لڑکھڑاتی زبان سے نکلنے والے بے ربط الفاظ ایسے ادا ہو رہے تھے جیسے ایک مجرم طاقتور ظالم حاکم کے سامنے پیش ہو۔ اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہاہوں۔ خیالات منتشر ہوں اور زبان ساتھ نہ دے رہی ہو۔ جسے یقین ہو کہ کچھ بھی کہ دیا جائے فرد جرم عائد ہو کر رہے گی۔ کچھ ایسی ہی حالت اس وائرل ہونے والی ویڈیو میں ہے جسے اسسٹنٹ کمشنر اٹک کی ویڈیو بتایا جا رہا ہے۔ ایک گلی کے لونڈے کی اوٹ پٹانگ گفتگو کو موقر قرار دیا جاتاہے۔ اسے یہ بھی اجازت ہے کہ اس خاتون آفیسر سے بیہودہ لہجے میں مخاطب ہو۔ اس سے تفتیش کرے۔ اس کے ایمان کا امتحان لے اور پھر اسے مسلمان یا کافر ہو نے کا سرٹیفیکیٹ دے۔
یہ صرف ایک ویڈیو نہیں بلکہ تعفن زدہ بے حس معاشرے کی ایک جھلک ہے۔ جہاں خود ساختہ خدائی فوج دار ہر دم لٹھ اٹھا کر دوسروں کے ایمانوں کی پیمائش کرتے پھرتے ہیں۔ اور جو ذرا بھی ان سے اختلاف کرنے کی جرأت کرے اسے سبق سکھانے کی تاڑ میں رہتے ہیں۔ آئین اور قانون کی ضرورت کے لئے کافر قرار دیے گئے احمدی ان لٹھ برداروں کے نشانے پر ہمیشہ سے رہے ہیں۔ پر احمدیوں نے کبھی قانون ہاتھ میں لیا نہ روڈ بلاک کیے۔ دھرنے دیے نہ سیکورٹی خیرات مانگی۔ چپ چاپ اپنے قبرستان بھرتے چلے جا رہے ہیں۔
ایک سرکاری دفتر میں دیگر افسران کی موجودگی میں ایک مجاہد اس خاتون سے تفتیش کر رہا ہے کہ اس نے احمدیوں کا نام کیوں لیا؟ احمدیوں کو کافر سمجھتی ہیں یا نہیں؟ اس پڑھی لکھی معزز خاتون کی بے بسی اور لڑکھڑاتی زبان اس معاشرے اوراس خود ساختہ ریاست مدینہ کے منہ پر طمانچہ ہے۔ عاشقان ریاست مدینہ کو خبر ہو کہ ریاست مدینہ اصولوں پر ایستادہ تھی۔ زبانی جمع خرچ، جھوٹ، نفرت، بے اصولی کے ستونوں پر اس کی بنیاد نہیں تھی۔ اس کے در دیوار اقلیتوں اور غیرمذاہب کے خون سے رنگین نہیں تھے۔
کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ ریاست مدینہ میں بھی کبھی اس قسم کا کوئی واقعہ ہوا ہو۔ سب سے بڑے دشمن یہودی تھے ان کے ساتھ نہ صرف ریاست مدینہ نے معاہدات کیے بلکہ ان کی پاسداری بھی کی۔ ہیڈ آف اسٹیٹ اور ہیڈ آف ریاست مدینہ نے ان یہودیوں کی دعوت بھی قبول فرمائی جبکہ ا س میں زہر ملا کر قتل عمد کی کوشش بھی کی گئی تھی۔
احمدی کافر ہیں یا نہیں انہیں اپنے اعمال کے لئے خدا کے سامنے جوابدہ ہونے کے لئے چھوڑ دیں۔ اقلیتوں اور احمدیوں کو قتل کرنے کے بجائے اپنے اعمال پر نظر کیجئے۔ دوسروں پر اسلام نافذ کرنے کے بجائے اپنے پانچ فٹ کے جسم پر تواسلام نافذ کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں بیس کروڑ عوام پر کیسے اور کون سا اسلام لاگو کرلیں گے۔ یہ صرف چھچھورا پن ہے۔ یہ اپنے آپ پر یقین نہ ہونے کی علامت ہے۔
یہ معززخاتون آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماں بھی ہے۔ اور اس وقت اس کی بے بسی ایک مجبور اور بے بس ماں کی تھی۔ وہ ماں جو ہر قیمت پر اپنے بچوں کو بچانا چاہتی ہے۔ وہ منتیں کر رہی ہے دیکھو میں تو مسلمان ہوں۔ دیکھو میں نے تو اپنے بچے کا نام بھی محمدر کھا ہوا ہے۔ پھر بھی تمہیں شک ہے کہ میں مسلمان نہیں ہوں۔ دیکھو جو تم کہتے ہو میں دہراتی جاتی ہوں۔ تم نے کہا احمدی کافر ہیں ہاں ہاں میں کہتی ہوں احمدی کافر بلکہ پکے کافر ہیں۔
پر مجھے کچھ نہ کہنا۔ میری جان بخش دو، میرے بچوں میرے خاندان کو کچھ نہ کہنا۔ اسے مشعال خان نہ بنا دینا دیکھو وہ تو محمد ہے۔ کوئی فتویٰ نہ لگا دینا۔ تب وہ صرف ایک سہمی ہوئی ڈری ہوئی ماں تھی۔ اسے اپنا معزز ہونا، آفیسر ہونا یا دنہیں تھا۔ صرف یہ سوچ رہی تھی کہ اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو کیسے ان درندوں سے بچا نا ہے۔ ہم واقعی اس معاشرے میں درندے پال رہے ہیں جنہوں نے ممتا کو بھی خوف ذدہ کر دیا ہے۔ ماں بھی اپنے بچوں کا مسلمانوں والا نام بتا بتا کر دہائی دے رہی ہے کہ میں مسلمان ہوں۔
جس ریاست میں اس کے اپنے آفیسر محفوظ نہ ہوں ا ور وہ بازاری چھوکروں کی عدالت میں جواب دہ ہوں۔ سرکاری دفتر میں گھس کر اس قدر دھمکایا جا رہا ہو زبان لڑکھڑا رہی ہو۔ تصور کیجئے اگر اس معزز آفیسر کی جگہ ایک نہتا احمدی ہوتا۔ ایک بے بس عیسائی ہوتا۔ تو اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا۔ اسے تو یہ سوال و جواب بھی نصیب نہ ہوتے اور مجاہدین اس کے خون سے ہاتھ رنگین کر کے اب تک اپنی دانست میں جنت کما چکے ہوتے۔ جو ریاست اپنے آفیسر زکو تحفظ دینے سے قاصر ہے وہ پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کی نمائندہ بننے کے خواب دیکھتی ہے۔ ا س صدی کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے۔
آج پوری دنیاسمجھ چکی ہے کہ جب پاکستان کا کوئی وزیر یاکوئی عہدیدار یہ اعلان کرتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو تمام حقوق محفوظ ہیں تو اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ ان اقلیتوں کے جملہ حقوق ان بازاری لوگوں کے ہاتھوں میں محفوظ ہیں۔ مکمل مذہبی آزادی کا مطلب ہے کہ ہم نے مجبور کر کے ان اقلیتوں کو اپنے اپنے مذاہب پر عمل کرنے سے روک کر انہیں مذہبی پابندیوں سے آزاد کر دیا ہے۔
ایسے میں جب وزیر برائے انسانی حقوق محترمہ شیریں مزاری صاحبہ فرماتی ہیں کہ احمدیوں کو تمام شہری حقوق حاصل ہیں اور انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ تو ان کی خدمت میں صرف یہ ویڈیو پیش کرنا کافی ہے کہ جہاں یہ خاتون صرف احمدیوں کا نام لے کر جان و عزت داؤ پر لگا بیٹھی ہے وہاں اس معاشرے میں احمدی ہونا اور احمدی کہلانا کس قدر محفوظ ہوگا۔
احمدیوں کے مطابق 1984 کے اینٹی احمدیہ ا ٓرڈیننس کے بعد اب تک 264 احمدی مذہب کے نام پر قتل کیے گئے۔ 388 پر قاتلانہ حملے ہوئے ہیں۔ 39 واقعات قبر کشائی کے ہو چکے ہیں 298 Cکی تلوار ہر احمدی کے سر پر ہمہ وقت لٹکتی رہتی ہے۔ احمدیوں کی کتب بین ہیں۔ بچوں کے رسائل، خواتین کے رسائل، نوجوانوں کے رسائل پر پابندی لگ چکی ہے۔ ہر قسم کی تبلیغی سرگرمیوں پر قدغن ہے۔ لیکن ریاست مدینہ جدید کے بانی عالمی میڈیا پر بھی کمال ڈھٹائی سے احمدیوں اور اقلیتوں کے حقوق کے ضامن بن کر ظاہر ہوتے ہیں۔ جب پابندیاں لگائی گئی ہیں تو پھر یہ جرأت کیوں نہیں کہ کھل کر کہ سکیں کہ ہاں ہم نے پابندی لگائی ہے۔
ہو سکتا ہے وہ کوئی اور ملک ہو جہاں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہو۔ کیوں کہ یہاں تو احمدیوں کو مکمل مذہبی اورشہری حقوق حاصل ہیں۔ کسی آفیسر کو اپنی جان بچانے کے لئے اپنے بچوں کا واسطہ نہیں دینا پڑتا۔