فیس بک نے اکاؤنٹ بلاک کیا تو ٹویٹر کا خیال آیا، اگرچہ چند سال سے ٹویٹر اکاؤنٹ ایکٹیو ہے لیکن سماجی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اب فیس بک اکاؤنٹ بلاک ہوا تو ساری توجہ اسی پر مرکوز ہو گئی لیکن چند ہی ہفتوں میں میری بس ہو گئی۔ خیال تھا کہ ٹویٹر فیس بک کی نسبت قدرے میچور ہے لیکن گزشتہ ایک ہفتے ٹویٹر کے ٹاپ ٹرینڈز دیکھ کر تسلی ہو گئی یا پنجابی مقولے کے مطابق ٹھنڈ پڑ گئی۔
ٹویٹر پر اس ایک ہفتے کے دوران اگر لاہور پی آئی سی واقعہ کے علاوہ کوئی چیز نظر آئی تو وہ ”مولانا خادم حسین رضوی“ کی تصویر تھی۔ اگرچہ میں مولانا کے بارے اب بھی کسی قدر حسنِ ظن رکھتا ہوں لیکن مولانا کے بیانات کو جن ہیش ٹیگز کے ساتھ استعمال کیا جا رہا تھا وہ قدرے پریشان کن تھا۔ پہلے دن جو ہیش ٹیگ نظر آیا وہ ”مانی مینٹل زبان کو لگام دو“ تھا۔ 80 ہزار سے زائد افراد اس ہیش ٹیگ کے تحت اپنے ملفوظات بشمول مغلظات عوام کی نذر کر چکے تھے۔
اگلے دن ”قدر نبی دا نیازی کی جانے“ کا ہیش ٹیگ مقبول ترین رہا۔ جس میں اکثریت نے یہ مطالبہ کر رکھا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف 295 سی کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔ دو دن پھر سانحہ پی آئی سی ٹاپ ٹرینڈ رہا اور پھر ”گستاخ حکمران نامنظور“ کا ٹرینڈ ٹاپ پر آ گیا، جب میں نے چیک کیا، اسے بھی کوئی 35 ہزار سے زائد افراد ٹویٹ کر چکے تھے۔ اس کے مقابل ”عمران خان سچا عاشق“ کا ٹرینڈ چل رہا تھا۔ یعنی اب کسی کے ایمان و کفر، عشق و گستاخی کا فیصلہ ٹویٹر کا ٹاپ ٹرینڈ کرے گا۔
یہ اس طبقے کی بات ہو رہی ہے جو قدرے بہتر طبقہ ہے۔ یہ طبقہ سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی عیاشی افورڈ کر سکتا ہے۔ اور محض افورڈ نہیں کرتا بلکہ اس کا استحصال بھی کر سکتا اور کرتا ہے۔ آپ کے ہاتھ میں سمارٹ فون اور انٹرنیٹ ہے تو جسے چاہیں کافر قرار دیں، جسے چاہیں گستاخ قرار دیں، جسے چاہیں گردن زدنی قرار دیں، جسے چاہیں سنگسار کرنے کی خواہش کریں کوئی روک ٹوک، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مجھ ایسا فقیر پُرتقصیر تو اتنا بھی یارا نہیں رکھتا کہ ان پر سوال اٹھا سکوں لیکن تاریخِ اسلامی کا ایک ٹریلر ضرور سامنے رکھنا چاہوں گا۔
اگر میں دورِ صحابہ کرامؓ سے اغماض برتتا ہوا آگے بڑھتا ہوں تو۔ کتب یہ بتاتی ہیں کہ جنید بغدادی، امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام مالک، امام بخاری پر کفر، گستاخی، بدعتی اور نجانے کون کون سے فتوے لگائے گئے۔ سنن نسائی کے مولف امام نسائی کو تو گستاخی کا الزام لگا کر قتل کر دیا گیا تھا۔ شیخ عبدالقادر جیلانی جیسے صاحبِ شریعت ہوں یا اکبر محی الدین محمد ابن العربی جیسے صوفی، جلال الدین رومی جیسے شاعر ہوں یا ابن خلدون جیسے فلسفی، فتوؤں سے کون بچ سکا ہے؟
