سانحہ بغداد کے بعد سقوط ڈھاکہ عالمِ اسلام کے تاریک ترین ایام میں سے ایک ہے۔ سقوط ڈھاکہ جب پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے گئے، غیروں کی ریشہ دانیوں کا تو ذکرہی کیا، اپنوں کی بے بصیرتی اور نا انصافی بھی حدوں سے گزر گئی تھی۔ یہ وہ دن ہے جس کی یاد تازہ ہوتے ہی آج بھی محب الوطن پاکستانیوں کے دل میں ایک ٹھیس سی اٹھتی ہے۔ 1971 سے لے کر آج تک جب بھی سولہ دسمبر آتا ہے اپنے ساتھ اُس دن کی تلخیاں اور اس کے بعد منظرِعام پر لائی جانے والی شرمناک سچائیاں اور چھوٹی کہانیوں کی چبھن بھی اپنے ساتھ لاتا ہے۔ آج بھی بہت سارے سوال اپنے حقیقی جوابات کے متلاشی ہیں۔
را کے ایک سابق افسر آر کے یادیو نے اپنی کتاب مشن آر اینڈ اے ڈبلیو (Mission R and AW) 2014 ء میں انکشاف کیا ہے کہ اندرا گاندھی نے 1967 ء میں آئی بی کے سینئر افسر آر این کاؤ کے ساتھ مل کر ایک خفیہ منصوبہ تیار کیا۔ جس کا مقصد مشرقی پاکستان، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں بغاوت کے جذبات کو تقویت دے کر ان کو علیحدہ ریاستوں میں تبدیل کرنا تھا۔ اس منصوبے کو ”کاؤ پلان“ کا نام دیا گیا۔ باوثوق شہادتوں کے مطابق شیخ مجیب الرحمن بھارتی خفیہ ایجنسی سے 25 ہزار روپے ماہانہ وصول کرتے تھے۔
حسینہ واجد نے مجیب کی یادداشتوں پر مبنی کتاب (آکسفورڈ) میں تسلیم کیا ہے کہ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے ایک خفیہ تنظیم قائم کررکھی تھے۔ اگرتلا سازش کیس بے بنیاد نہ تھا جو سیاسی مصلحتوں کی نذر ہوگیا۔ خفیہ ایجنسی را نے گہری سوچ بچار کے بعد چھ نکات تیار کیے جن کا بنیادی مقصد پاکستان کو پانچ ٹکڑوں میں تقسیم کرنا تھا۔
نشے اور عورت کے وجود میں گم جنرل یحییٰ اس منصوبے کا ادراک نہ کرسکا۔ اندرا گاندھی نے امریکہ اور چین کو پاکستان کی مدد سے باز رکھنے کے لئے روس سے دفاعی معاہدہ کرلیا۔ جنرل یحییٰ نے اقتدار کے نشے میں سیاسی مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کی بجائے فوجی آپریشن شروع کردیا۔ را نے مکتی باہنی تیار کی تاکہ مشرقی پاکستان کے اندر فوج کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کیا جا سکے۔ یوں گھر کو گھر کے چراغ سے ہی آگ لگائی گئی۔
مگر ہندوستان اپنے اس موقف میں ناکام رہا کہ سقوط ڈھاکا ایک نظریے کی موت بنا وہ نظریہ کہ جس نے برصغیر کے ہانپتے کانپتے ہجوم کو بطور قوم ایک پلیٹ فارم پر جمع کر لیا تھا۔ وہ نظریہ جس نے قدم قدم پر اغیار کی گندی سوچ کو شکست دی تھی۔ جس نے 1965 کی جنگ میں ہندو کی ہر سازش کو اپنے قدموں تلے روند ڈالا تھا۔
انڈیا اپنے صرف ایک مقصد پاکستان کو دولخت کرنے میں ہی کامیابی حاصل کر سکا، جس میں اسے بنگالی سیاست دانوں، فوجیوں، بیورہ کریسی اور علماء کی مکمل خاموش حمایت حاصل ہوئی۔ یعنی کامیابی صرف یہ ہے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش تو بن گیا مگر بھارت میں ضم نہیں ہوا، جس سے بھارتی سیاستدانوں کے سارے نظریے باطل ہو گئے اور دو قومی نظریہ، اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود رہا۔
سانحہِ مشرقی پاکستان کے حوالے سے بھارت کاسازشی کردار، شیخ مجیب الرحمان کامنفی رویہ اور سوچ، بیوروکریسی کی پالیسیاں، اس وقت کی عسکری اشرافیہ کی عیاشیاں،
مغربی پاکستان سے اُبھرتی ہوئی نئی سیاسی جماعت کا ہوسِ اقتدار یہ سب نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اگر ہم اس سے بھی پہلے ماضی سے جائز ہ لینا شروع کریں اور حالات دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا بھاشانی پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے حق میں نہیں تھا۔ پاکستان بنتے ہی اُس نے اِس حوالے سے سازشیں کرنا شروع کر دیں۔ شیخ مجیب الرحمان اُ سی کا شاگرد تھا۔
قیامِ پاکستان کی جدوجہد کے دوران ایک بات دیکھنے میں آئی تھی کہ حقوق کی بابت کوئی بات نہیں کرتا تھا بس یہ موقف تھا کہ ایک ایک ایسی ریاست جہاں ہم اسلام اور شریعت کے مطابق زندگی گزاری جائے۔ جیسا کہ 13 جنوری 1948 کو
اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کے دوران قائداعظم نے کہا تھا :
” ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔ “
جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان زبان اور رنگ و نسل کے فروغ کے لئے نہیں بنا تھا تاہم قائداعظم کے بعد سارے بنیادی اصول ختم ہو گئے۔ صرف علاقائیت، لسانیت اورفرقہ واریت باقی رہ گئی۔ پاکستان بننے کے بعد مولانا بھاشانی نے بنگالی حقوق کاواویلا مچاتے ہوئے نظریہ پاکستان اور مذہب کو درمیان سے نکال کر صرف ا ور صرف صوبائیت اور زبان کو فروغ دینا شروع کر دیا۔
سرکاری زبان کے مسئلے کو لے کر اس فسادی گروہ نے ایک منظم تحریک کا آغاز کیا۔ مشرقی پاکستان سے لسانی فسادات نے سر اُٹھایا توقائد اعظم محمد علی جناح نے بذاتِ خود وہاں کا دورہ کیا اور مارچ 1948 میں ڈھاکا میں خطاب کے دوران رنگ ونسل اور زبان کے امتیازات کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہاکہ:
”میں چاہتا ہوں کہ آپ بنگالی، سندھی، بلوچی اور پٹھان وغیرہ کی اصطلاحوں میں بات نہ کریں۔ کیا آپ وہ سبق بھول گئے ہیں جو تیرہ سوسال پہلے آپ کو سکھایا تھا۔ یہ کہنے کا آخر کیا فائدہ ہے کہ ہم پنجابی ہیں ’ہم سندھی ہیں‘ پٹھان ہیں : ہم تو بس مسلمان ہیں۔ “
تاہم آنے والے دنوں میں عداوت کی ایسی اندھی ہوا چلی کہ اپنوں کی تمیز ختم ہو گئی 1970 / 71 کے انتخابات کے نتائج میں برتری کے باوجود جب بنگالیوں کو اقتدار نہیں ملا تو اُسی بنیاد پرعلیٰحدگی کی تحریک زور پکڑ گئی۔ ہندوستان نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور بنگالیوں کی امداد کے بہانے پاکستان پر جنگ مسلّط کر دی جس کا انجام سقوطِ ڈھاکا کے شرمناک المیہ پر ہوا۔
شیخ مجیب الرحمان جو اس سارے فتنے کی ایک اہم ترین جڑ تھا اقتدار ملتے ہی اپنے اوقات پر آ گیا اور صرف 3 سال کے عرصے میں اتنی کرپشن کی کہ اُس کے اپنے ہی لوگوں نے اُسے خاندان سمیت قتل کر دیا اور اُس کی لاش بے گور وکفن ڈھاکا کی سڑکوں پر پڑی رہی۔ دوسری جانب اُس کے حق میں بنگلہ دیش کی کسی کونے سے کوئی آواز بھی نہیں اُٹھائی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ایسے جُرم میں پھانسی کی سزا سنائی گئی جس کی اُ س پر صرف پلاننگ کا الزام تھا۔ جنرل ٹکا خان کو بھی وقت نے تڑپتے ہوئے ہی پایا۔ اندرا گاندھی اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچی۔ دیکھ لیں جس جس نے محمد علی جناح کے پاکستان، اقبال کے خواب اور جدوجہد پاکستان کے بنیادی نظریے اور سوچ کو نقصان پہنچایا تاریخ نے اُن کی اور اُ نکے خاندان کی دھجیایاں اُڑتے دیکھیں۔ مجرموں کو سزا ویسے ہی ملی جیسے لکھی گئی تھی جو پاکستان کے ساتھ برا کرے گا اُس کو اپنے انجام کے لئے تیار رہنا چاہیے۔
بنگال اور بنگالی پاکستان کی جدوجہد کا روشن ترین باب ہیں مسلم لیگ کی بنیادیں وہیں سے اٹھی تھی تاہم اپنوں کی ہوسِ اقتدار اور اغیار کی سازشوں نے پاکستان اور اسلام کی تاریخ کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ سقوطِ ڈھاکا کی تاریخ ایک ایسا سبق ہے جس کے اسباب اور نتائج کو ہمارے پالیسی میکرز کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے تاہم اس امر سے بھی انکار نہیں کہ اُس سانحہ سے وابستہ سچائیوں کو ہمیشہ توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے اور بہت سی حقیقتیں چھپا لی جاتی ہیں۔ یہ اپنوں کی غداری کا ایک ایسا سیاہ باب ہے جس کا فریب آج بھی قائم ہے اور لوگوں کی نظروں کو مسلسل دھوکہ دیے چلا جا رہا ہے۔
بلاشبہ سقوط ڈھاکہ، نے تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا۔ سیاست، ادب اور سماج سارے ہی اس کے زیر اثر آ گئے۔ سماجی اثرات تخلیقی صورتوں میں سامنے آئیں۔ نثر، نظم اور غزل میں اس دردکو جس طرح سمیٹا اس کی مثال نہیں ملتی جیسا کہ اس تناظر میں فیض احمد فیض کی نیچے دی گئی مشہور زمانہ غزل سرفہرست ہے۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد