میں جب بھی گاؤں چلا جاتا ہوں تو میرے سامنے گاؤں کی وہی تصویر آویزاں ہوتی ہے جو میرے بچپن میں ہوا کرتی تھی۔ سوالات میرے گرد ڈیرہ ڈالتے ہیں۔ میرے گاؤں کے بچے اور بچیاں تعلیم سے محروم کیوں؟ کھوج لگانے کی کوشش کرتا ہوں مگر جواب تلاش نہیں کرپاتا ہوں۔ نہ ہی گاؤں کے مرد پڑھے لکھے اور نہ ہی خواتین۔ ایک دن ایک خاتون سے سامنا ہوا۔ بغل میں بیمار بچہ مسلسل روتا چلا جا رہا تھا۔ سوال ان سے یہی تھا کہ ڈاکٹر کو دکھایا تو کہنے لگیں ہاں دکھایا تو ضرور مگر ڈاکٹر نے کہا کچھ نہیں۔ جب رپورٹ دیکھی تو بچہ انیمیا کی بیماری کا شکار تھا۔
ماں پڑھی لکھی نہیں جو وہ خود رپورٹ پڑھ کر بیماری کا خاکہ نکال پاتی۔ بچہ تو بچہ ماں بھی خون کی کمی کا شکار۔ نہ خوراک کے لیے پیسے اور نہ ہی بچے کے لیے دودھ خریدنے کی استطاعت، دودھ کی بوتل سے بچے کو خاموش کرنے کے لیے وہ قہوہ چائے کا سہارا لے رہی تھی۔ اب بھلا ایسی فضا میں جن کے پاس خود کو خوراک مہیا کرنے اور بچے کو دودھ پلانے کے پیسے نہ ہوں تو بھلا وہاں کا باسی اپنی موجودہ نسل کو تعلیم کیسے دلا پائے۔
ایک ہزار آبادی پر مشتمل ضلع آواران کا گاؤں عبدالستار گوٹھ سستگان جھاؤ کے بچے گزشتہ تین سالوں سے حصول علم سے محروم ہیں۔ تین سال کے دوران کمیونٹی نے سکول کا مقدمہ بارہا تعلیمی ذمہ داران کے سامنے رکھا مگر ان کی آواز سنی ان سنی کر دی گئی۔ کمیونٹی سے جڑت کے باعث میری کیا ذمہ داریاں ہیں انہی خیالات نے مشیر تعلیم کو درخواست لکھنے پر آمادہ کیا۔ یہی خیال تعلیمی مہم کو آغازکرنے کا جواز فراہم کر گیا۔ 4 اکتوبر 2019 کو سکول کی فریاد ہم مشیر تعلیم بلوچستان کے پاس لے کر گئے۔
فریاد کے ممکنہ حل کے لیے انہوں نے ہمیں سیکرٹری ثانوی تعلیم بلوچستان کے پاس بھیج دیا۔ سکول میں نظام تعلیم کی بحالی کے 23 اکتوبر تک ہم سیکرٹری تعلیم کا دروازہ روزانہ کھٹکھٹاتے رہے۔ نہ ہی سیکرٹری تعلیم مل پایا اور نہ ہی مسئلہ حل ہو پایا۔ 19 دن کے طویل انتظار کے بعد 23 اکتوبر 2019 کو ہم نے تعلیمی مہم بعنوان ”بلوچستان ایجوکیشن سسٹم“ لانچ کیا جو تاحال جاری ہے مہم کو لانچ کرتے وقت ہم نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ ہماری یہ مہم فقط ایک بند سکول تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ہم بلوچستان بھر کے بند سکولوں کے لئے آواز بلند کرتے رہیں گے۔
چونکہ پرائمری سکول عبدالستار گوٹھ اس مہم کو بنیاد فراہم کر گیا تھا سو ہم نے مہم کا آغاز سوشل میڈیا اور میڈیا کے ذریعے اسی سکول سے کیا۔ ہماری جدوجہد رنگ لے آئی سکول کھل گیا۔ ایک استانی کے ساتھ سکول میں داخل بچے اور بچیوں کی تعداد 108 تک پہنچ گئی ہے۔ یہ نہ صرف ہماری مہم کی کامیابی تھی بلکہ ان بچوں کی بھی جنہیں جان بوجھ کر تعلیمی میدان سے دور رکھا جا رہا تھا۔
مہم کو ہم نے پورے ضلع آواران تک پھیلا دیا۔ رضاکاروں کی مدد سے ہم سکولوں کا سروے کرتے گئے۔ بلوچستان ایجوکیشن سسٹم کے اس سروے کے مطابق ضلع آواران میں سرکاری سکولوں کی تعداد 380 ہے جن میں 192 سکولز بند ہیں۔ بند سکولوں کی وجہ سے 10 ہزار کے قریب بچے حصولِ علم سے محروم ہیں۔ جوں جوں ہماری سروے کا سلسلہ طول پکڑتا گیا ایک بھیانک تصویر ہمارے سامنے یہ آگئی کہ سکولوں کی بندش اور تعلیمی تباہ حالی میں محکمہ تعلیم کے ذمہ داران کا ہاتھ ہے۔