مشہور فارسی شاعر جامی، صوفی عطار پر کفر کا فتوی لگایا گیا، حسین بن منصور حلاج کو کافر قرار دے کر سولی چڑھا دیا گیا، سرمد کی گردن ماری گئی۔ امام غزالی نے جب احیاء العلوم لکھی تو فتویٰ لگا کر ان کی کتابیں جلا ڈالی گئیں۔ امام ابن تیمیہ پر مصر کے درجنوں مفتیان نے کفر کا فتوی لگایا۔ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی پر ان کے مکتوب کی بنا پر کفر کا فتوی لگا۔ قرآن حکیم کا ترجمہ کرنے کی پاداش میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی گستاخ قرار پائے اور متعدد بار ان پر جان لیوا حملہ ہوئے، اسی باعث قرآن کا فارسی میں پہلا ترجمہ کم و بیش 19 سال میں مکمل ہوا تھا۔
محمد بن عبدالوہاب کو آج بھی گمراہ و کافر، گستاخ و مرتد اور نجانے کیا کچھ کہا جاتا ہے۔ ابن قیم کو کافر کہا گیا، سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید پر کفر و گستاخی کے فتوے لگائے گئے۔ ایک مجتہد، جنہوں نے سید کو کافر کہنا کفر قرار دیا تھا، خود ان دونوں حضرات کو اپنے صریرِ فتویٰ سے کافر قرار دیا اور اپنے فتویٰ کی رو سے خود بھی ”خطِ ایمان و اسلام“ سے بے دخل قرار پائے۔ سرسید احمد خان پر فتویٰ لگانے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ پوری کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔
قریب ایک صدی قبل مولانا شبلی نعمانی اور مولانا حمید الدین کے بارے ایک ”حکیم الامت“ نے فتوی جاری کیا کہ یہ دونوں حضرات کافر ہیں اور ان کا مدرسہ الاصلاح مدرسۂ کفر و زندیقہ ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد کو مولانا انور کشمیری نے گمراہ قرار دے کر ان کی تفسیر القران پڑھنے سے منع کیا۔ مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبال آج جن کے کلام کے بغیر عشاق کے دروس مکمل نہیں ہوتے، کو بھی گستاخ و کافر قرار دیا گیا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو احراری مولوی مظہر علی مظہر نے ”کافر اعظم“ قرار دیا۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کو گمراہ، بے دین، گستاخِ صحابہ، کافر اور سو یہودیوں کے مثل قرار دیا گیا۔ بھٹو کے فلسفہ سوشلزم کو سینکڑوں علما نے کفر قرار دیا۔ علامہ جاوید احمد غامدی، ڈاکٹر طاہر القادری، ڈاکٹر اسرار احمد، مولانا طارق جمیل، مفتی طارق مسعود، اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف فتویٰ بازی کا تو میں نے اپنی گنہگار آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔
اگر آج اہلِ سنت کے تینوں بڑے مسالک (دیوبند، اہل حدیث اور بریلوی) کے اکابرین کا ذکر کیا جائے تو کون ہے جس پر دوسرے مسالک والوں نے فتویٰ نہیں لگایا؟ حد تو یہ ہے کہ جو آج بھی فتویٰ بازی میں مشغول ہیں، خود ان کے خلاف بھی، ان کے ہم مسلک و مخالف مسلک کے مفتیان فتویٰ دے چکے ہیں۔ یہاں تو وہی شعر یاد آتا ہے کہ
اتنی نہ بڑھا پاک ئی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
