہیں تو مجھے الگ سمجھا جاتا ہے؟ میرا اس میں کیا قصور ہے؟
میری پرورش ایک پڑھی لکھی صابر اور مذہبی ماں نے بھی کی ہے۔ مگر اس نے کبھی مجھے ناچ گانے سے نہیں روکا کبھی کپڑوں کی پیمائش سے میری پسند کو برا نہیں جانا۔
میرے ابا جو ہمیشہ میرے باہر جانے سے پہلے مجھے کہتے ہیں کہ کچھ حاصل کرنا اور نمایاں حیثیت قائم کرنی ہے۔
آج ان کو کیوں لگتا ہے کہ میری شادی کی عمر ہے جب کہ میرے پاس حاصل جمع میں کچھ بھی نہیں ہے۔ میں سالگرہ کا کیک کاٹنے کی بجائے انسانیت کی طرف قدم بڑھانے کو ترجیح دوں گی۔ میں انسانیت کو سیکھنا، سمجھنا، پڑھنا، جاننا اور اس کے لیے پرچار کرتے ہوئے زندگی کا سفر پورا کرنا چاہتی ہوں۔
میرے نزدیک شادی صرف ساتھ سونے کے لائسنس کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ اس لائسنس کے ملنے سے پہلے اور بعد میں آپ وہی کھا پی رہے ہیں، وہی زندگی، وہی چہرے، ہاں ذمہ داری ہے جو دونوں طرف بڑھ جاتی ہے، اب اس ذمہ داری کو کون کیسے پوری کرتا ہے وہ سب کی اپنی اپنی کہانی ہے۔
بہت سے لوگوں کو اس تحریر کا جمع حاصل سمجھ نہیں آرہا ہوگا مگر کچھ تحریریں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ہر بات کتاب سے سکھانے والے ماں باپ بہت عظیم سوچ کے مالک ہوتے ہیں اور میں ایسی سوچ کو شادی جیسے کمزور، تکلیف دہ، غلامی، سمجھوتے کے ڈھول میں ڈال کر پیٹنا نہیں چاہتی۔
ابھی تو بائیس سال گزرے ہیں۔ ابھی تو بہت امتحان ہیں۔ بہت بڑی دنیا ہے پاکستان سے باہر، جو دیکھی ہی نہیں۔ ابھی تو پیراگلائیڈنگ کے وقت لائیو سٹریمنگ کرنی ہے۔ ابھی تو گھڑ سواری کرنی ہے۔ وہ گھوڑے کسی اصطبل میں میری سواری کا انتظار کر رہے ہیں جو ابا نے لا کر دیے تھے۔ ابھی ان پینز نے بہت کچھ لکھنا ہے جو ابا نے لا کر دیے ہیں۔ ابھی بیکری کی وہ سبھی آئٹمز پیاری پیاری دوستوں کے ساتھ ڈھلتی ہوئی شام میں بیٹھ کر چائے کے ساتھ کھانی ہیں۔ ان ذائقوں سے ابا آج بھی متعارف کرواتے ہیں کیونکہ مجھے دوستی سے زیادہ کوئی بھی رشتہ قابل اعتبار نہیں لگتا۔
ابھی تو بہت سی کتابیں پڑھنی ہیں جن میں سب سے دلچسپ میری اپنی زندگی کی کتاب ہے۔
ابھی تو بائیس سال گزرے ہیں۔ ابھی تو مجھے سر کے سفید بالوں کے ساتھ میرون کلر کی ساڑھی پہننی ہے۔ ابھی تو میں نے تیس سال کی عمر کے لیے خود کو بہت کچھ سکھانا ہے۔ اس کو مجھ سے بات کر کے جو احساس ہوا تھا کہ یہ کوئی میری عمر کی لڑکی ہے مگر تب میں اس سے بہت سال چھوٹی نکلی اور وہ حیران ہوا۔ اس تیس سال میں جا کر میں خود کو وہ محسوس کر سکوں جو اس نے میرے بارے میں محسوس کیا تھا۔ کتنا لمبا ایجنڈا ہے۔
پلیز پاپا، تیرے گڈے کو بائیسویں سالگرہ پر شادی کی پروپوزل کا تحفہ نہیں چاہیے۔