جنہوں نے تعلیم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے اساتذہ کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی اور ان غیر حاضر اساتذہ کو تنخواہیں ان کے گھروں تک پہنچائی جا رہی تھیں۔ دورانِ سروے ہمارے پاس 210 غیر حاضر اساتذہ کی فہرست آگئی جنہیں سیاسی بنیادوں پر یا محکمہ تعلیم کے ذمہ داران سے بارگیننگ کرنے پر کھلی چھٹی مل گئی تھی۔ ہم نے دوران سروے 100 سے زائد ایسے سکولوں کی نشاندہی کی جن کا ڈھانچہ بغیر کسی ضرورت کے قائم کیا گیا تھا سکولوں کا ڈھانچہ کھڑا کرنے کا بنیادی مقصد تعلیم دلوانا نہیں بلکہ سیاسی ووٹرز اور سپورٹرز کو بلڈنگ، ملازمتوں اور بجٹ کی مد میں فائدہ پہنچانا تھا اور جہاں سکولوں کو عمارت کی ضرورت تھی وہاں بچے جگیوں کے اندر یا کھلے آسمان تلے حصولِ علم کے لیے مجبور تھے۔ سکول فرنیچرز، سائنسی سامان اور لیبارٹری سے محروم تھے۔ ضلع بھر میں 500 سے زائد اساتذہ کی پوزیشنز کئی سالوں سے خالی ہیں جنہیں جان بوجھ کر پر نہیں کیا جا رہا۔ پورے ضلع کا تعلیمی نظام فقط 10 سائنسی اساتذہ کے سہارا چل رہا تھا پریکٹیکل کلاسز کہیں پر بھی نہیں ہو رہے تھے۔
ہم نے دوران سروے 60 سے زائد ایسے سکولوں کی نشاندہی کی جو کئی سالوں سے بند تھے مگر 2019۔ 20 کے سالانہ بجٹ میں ان کے لیے بجٹ مختص تھا اور 100 سے زائد سکول ایسے تھے جو فعال رہنے کے باوجود کئی سالوں سے بجٹ سے محروم تھے اور یہ تمام صورتحال حاضر باش اساتذہ اور طلبا و طالبات کو اذیت پہنچا رہی تھی۔
ہم نے نہ صرف سکولوں کا سروے کیا اور شعبہ تعلیم کو درپیش مسائل اجاگر کیے بلکہ ذمہ داران سے ملے، صوبائی وزیر خزانہ بلوچستان، مشیر تعلیم بلوچستان، سیکرٹری سیکنڈری ایجوکیشن بلوچستان، ضلعی تعلیمی افسر ان و انتظامیہ، چیرمین CMIT، سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں، ماہرین تعلیم اور پالیسی سازوں سے ملے اور ان تک پیغام پہنچایا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان تک اپنی آواز بذریعہ خط پہنچانے کی کوشش کی۔
دورانِ سروے ہم نے محسوس کیا کہ شعبہ تعلیم کے اندر سیاسی بنیادوں پر ماضی میں جو جو بھرتیاں کی گئی تھیں غیر حاضر ہیں اور انہیں سیاسی جماعتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہی وجہ رہی کہ سیاسی جماعتیں ہماری مہم کی حمایت کرنے سے قاصر رہے تعلیم ذریعہ روزگار کا نعرہ جو ماضی میں لگایا گیا تھا اس کا عملی مظاہرہ تاحال کیا جا رہا ہے جس کا نقصان تعلیمی میدان کو ہو رہا ہے کہ اساتذہ اپنی علم منتقل کرنے نہیں بلکہ حصول روزگار کے لیے ہیں اور حصول روزگار کے متمنی یہ اساتذہ صرف تنخواہیں وصول کر رہے ہیں ڈیوٹی نہیں دیتے۔
بلوچستان کو شعبہ تعلیم کے اندر بہتری لانے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے بلکہ ان خلا کو پر کرنے کی ضرورت ہے جو ذمہ داران کی غلط پالیسیوں کے باعث بلوچستان کے بچوں کے سامنا ہیں۔ ہم نے سماجی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے ان پر کام کیا ہے ایک خاکہ لایا ہے اب یہ حکومت اور پالیسی سازوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان خلا کو پر کرنے کے لیے زبانی نہیں بلکہ عملی اقدامات اٹھائیں یہیں سے بلوچستان کو ترقی کی راہوں پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔
مہم کی سوشل میڈیا لنکس