ستمبر 2013 ء میں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی کی زیرِ صدارت منعقدہ کونسل کے اجلاس میں سفارش کی گئی تھی کہ ”توہینِ رسالت کا جھوٹا مقدمہ درج کرانے والے کو بھی توہینِ رسالت کی سزا یعنی موت کی سزا دی جائے“، لیکن اس تجویز پر کونسل کے اپنے ممبران میں ہی اختلاف ہو گیا تھا۔
دیے جائیں گے کب تک شیخ صاحب کفر کے فتوے
رہیں گی ان کے صندوقچہ میں دیں کی کنجیاں کب تک
صحیح بخاری ( 6104 ) اور مسلم ( 60 ) میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب کوئی آدمی اپنے بھائی کو کافر قرار دیتا ہے تو وہ حکم ان دونوں میں سے ایک پر لاگو ہو جاتا ہے۔ اسی حدیث کے ایک اور الفاظ یہ بھی ہیں :اگر تو وہ ایسا ہی تھا جیسا اس نے کہا (تو ٹھیک) بصورتِ دیگر وہ حکم اسی پر لوٹ جائے گا (یعنی فتویٰ لگانے والا کافر قرار پائے گا) ۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے ہاں فتویٰ بازی کا رجحان اس قدر عام ہے کہ ہمیں یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں لگتا، کلمہ گو مسلمان کو ایک لمحے میں کافر، اگلے ثانیے میں مرتد اور اگلی ساعت میں گستاخ، جہنمی، حتیٰ کہ واجب القتل تک قرار دینا ہمیں بچوں کا کھیل محسوس ہوتا ہے۔
”اردو کی آخری کتاب“ کا یہ اقتباس ہر دور سے ہم آہنگ رہا، ابن انشا نے دائرہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ”دائرے چھوٹے بڑے ہر قسم کے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ قریب قریب سبھی گول ہوتے ہیں۔ ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ ان میں قطر کی لمبائی ہمیشہ نصف قطر سے دگنی ہوتی ہے۔ جیومیٹری میں اس کی کوئی وجہ نہیں لکھی گئی۔ جو کسی نے پرانے زمانے میں فیصلہ کر دیا، اب تک چلا آ رہا ہے۔ ایک دائرہ اسلام کا دائرہ کہلاتا ہے۔ پہلے اس میں لوگوں کو داخل کیا کرتے تھے، آج کل داخلہ منع ہے، صرف خارج کرتے ہیں“۔
اسی طرح 2015 ء میں ”کافر، کافر، کافر، کافر“ کے عنوان سے استاذی عطاء الحق قاسمی نے ایک کالم میں لکھا تھا ”کافر سازی کی صنعت جہاں بہت دلخراش ہے، وہاں بہت دلچسپ بھی ہے، کبھی تو مختلف مسالک کے مفتیان کرام مشترکہ طور پر کسی کو کافر قرار دیتے ہیں اور کبھی علیحدہ علیحدہ ایک دوسرے کو کافر اور مشرک“ ثابت ”کیا جاتا ہے، میری ذاتی لائبریری میں لٹریچر کے علاوہ مختلف ادیان اور مختلف مسالک کے علماء کی کتابیں موجود ہیں ان میں ایسی کتابیں بھی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کے تمام مسالک کے بعض مفتیان کرام ایک دوسرے کو کافر اور مشرک قرار دے چکے ہیں۔
حتیٰ کہ دیو بندی اور بریلوی مکاتب کے بڑے ستون بھی اس کی زد میں آ چکے ہیں۔ اہل حدیث کو بھی دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جا چکا ہے اور اہل تشیع بھی کافر ہیں۔ عوام نے ان فتوؤں میں سے کسی فتوے کو تسلیم نہیں کیا لیکن اگر ان سب مسالک کے کچھ مفتیان صاحبان کی رائے کو تسلیم کر لیا جائے تو پاکستان کے بیس کروڑ مسلمان دائرہ اسلام سے خارج کیے جا چکے ہیں کیونکہ یہ سب کے سب کسی نہ کسی مسلک کے پیرو کار ہیں، پھر کون کہتا ہے پاکستان کی آبادی 99 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے؟ ”
تعلیماتِ شریعت کا مطالعہ کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ انتہا درجے کی خوشی، غم یا خوف وغیرہ میں بندے کے منہ سے کلمہ کفر نکلنے کے حوالے سے حدیث موجود ہے (صحیح مسلم: 2744 ) ، کفر اس وقت تک ثابت نہیں ہوتا جبکہ بندہ بقائمی ہوش و حواس، بلا جبر و کراہت کلمہ کفر فہم سمجھتے ہوئے ادا کرتا ہے۔ اگر کوئی کفریہ جملہ ادا کر بھی دیتا ہے تو تب تک اس پر حکم ساقط رہے گا جب تک وہ معانی سمجھ کر اس کا اعادہ نہ کرے۔ اسی طرح اہلِ علم نے یہ بھی لکھا ہے اگر کوئی شخص نو مسلم ہے اور وہ کسی فریضے کا انکار کر دیتا ہے تو بھی وہ اس وقت تک کافر نہیں ہوگا جب تک اسے اس فریضے کے بارے میں بتلا نہ دیا جائے۔
لیکن ہمارا فوکس ہماری پسند و ناپسند ہوتی ہے۔ ہم صرف اگلے کے الفاظ پکڑتے ہیں (جیسا ڈاکٹر ذاکر نائیک کے کیس میں ہوتا رہا) ۔ حالانکہ عربی، انگریزی یا دیگر کئی زبانوں میں اردو کے برعکس ایک کام کے لیے ایک ہی لفظ ہے لیکن ہم نے اپنے ذخیرۂ الفاظ کے سبب عاشق اور گستاخ کی زبان کا معیار مقرر کر رکھا ہے۔ ہمارے ہاں الفاظ بھی کافر و مسلم، عاشق و گستاخ ہوتے ہیں۔ (یہاں میں خدانخواستہ کسی کی غلطی کی تاویل پیش نہیں کر رہا اور نہ میرا کوئی ایسا مقصد ہے، بلکہ میرا تو عقیدہ ہے کہ معمولی شک و شبہ کی بنیاد پر بھی ایسے نازک و حساس معاملات پر معافی مانگنے، معذرت اور توبہ کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے ) اسی لیے ہم ان الفاظ کے استعمال پر جنہیں ہم کافر و گستاخ سمجھتے ہیں، اگلے کو گردن زدنی قرار دینے میں سیکنڈ کی بھی دیر نہیں لگاتے، یہ جانے بغیر کہ وہ شخص زبان و بیان کی ان باریکیوں سے واقف بھی ہے یا نہیں۔
ضلع اٹک کی اسسٹنٹ کمشنر جنت حسین کا معاملہ ہو یا وزیراعظم عمران خان کا (ویسے وزیراعظم کے ساتھ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا، انہیں یہ مشورہ قابلِ غور سمجھنا چاہیے کہ مذہبی معاملات پر تحریری تقریر پر اکتفا کریں)، ہمارا سارا زور مفہوم سمجھنے کے بجائے الفاظ پکڑنے پر ہوتا ہے۔ جو ہمیں پسند ہے، اس کی بڑی سے بڑی غلطی بھی ہم معاف کر دیتے ہیں لیکن جو نہیں پسند، یا جس سے سیاسی اختلاف ہے، کسی مخصوص لفظ پر اس کی زبان کی ہکلاہٹ بھی اس کا ناقابلِ معافی جرم بن جاتی ہے۔
ماضی قریب میں رانا ثناء اللہ، پرویز رشید اپنے ایمان کی وضاحتیں دیتے پھرتے تھے، آج وزیراعظم کو اپنے بیان کی وضاحت کرنا پڑے گی اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا، آخر کو ہماری ایمانی رمق کا بھی اسی سے اندازہ ہو گا کہ ہم نے اس کو فیس بک اور ٹویٹر پر برا کہا یا محض دل میں برا جانا؟ اور کسے خبر کہ
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کے
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے