”بیچارہ ناخوش ایرکؔ! کیا ہم اس پر تر س کھائیں؟ یا اس پر لعنت بھیجیں؟ وہ تو صرف ایک عام آدمی بننا چاہتا تھا، کسی بھی دوسرے شخص کی طرح مگر وہ بہت بدصورت تھا! اور اسے اپنی ذہانت کو چھپانا پڑا اس ذہانت کو شعبدے دکھانے کے لئے استعمال کرنا پڑا۔ اگر اس کا ایک عام سا چہرہ ہوتا تو وہ شاید انسانوں میں سب سے نمایاں ہوتا! اس کے پاس ایک ایسا دل تھا جس میں دنیا کی حکومت سما سکتی تھی مگر آخر میں اسے ایک تہہ خانے پر اکتفا کرنا پڑا۔ ہاں شاید ہمیں تہہ خانے کے بھوت پر ترس ہی کھانا چاہیے۔ “
(The Phantom of the Opera: by Gaston Leroux)
مگر تہہ خانے کے بھوت کا بھوت ہونا بھی تو ثابت نہیں۔ یہ جیتا جاگتا بھوت ہے۔ ایسا بھوت کہ جو منفی جذبات سے بھرا ہوا ہے۔ مگر وہ اصل میں بھوت نہیں ایک جیتا جاگتا انسان ہے۔ ایک ایسا انسان جو بہت بڑا شعبدے باز ہے۔ جو کہ خود کو بھوت ظاہر کرکے ’اوپیرا‘ کے منتظمین سے بھاری تاوان وصول کرتا ہے۔ ایک ایسا ذہین و فطین شخص جو کہ ایران و ترکی کے سلاطین کے لئے کام کرتا رہا ہے۔ اپنے شعبدوں اور اعلیٰ ذہن سے ان کو وہ کچھ ایجادات دیتا رہا ہے جن کا تصور بھی حیران کن تھا۔ مگر اب وہ ایک بہت بڑے، بہت وسیع و عریض اوپیرا ہاؤس کے تہہ خانے میں مقیم ہے۔
اس شیطانی ذہن کے حامل اور ہر جرم پر آمادہ اوپیرا کے بھوت، ایرک کی ایک کمزوری ہے۔ ایک کمزوری جس سے وہ اب تک ناواقف تھا۔ وہ کمزوری ہے اس کا دھڑکتا ہوا دل۔ وہی ل جو کہ محبت کرنے کا اہل ہے وہی دل جو اپنے اندر کسی نہاں خانے میں مثبت جذبات کو دبائے بیٹھا ہے۔ یہ دل بڑی ظالم شے ہے۔ بہت ظالم شے۔
اوپیرا کا بھوت یعنی ایرکؔ، اوپیرا کی حسین اداکارہ و گلوکارہ کرسٹینؔ ڈائی سے محبت کرنے لگتا ہے مگر وہ راؤلؔ سے محبت کرتی ہے۔ اپنے شعبدوں سے اوپیرا کا بھوت خود کو کرسٹین پر ظاہر کرتا ہے۔ مگر جو ایرک کو جانتا ہے، جان جاتا ہے، وہ ایرک سے ڈرتا ہے۔ اس کے بھیانک چہرے کو دیکھنے کی تا ب تو نہیں لاسکتا مگر پھر بھی اس سے ہمدردی محسوس کرنے لگتا ہے۔ خود کرسٹینؔ راؤلؔ کو ٹوک کر اس سے کہتی ہے، ”تم ایسے شخص کو کیسے برا کہہ سکتے ہو جسے تم نے کبھی نہیں دیکھا۔ جس ے بارے میں تم خود بھی کچھ نہیں جانتے؟ “
جب فارسی داروغہ بھی ایرک کا ذکر کرتا ہے تو اس کے ایک ہی جملے میں ایرک کے لئے بیک وقت ڈر بھی ہوتا ہے اور ہمدردی بھی۔ راؤلؔ حیرت سے اس رویے کو دیکھتا ہے وہ تو صرف کرسٹین سے محبت کرتا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ یہ ایرک ؔکون ہے۔ وہ اس سے ڈرتا نہیں نہ ہی وہ اس کے لئے کوئی ہمدردی محسوس کرتا ہے۔ مگر ایرکؔ سے ہمدردی کرنے والے بھی کب نظر بھر کر بھی اسے دیکھ سکتے ہیں۔ وہ دھوکے سے ’موسیقی کی روح‘ بن کر کرسٹین ؔکو اپنے تہہ خانے میں لے جاتا ہے۔ مگر جب وہ وہاں سے لوٹتی ہے تو ایرکؔ کے ذکر سے اور اس کی زیر زمین سلطنت کے تذکرے سے کانپ جاتی ہے۔ جب وہ اوپیرا کی اوپری منازل راؤلؔ کو گھما رہی ہے، ہنس رہی ہے، خوش ہے، تب راؤلؔ اس سے کہتا ہے،
”تم نے مجھے اپنی سلطنت کا اوپری حصہ تو گھما دیا مگر اس اوپیرا کی تہہ خانوں کی منازل کی بابت بھی عجیب باتیں کہی جاتی ہیں۔ کیا ہم وہاں چلیں؟ “ یہ سن کر کرسٹین نے یوں راؤل ؔکا بازو پکڑ لیا جیسے وہ ڈر گئی ہو کہ وہ اچانک زمین میں بن جانے والے کسی نامعلوم سیاہ دروازے میں غائب نہ ہوجائے۔ اس نے کانپتی آواز میں راؤلؔ سے کہا،
”کبھی نہیں، میں تمہیں کبھی نیچے نہیں جانے دوں گی۔ اور ویسے بھی تہہ خانہ میرا نہیں۔ جو کچھ بھی زیر زمین ہے وہ سب اس کا ہے! “
اس مقام پر یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کرسٹینؔ اور راؤلؔ کی اس گفتگو کے معنی صرف اس کہانی کے ہی تناظر میں ہیں یا وسیع تر معنوں میں اوپرا ہاؤس نفسِ انسانی کا استعارہ ہے اور اس کی تہہ زمین منازل (جن کی تعداد 7 ہے ) دراصل لاشعور ی تہوں کے استعارے ہیں۔ اگر گیسٹونؔ لیروکس کے اس ناول کا تجزیہ فرائیڈؔ کے مقالوں کو مدنظر رکھ کر رکئے تو اور ہی معانی اخذ ہوتے ہیں۔ ایرک ؔ جب سے لیروکس ؔکے قلم سے جاری ہوا ہے تب سے اس نے ہزاروں کہانیوں، فلموں اور ڈراموں میں دوسرا جنم لیا ہے۔
پھر وہ پاکستان ٹیلیویژن کا ڈرامہ ’دلدل‘ ہو کہ جس میں ایک سول سرونٹ لوگوں کے راز جمع کرکے بعد میں بلیک میلینگ کا ایک نظام بنانے کی سعی کرتا ہے یا بھارتی فلم ’ڈر‘ ، ’بازیگر‘ اور ’دھوم 3‘ مگر سب سے بڑ ہ کر بھارتی فلم ’وجود‘ ۔ پھر ہالی وڈ میں بھی انگنت مثالیں ہیں۔ یہ سب ایرک ؔکی بار بار تہہ خانے سے باہر آنے کے قصے ہیں۔ یہ سب اس کے جنم ہیں۔
فرائیڈ ؔنے ابتداء میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انسان میں دو طرح کی جبلتیں ہیں ایک وہ جو خود پرستی پر مبنی ہیں (یعنی selfishہیں ) اور دوسری وہ جو کہ غیر انا کی ملکیت ہیں یعنی جبلت محبت۔ مگر بعد میں فرائیڈؔ کا نظریہ تبدیل ہوا۔ اب بھی اس کی نظر میں انسان میں دو ہی جبلتیں تھیں، اول جبلتِ محبت، دوئم جبلت ِ مرگ۔ یہ دونون ہی جبلتیں لاشعور میں کہیں دبی رہتی ہیں اور ان کے اکثرمطالبات ضمیر اور انا کے لئے ناقابلِ قبول ہوتے ہیں۔
غور کیجئے، لیروکسؔ کا بنایا ہوا کردار ایرکؔ بدصورت ہے اور اس سے ہمدردی رکھنے والے بھی اسے نظر بھر کر نہیں دیکھ سکتے۔ فرائیڈؔ کے بقول لاشعوری جبلی خواہشات بھی اپنی حقیقی صورت میں بدصورت ہوتی ہیں اور شعور کے لئے (یعنی ان نظاموں کے لئے جو شعور میں قلعہ بند ہیں ) ناقابلِ قبول ہوتی ہیں۔ ایرک ؔجب سماج میں آتا ہے تو چہرے پر ماسک لگاتا ہے۔ لاشعوری خواہشات بھی صورت بدل کر سامنے آتی ہیں۔ ویسے تو ایرک ؔ جبلت مرگ کا نمائندہ ہے مگر وہ کرسٹین سے سچی محبت کرتا ہے۔ ایسی محبت جو کہ جو اس کے دل میں ایک بھوت کی زندگی، ایک تہہ خانے کی زندگی کی جگہ ایک عام زندگی کی خواہش جگاتی ہے۔ وہ کرسٹین سے کہتا ہے،
”میں اس طرح مزید زندگی نہیں گزار سکتا، جیسے کہ ایک چھچھندر بل میں رہتا ہے! میں نے ’ڈان جوآن فتحمند‘ مکمل کرلی ہے اور اب میں ہر عام انسان کی طرح ایک زندگی جینا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر ایک کی طرح میری بھی ایک بیوی ہو اور میں اتوار کو اس کے ساتھ باہر گھوم سکوں۔ میں نے ایک ایسا ماسک ایجاد کیا ہے جس کو لگانے کے بعد میں بالکل عام لوگوں جیسا لگوں گا۔ سڑک پر لوگ مجھے دیکھ کر مڑیں گے بھی نہیں۔ تم سب سے زیادہ خوش عورتوں میں سے ایک ہوگی۔
ہم ایک دوسرے کے لئے گانے گائیں گے اور ان گیتوں کے سرور میں کھو جائیں گے۔ تم رورہی ہو؟ تم مجھ ڈرتی ہو؟ میں اتنا ظالم نہیں ہوں۔ مجھ سے محبت کرو تو تم جان جاؤ گی۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ مجھ سے میری ذات کے لئے محبت کی جائے۔ اگر تم مجھ سے محبت کروگی تو میں ایک بھیڑ کی طرح نرم خو ہوجاؤں گا۔ اور پھر تم میرے ساتھ جو چاہو کرسکو گی۔ ”
اوپر مذکور اقتباس میں لیروکسؔ ’فرائیڈؔ سے بھی دو قدم آگے نکل گیا ہے۔ اس نے فرئیڈؔ کی جبلت مرگ اور جبلت حیات کی تصدیق کردی ہے۔ اس نے بتا دیا ہے کہ جبلت حیات ہی اصل ہے۔ جبلت مرگ کچھ بھی نہیں بس بھٹکی ہوئی جبلت حیات ہی ہے۔ محبت ہی اصل ہے۔ جب محبت کے بدلے محبت نہیں ملتی، خالص محبت نہیں ملتی تو جبلت حیات یعنی جبلت محبت گھُٹ کر وہ بن جاتی ہے جسے فرائیڈؔ جبلت مرگ کہتا ہے۔ یہ منفی جذبات، یہ فتنہ، یہ فساد، یہ شیطانیت، یہ سب محبت کی کمی کی پیداوار ہیں۔
جب ایرک فارسی داروغہ کے پاس آخری مرتبہ ملنے آتا ہے تو داروغہ کا دل کانپ رہا ہے کہ نجانے ایرکؔ نے کرسٹینؔ اور راؤل ؔکے ساتھ کیا کیا کردیا ہو۔ وہ جانتا ہے کہ ایرک کی قوت کے آگے یہ دونوں محبت کرنے والے کچھ بھی نہیں۔ مگر آج جب ایرک داروغہ کے گھر آیا ہے تو وہ بہت ہی کمزور ہے۔ اس کی قوت جاتی رہی ہے۔ اس کا سانس پھول رہا ہے۔ وہ سیدھا کھڑ ا بھی نہیں ہوپارہا۔ وہ داروغہ سے کہتا ہے،
”میں تم کو یہ بتانے آیا ہوں داروغہ کہ میں مررہا ہوں۔ محبت سے مررہا ہوں۔ میں اس سے اتنی محبت کرتا ہوں! ۔ داروغہ میں تم کو بتاتا ہوں! کاش تم جانتے وہ کتنی حسین تھی جب اس نے مجھے پہلی مرتبہ اپنا بوسہ لینے کی اجازت دی۔ وہ زندہ تھی۔ یہ پہلی م تبہ تھا داروغہ کہ میں نے کسی عورت کا بوسہ لیا۔ کسی زندہ عورت کا۔ ہاں داروغہ زندہ عورت کا۔ ہاں داروغہ زندہ عورت۔ میں نے اس کا بوسہ لیا۔ اور وہ اتنی حسین لگی جیسے وہ مرگئی ہو“
ایک لمحہ یہاں پر رکیے۔ یہاں پر پھر فرائیڈ ہمیں یاد آرہا ہے۔ یہ ایر کؔ کا کرسٹین ؔ کا بوسہ نہیں ہے یہ دراصل موت کا زندگی کی پیشانی پر بوسہ ہے مگر غور طلب بات وہ ہے جو اس کے نتیجے میں ہوتی ہے، جو ایرک ؔبتاتا ہے،
”میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ میں مرنے والا ہوں۔ میں نے اس کا زندہ حالت میں بوسہ لے لیا“
داروغہ گھبرا کر پوچھتا ہے، ”کرسٹین ؔتو زندہ ہے ناں؟ “
”میں تم کو بتا رہا ہوں میں نے اس کو بالکل ایسے پیار کیا اس کی پیشانی پر اور اس نے اپنی پیشانی میرے لبوں سے دور نہیں ہٹائی! ۔ اوہ! وہ ایک اچھی لڑکی ہے! اور وہ مرگئی ہو ایسا میں سوچ نہیں سکتا: او ر اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ نہیں نہیں وہ زندہ ہے! اور کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ وہ ایک اچھی سچی لڑکی ہے“ پھر وہ بیان کرتا ہے کہ کیسے اس نے کرسٹینؔ کے وعدے پر راؤلؔ اور داروغہ کی جاں بخشی کی تو وہ اس کی دلہن بننے پر تیار تھی۔ جب ایرکؔ نے کرسٹینؔ کے ماتھے پر بوسہ کیا تو وہ پیچھے نہ ہٹی۔ پھر ایرکؔ کہتا ہے،
”داروغہ میری اپنی ماں۔ میری اپنی بدقسمت ناخوش ماں مجھے کبھی اپنا بوسہ نہیں لینے دیتی تھی۔ وہ مجھ سے بھاگ جایا کرتی تھی۔ اور میری طرف میرا ماسک پھینک دیتی“
اس ایک بوسے نے ایرک کی ساری قوت جذب کرلی وہ کرسٹین کے قدموں میں گرگیا۔ وہ رونے لگا۔ اس نے کرسٹین ؔاور راؤلؔ کو آزاد کردیا۔ ماں کی محبت نہ ملنے سے جبلت مرگ تقویت پاتی ہے، کبھی بھی محبت مل جانے سے یہ مرگ کی قوت (کہ جس کی تجسیم ایرکؔ ہے ) مرجاتی ہے۔ جب قوت مرگ قوت حیات کا بوسہ لے گی تو حیات باقی رہے گی اور موت مرجائے گی۔ ایرکؔ تو مرجائے گا مگر اس کی محبت زندہ رہے گی۔ کیونکہ محبت مر نہیں سکتی۔ یعنی جبلت حیات کو جبلت مرگ پر سبقت حاصل ہے۔ ایرک کی قوت ظاہری طور پر بے پناہ سہی، وہ ہزاروں انسانوں کو ماردینے، شہروں کو ویران کردینے کی قدرت رکھتا ہے مر ایک بوسہ اسے مار سکتا ہے۔ تہہ خانوں کی ظلمتوں کا باسی ایرک محبت میں جل گیا۔ بقول میرؔ،
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور